Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 77
سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا۠   ۧ
سُنَّةَ : سنت مَنْ : جو قَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا قَبْلَكَ : آپ سے پہلے مِنْ : سے رُّسُلِنَا : اپنے رسول (جمع) وَلَا تَجِدُ : اور تم نہ پاؤگے لِسُنَّتِنَا : ہماری سنت میں تَحْوِيْلًا : کوئی تبدیلی
ہم تجھ سے پہلے جو پیغمبر بھیج چکے ہیں ان سب کے معاملہ میں ہمارا ایسا ہی قاعدہ رہا ہے اور ہمارے ٹھہرائے ہوئے قاعدوں کو تو کبھی بدلتا ہوا نہ پائے گا
جتنے رسول ہم نے بھیجے جو ان کے ساتھ ہوا وہی آپ ﷺ کے ساتھ ہوگا اور ہمارا فیصلہ بدلتا نہیں : 95: نوح (علیہ السلام) سے شروع کر کے سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) تک جتنے نبیوں اور رسولوں کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ایک ایک کے حالات دیئکھتے چلے جاؤ ، اس کے بعد تاریخ و سیر کی کتابیں دیکھتے چلے جاؤ ایک بھی نبی و روسل آپ کو نہیں ملے گا جس کے ساتھ یہی کچھ نہ ہوا ہو ، جو اس جگہ بیان ہوا کہ نبی کی ہجرت کے بعد اس قوم کو تہس نہس کردیا گیا ، گویا نبی و رسول کا قوم میں رہنا ہی ان کی زندگی کا باعث تھا اگرچہ وہ وہ نبی و رسول کو نہیں مانتے تھے۔ اس کی مکمل تفصیل ہم پیچھے سورة الانفال میں کرچکے ہیں ، اس لیے عروۃ الوثقیٰ جلد چہارم میں سورة الانفال کی آیت 33 ، 34 کو دیکھیں۔ رہی یہ بات کہ ” اللہ کا طریقہ بدلتا نہیں “ اس بات کا ذکر قرآن کریم میں کئی مرتبہ کیا گیا ہے اور ہر بار یہی ارشاد فرمایا کہ ” ہمارے دستور میں ردوبدل نہیں ہوتا “ لیکن لوگوں نے اس بات کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہونے کے اس جملہ کو خلاف سمجھے اور ان لوگوں کی تضحیک و تسفیق کرتے رہے جن لوگوں نے ان آیات کو پیش کیا اور ان کو جواب دیا کہ اللہ کے کلمات تنے ہیں کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ اللہ کے کلمات کو کوئی شمار کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا لیکن جن کلمات کی اس نے وضاحت فرما دی ہے اور طے کردیا ہے کہ اس کلمہ کے لیے ہم نے طریقہ مقرر کردیا ہے اس میں ردوبدل ممکن نہیں۔ ہاں ! جن کلمات کی تشریح نہیں فرمائی ان کی ہم اپنی طرف سے کوئی حتمی وضاحت نہیں کرسکتے لیکن جن کی وضاحت فرما دی ہے اور طے کردیا ہے کہ اس کلمہ کے لیے ہم نے طریقہ مقرر کردیا ہے اس میں ردوبدل ممکن نہیں۔ ہاں ! جن کلمات کی تشریح نہیں فرمائی ان کی ہم اپنی طرف سے کوئی حتمی وضاحت نہیں کرسکتے لیکن جن کی وضاحت فرما دی ہے اس میں ردوبدل تسلیم کرنا تو کھلا قرآن کریم کا انکار ہے اور ظاہر ہے کہ انکار کسی ایک آیت کا ہو یا سارے قرآن کا ایک ہی معنی رکھتا ہے۔ مثلاً زیر نظر آیت میں اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ جنہیں ہم نے نبی و رسول بنا کر بھیجا اگر قوم نے ان کو اس جگہ سے نکل جانے پر مجبور کردیا تو ہم نے ان کو اس جگہ سے ہجرت کر جانے کا حکم دیا اور پھر جب وہاں سے نکل جانے کا حم نے حکم دے دیا تو اس کے بعد اس کے مخالفین کو اس طرح عذاب میں رفتار کیا کہ انجام کار ان کا خاتمہ کردیا گیا اور باقی وہی لوگ رہے جو اس نبی و رسول کے ماننے والے تھے اگرچہ ان بچنے والوں نے و ہی کام دوبارہ شروع کردیئے جو ان کے پیشرو کرتے رہے تو اب اس کے خلاف کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی کہ فلاں نبی نے ہجرت کی اور اس کی قوم بھی بدستور کفر پر قائم رہی لیکن اس کو مٹایا نہیں گیا۔ اس طرح انسان کی پیدائش اور انتقال اولاد کے ہونے نہ ہونے کے قاعدے مقرر کردیئے اور ان کا اعلان کردیا اور اس کے خلاف نہ اللہ تعالیٰ نے کیا اور نہ ہی کبھی کرے گا۔ ہاں ! یہ نظام مکمل طور پر ختم کر دے اور کوئی نیا نظام اس کی جگہ نافذ کر دے تو بلاشبہ وہ قادر مطلق ہی کرسکتا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ جو نظام اس نے قائم کیا ہے اس کے منہدم ہونے کا اس نے وعدہ کیا ہے اور ضرور ہوگا اگرچہ اس کا وقت ہم کو نہیں بتایا اور اس کے علم میں وہ موجود ہے۔ ان آیات کریمات کو ہم نے سورة آل عمران کی آیت : 137 ، سورة النساء کی آیت 46 میں بیان کردیا ہے لہٰذا عروۃ الوثقیٰ جلد دوم میں اس کی تفصیل دیکھ لیں۔
Top