Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 53
وَ قُلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا
وَقُلْ : اور فرما دیں لِّعِبَادِيْ : میرے بندوں کو يَقُوْلُوا : وہ کہیں الَّتِيْ : وہ جو ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے اچھی اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان يَنْزَغُ : فساد ڈالتا ہے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّ : بیشک الشَّيْطٰنَ : شیطان كَانَ : ہے لِلْاِنْسَانِ : انسان کا عَدُوًّا : دشمن مُّبِيْنًا : کھلا
اور اے پیغمبر اسلام ! میرے بندوں سے کہہ دو جو بات کہو ایسی کہو کہ خوبی کی بات ہو شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے (اور انہونی باتیں پڑھاتا ہے) یقینا شیطان انسان کا صریح دشمن ہے
مسلمانوں کے لئے ہدایت کہ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے وقت اچھا طریقہ استعمال کرو : 67۔ کون ہدایات الہی کے مطابق زندگی گزارتا ہے اور کون ہدایات کی پروا نہیں کرتا ، دونوں طرح کی طبیعتیں موجود ہیں اور موجود رہیں گی جس نے ہدایات کے مطابق عمل کیا اس نے اپنا آپ سنوار لیا اور جس نے مخالفت کی اس نے اپنے آپ کو خود بگاڑ لیا ، اب سنورنے والے کا اپنا فائدہ ہے اور بگڑنے والے کا اپنا نقصان ۔ آپ نے ایک کو اچھا جانا دوسرے کو برا تو اچھا کیا لیکن اپنا نقصان کرنے والے نے آپ کا بھی کوئی نقصان کیا ؟ بس اس بات کو ذہن نشین کرتے ہوئے جب منکرین اسلام سے گفتگو کرو تو پسندیدہ طریقہ پر کرو اس طرح کی باتیں نہ کہو کہ ان کا نقصان تو ہوا جو ہوا تمہارا بھی نقصان ہونا شروع ہوجائے ، ایسی بات اور اس طرح سے بات نہ کرو کہ اس سے فتنہ و فساد پیدا ہو اور بجائے تمہاری طرف بڑھنے کے لوگ آپ سے متنفر ہونا شروع ہوجائیں ، روایات میں آتا ہے کہ مسلمانوں نے مشرکوں سے کہا تھا ” انکم من اھل النار “ تم تو جہنمی ہو ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا گیا کہ وہ اس طرح مخاطب کرکے مخالفین کے ساتھ پیش نہ آئیں اور کسی انسان یا جامعت کو اس طرح مخاطب کرکے نہ کہیں بلکہ عام طریقہ سے بات کریں کہ ایسے افعال و اعمال کا یہ انجام ہوگا ۔ کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کسی آدمی کا خاتمہ کس حال پر ہونے والا ہے ؟ بہت ممکن ہے جسے تم جہنمی کہہ رہے ہو اسے ہدایت کی توفیق ملنے والی ہو اور اس کی جگہ جنتیوں میں ہو ، بلاشبہ تم کہہ سکتے ہو یہ بات حق نہی لیکن کسی خاص فرد یا جماعت کی نسبت حکم نہیں لگا سکتے کہ یہ ضرور ہی جہنمی ہیں۔ ایسا کہنے کا کسی انسان کو کوئی حق نہیں لیکن اس وقت قرآن کریم کی اس ہدایت پر شاید ہی کوئی فرد یا جماعت عمل کرنے کے لئے تیار ہو اگر ہے تو بہت کم ورنہ ہر ایک دوسرے کے لئے دوزخ تیار کرکے بیٹھا ہے ، اللہ سمجھ کی توفیق دے ۔ اس موقعہ پر سورة الانعام کی یہ آیت بھی ایک بار نگاہ میں لائیں جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ” اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کو پکارتے ہیں تم ان کے معبودوں کو گالیاں نہ دو ایسا ہوگا کہ وہ بھی حد سے متجاوز ہو کر بےسمجھے بوجھے اللہ رب العزت کو برابھلا کہنے لگیں گے ، ہم نے اس طرح ہر قوم کے لئے اس کے کاموں کو خوشنما بنا دیا ہے پھر بالآخر سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے اس وقت وہ ان سب پر انکے کاموں کی حقیقت کھول دے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں ۔ “ (الانعام 6 : 108) مزید تفصیل کے لئے عروۃ الوثقی “۔ جلد سوم میں سورة الانعام کی محولہ آیت کا مطالعہ کریں۔ ایک بار پھر غور کرو کہ کسی طرح قرآن کریم قدم قدم پر یہ بات یاد دلاتا رہتا ہے کہ انسان کے فکر میں رواداری ہونی چاہئے حکم میں احتیاط ہونی چاہئے ‘ تم جس بات کو حق سمجھتے ہو اس پر جم جاؤ اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دو مگر یہ نہ بھولو کہ انسان کی نجات وعدم نجات کی ٹھیکہ داری تمہیں نہیں دے دی گئی ہے کون نجات پانے والا ہے اور کس کے لئے بالآخر محرومی ہے ؟ اس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے تمہیں حق نہیں کہ اس طرح کا حکم لگاتے پھرو علاوہ ازیں اگر ایک انسان غلط رہ چل رہا ہے تو تمہارے جنتی کہہ دینے سے وہ جنتی نہیں بن جائے گا بلکہ بہت ممکن ہے کہ اپنی غلطی میں وہ اور زیادہ ضدی ہوجائے پس جو کچھ بھی زبان سے نکالو حسن و خوبی کی بات ہو ‘ سختی وخشونت کی بات نہ ہو ۔ چناچہ زیر نظر آیت میں فرمایا گیا کہ شیطان تو چاہتا ہے کہ لوگوں کے درمیان تفرقہ و فساد ڈالے گویا اس طرح کا کلام تفرقہ و فساد پیدا کرتا ہے اور اصل مقصود جو ہدایت و ارشاد ہے وہ مفقود ہوجاتا ہے اس کے بعد کی ہدایت آنے والی آیت میں بیان کی جارہی ہے اس پر غور کرو۔
Top