Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 55
وَ رَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ لَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰى بَعْضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَنْ : جو کوئی فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَ : اور لَقَدْ فَضَّلْنَا : تحقیق ہم نے فضیلت دی بَعْضَ : بعض النَّبِيّٖنَ : (جمع) نبی) عَلٰي بَعْضٍ : بعض پر وَّاٰتَيْنَا : اور ہم نے دی دَاوٗدَ : داو ود زَبُوْرًا : زبور
(اے پیغمبر اسلام ! ﷺ آسمان و زمین میں جو کوئی ہے تیرا پروردگار سب کا حال بہتر جاننے والا ہے ، ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر برتری دی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی
ہر چیز کا جاننے والا اللہ ہے اور انبیاء میں بعض کو بعض پر فضیلت دینے والا بھی : 69۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) کے معاصرین انبیاء کرام (علیہم السلام) کو دیکھتے تھے اور ان کو انسان پاتے تھے اور ساری ضروریات زندگی بھی ان کے ساتھ تھیں ، بازاروں میں جاتے ‘ سودا سلف خریدتے ‘ اپنے ہاتھوں سے کام کاج کرتے اور محنت کر کے حلال رزق سے گزر اوقات کرتے تھے اور پھر اکثر انبیاء کرام (علیہم السلام) دنیوی مال و دولت کی ریل پیل بھی نہیں رکھتے تھے ، اسی طرح نبی اعظم وآخر ﷺ کے معاصرین کا حال تھا ۔ معاصرین کی نگاہ میں آپ ﷺ کی کوئی فضیلت دوسرے لوگوں پر نظر نہ آتی تھی وہ آپ ﷺ کو اپنی بستی کا ایک بالکل معمولی آدمی سمجھتے تھے اور انسانوں کی یہ بھول آج تک چلی آرہی ہے کہ وہ مرے ہوؤں کی تو عزت و توقیر کرتے اور ان کو اچھے ناموں سے یاد کرتے ہیں لیکن جو لوگ ان کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ۔ وہ کتنے ہی صاحب کردار ہوں وہ اکثر انکی طرف سے غفلت سے کام لیتے ہیں ، جب نبی کریم ﷺ نے نبوت کا دعوی کیا تو انکے دلوں میں یہ بات جچتی نظر نہ آئی اور انہوں نے طرح طرح کے اعتراض کرنے شروع کردیئے کہ یہ آدمی نہ معلوم اپنے آپ کو کیا سمجھ بیٹھا ہے ؟ کہاں نبوت اور کہاں یہ شخص اگر یہ نبی ہوتا تو اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہوتا جو اس کے لئے حالات سازگار کرتا ‘ گزشتہ نبی تو انسان نہ تھے انکی بزرگی کا سکہ تو دنیا مانتی ہے ، ان ساری باتوں کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ ” آسمان و زمین میں جو کوئی ہے تیرا پروردگار سب کا حال بہتر جاننے والا ہے ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ “ سب کو ایک جیسا مرتبہ نہیں دیا لیکن یہ مرتبہ معاصرین کو کم ہی نظر آتا ہے مگر ہاں ! وہ لوگ جو سچے دل سے نبی کی تعلیم کو مانتے ہیں اور دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) سے اس کا موازنہ کرسکتے ہیں ، اس کے بعد خصوصا داؤد (علیہ السلام) کا نام لے کر فرمایا کہ ” ہم نے داؤد کو زبور دی تھی ۔ “ داؤد (علیہ السلام) کا ذکر خاص کرکے اس لئے کیا گیا کہ وہ نبی ہونے کے ساتھ وقت کے بادشاہ اور حاکم بھی تھے اور عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ حکومت عطا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے دوری ہی اختیار کرتے ہیں لیکن داؤد (علیہ السلام) وقت کے بادشاہ ہونے کے باوجود اللہ کے برگزیدہ نبی ورسول بھی تھے یہ بات اس لئے بیان فرمائی کہ آج کل کے جاہلوں کی طرح اس وقت کے جاہلوں کا بھی یہی حال تھا کہ رسول عام انسانوں کی طرح انسان تو نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کے ساتھ دنیا داری کی حوائج اور ضروریات ہوتی ہیں وہ تو اللہ کا برگزیدہ انسان ہوتا ہے جو کسی ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرتا رہتا ہے بلکہ اس کو تو اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں ہوتا ، اس طرح ان کو بتایا جارہا ہے کہ یہ ساری باتیں تمہاری واہمی مفروضے ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے گھڑ لئے ہیں نبی ورسول بظاہر شکل و صورت کے اعتبار سے عام انسانوں جیسا ایک انسان نظر آتا ہے لیکن اس کی معصومیت کے سامنے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، وہ دنیا کی ساری ضروریات رکھتے ہیں لیکن ان کو پورا کرنے کے لئے وہ قانون خداوندی سے سرمو بھی انحراف نہیں کرتے اور یہی ان کی وہ شان ہے جو دوسرے انسانوں سے انکو ممیز کردیتی ہے ان کے ہاتھ اللہ کے حکم کے خلاف نہیں اٹھتے اور پاؤں حکم خداوندی کے خلاف ہرگز نہیں چلتے ، وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ایک سایہ ہوتے ہیں لیکن ظاہر میں آنکھیں ان کی حیثیت وکیفیت کو نہیں دیکھ سکتیں ۔
Top