Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 40
اَفَاَصْفٰىكُمْ رَبُّكُمْ بِالْبَنِیْنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الْمَلٰٓئِكَةِ اِنَاثًا١ؕ اِنَّكُمْ لَتَقُوْلُوْنَ قَوْلًا عَظِیْمًا۠   ۧ
اَفَاَصْفٰىكُمْ : کیا تمہیں چن لیا رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِالْبَنِيْنَ : بیٹوں کے لیے وَاتَّخَذَ : اور بنا لیا مِنَ : سے۔ کو الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے اِنَاثًا : بیٹیاں اِنَّكُمْ : بیشک تم لَتَقُوْلُوْنَ : البتہ کہتے ہو (بولتے ہو) قَوْلًا عَظِيْمًا : بڑا بول
تمہارے پروردگار نے تمہیں تو اس برگزیدگی کے لیے چن لیا ہو کہ بیٹے والے ہو اور خود اپنے لیے پسند کیا ہو کہ فرشتوں کو بیٹیاں بنائے ؟ کیسی سخت بات ہے جو تم کہہ رہے ہو
مشرکین مکہ نے اپنے وہم میں فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھ رکھا تھا : 53۔ ادہام پرستوں نے آج سے نہیں مدت سے طرح طرح کے عقیدے گھڑرکھے ہیں انہیں عقائد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مشرکین عرب کی بہت بڑی تعداد فرشتوں کو اللہ تعالیٰ کی لڑکیاں قرار دیتی تھی اور ہوتے ہوتے یہ ایک بہت پختہ عقیدہ قرار پا چکا تھا جس کے لئے انہوں نے اپنے ہی وہم سے دلائل بھی گھڑ لئے تھے اور وہ ایسے وہموں کو روکھنے والوں پر عقل پرست ہونے کا الزام لگاتے تھے اسی طرح کے وہمی عیدے گھڑنے والے آج بھی ایسے ادہام کا شکار ہیں اور وہی اعتراض وہ آج بھی ان لوگوں پر لگاتے ہیں جو ان سے ان کے وہم پر کوئی دلیل مانگے بتے ھا ہیں وہ چیزیں جو کتاب وسنت میں نہیں اپنی ادہام پرستی کو سہارا دینے کے لئے قرآن کریم کی آیات اور احادیث سے استدلال کرکے انکو صحیح ثابت کرنے کی کوشش میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ۔ مثلا انبیاء کرام (علیہم السلام) کو معصوم بھی کہتے ہیں اور کذب گوئی ‘ بہتان تراشی ‘ فضول ‘ عیاشی ‘ مکاری ودھو کہ بازی ‘ حیلہ سازی ‘ بہانہ تراشی ‘ من مانیاں کرنے اور شرک کے مرتکب ہونے تک کہ الزام لگانے کی بےکار سعی کرتے ہیں اور اسی طرح فرشتوں کو معصوم بھی مانتے ہیں اور انکو فریبی ‘ دغا باز ‘ شراب خور ‘ زانی اور پرندوں کی طرح اڑنے والے بھی قرار دیتے ہیں ۔ مکہ کے ادہام پرستوں کا رد قرآن کریم میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ (آیت) ” ان الذین لا یؤمنون بالاخرۃ لیسمون الملآئکۃ تسمیۃ الانثی “۔ (النجم 53 : 27) ” جو لوگ قیامت پر ایمان نہیں لاتے وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہیں ۔ “ قرآن کریم میں ان سے پوچھا گیا کہ (آیت) ” الکم الذکر ولہ الانثی “۔ (النجم 53 : 21) ” کیا تمہارے لئے تو لڑکے ہوں اور اللہ کے لئے لڑکیاں ہوں ۔ “ (آیت) ” تلک اذا قسمۃ ضیزی “۔ (النجم 53 : 22) ” تو یہ کچھ اچھی تقسیم نہ ہوئی ۔ “ فرمایا یہ تو تمہاری وہمی تقسیم ہے اور اسی طرح کے پہلے وہم پرستوں نے اللہ کی اولاد انسانوں کو قرار دیا ہے کچھ نے انسانوں یا فرشتوں کو رب ‘ معبود اور الہ بھی مانا ہے جس طرح بعض یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا ہے اور بعض نے نصاری نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور بعض نے بذاتہ اللہ تسلیم کیا اور بعض نے فرشتوں کو اللہ کی اولاد سمجھ کر ان کی الوہیت کا بھی اقرار کیا ہے ، جیسا کہ ارشاد الہی ہے کہ : (آیت) ” ولا یامرکم ان تتخذوا الملئکۃ والنبیین اربابا “۔ (آل عمران 3 : 80) اللہ کا رسول تمہیں کبھی حکم نہیں دے گا کہ تم فرشتوں یا نبیوں کا اپنا پروردگار بنا لو ، “ اور ایک جگہ ارشاد فرمایا کہ : ” اور ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جزو بنا ڈالا ‘ حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لئے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا ؟ اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس خدائے رحمن کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی ولادت کا مژدہ جب خود ان میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے بھر جاتا ہے کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی ہے جو زیوروں میں پالی جاتی ہے (بعض اوقات) بحث وحجت میں وہ اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کرسکتی ، انہوں نے فرشتوں کو جو خدائے رحمن کے خاص بندے ہیں عورتیں قرار دے لیا ہے ، کیا انہوں نے ان کے جسم کی ساخت دیکھی ہے ؟ (کہ اللہ سے ملتی جلتی ہے) انکی گواہی لکھی جا چکی ہے اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہوگی ۔ “ (الزخرف 43 : 15 تا 19) ایک جگہ اس طرح ارشاد فرمایا : ” پھر ذرا ان سے پوچھو کیا (ان کے دل کو یہ بات لگتی ہے کہ) تمہارے رب کے لئے تو ہوں بیٹیاں اور انکے لئے ہوں بیٹے کیا واقعی ہم نے فرشتوں کو عورتیں ہی بنایا ہے اور یہ آنکھوں دیکھی بات کہہ رہے ہیں ؟ خوب سن لو کہ دراصل یہ لوگ اپنی من گھڑت بات کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے اور حقیقت میں یہ جھوٹے ہیں ، کیا اللہ نے بیٹوں کی بجائے بیٹیاں اپنے لئے پسند کیں ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کیسے حکم لگا رہے ہو ۔ “ (الصفت 37 : 149 ، 155) اس طرح کی من گھڑت وہم پرستیاں آج بھی لوگوں میں بیسیوں موجود ہیں اور وہ انکی ایسی ہی تاویلیں کرتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور بات کرو تو فورا عقل پرستی کا الزام فٹ کردیتے ہیں تاکہ ان کو کوئی وہم پرست نہ کہہ دے اور ایسے ہی من گھڑت عقیدوں کے ترجمانوں کو ” علماء “ اور حضرت العلام “ جیسے خطابات سے نوازا جاتا ہے کیونکہ چلتی کا نام گاڑی ہی رکھا جاتا ہے ۔
Top