Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 52
یَوْمَ یَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَ تَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا۠   ۧ
يَوْمَ : جس دن يَدْعُوْكُمْ : وہ پکارے گا تمہیں فَتَسْتَجِيْبُوْنَ : تو تم جواب دو گے (تعمیل کروگے) بِحَمْدِهٖ : اسکی تعریف کے ساتھ وَتَظُنُّوْنَ : اور تم خیال کروگے اِنْ : کہ لَّبِثْتُمْ : تم رہے اِلَّا : صرف قَلِيْلًا : تھوڑی دیر
وہ دن کہ اللہ تمہیں بلائے گا اور تم حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کا جواب دو گے کہ تم نے جو وقت گزارا وہ کوئی بڑی مدت نہ تھی ، تھوڑا سا وقت تھا
جب وہ تم کو حاضر کرنے کے لئے بلائے گا تو تم حمد کے گیت گاتے حاضر ہوجاؤ گے : 66۔ کوئی انسان پنی سرکشی کی بنا پر کتنا ہی ہٹ دھرم کیوں نہ ہو کسی نہ کسی وقت اس کی فطرت جاگ ہی پڑتی ہے اور یہ بھی کہ بعض اوقات انسان بھیڑ چال میں وہ کام بھی کرجاتا ہے جس کو وہ تسلیم نہیں کرتا ، انسان ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بہت کچھ کرنے کا عادی ہے ۔ کبھی یہ منظر دیکھنا ہو تو بیت اللہ میں جا کر دیکھیں امام آمین پکارتا ہے تو ساتھ ہی آمین پکار کر کہنے والے جب پکارتے ہیں تو بڑے بڑے مخالفین کی زبانیں حرکت میں آجاتی ہیں اور وہ پکار کر آمین کہہ دیتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح میدان حشر میں جمع ہونے الے جب اللہ کے حکم سے اٹھیں گے مطلب یہ ہے کہ حاضر ہوں گے تو ان کی زبانوں پر حمد کا گیت ہوگا تو اس آواز پر دوسرے بھی وہی آواز نکالیں گے اور یہ حمد سب کی زبانوں پر ہوگی مومنوں کی زبان پر اس لئے کہ وہ اعتقاد رکھتے تھے اور مرنے سے پہلے ان کو دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین تھا اور کافروں کی زبان پر اس لئے کہ ان کی فطرت میں یہ چیز ودیعت تھی مگر اپنی حماقت سے وہ اس پر پردہ ڈالے ہوئے تھے یا ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ان کی زبانیں بھی وہی حرکت کرتی ہوں گی اور یہ حرکت ان کی بلا ارادہ ہوگی ، اس وقت ہر ایک کا گمان یہی ہوگا کہ بس تھوڑی دیر ہی ہم اس حالت میں رہے ہیں اس لئے گزرا ہوا جس میں برس ہاربر گزر جاتے ہیں ہیں لیکن کبھی خیال پیچھے جائے تو انسان کہتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے اگرچہ یہ کل بیسیوں برس کا کیوں نہ ہو ۔ آج بھی جب اپنے بچپنے پر غور کیا جائے تو بالکل ایسا ہی معلوم ہوتا ہے اور یہ ” کل “ ہی کا لفظ زبان پر آتا ہے ۔
Top