Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 39
ذٰلِكَ مِمَّاۤ اَوْحٰۤى اِلَیْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ١ؕ وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِیْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا
ذٰلِكَ : یہ مِمَّآ : اس سے جو اَوْحٰٓى : وحی کی اِلَيْكَ : تیری طرف رَبُّكَ : تیرا رب مِنَ الْحِكْمَةِ : حکمت سے وَلَا : اور نہ تَجْعَلْ : بنا مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا : معبود اٰخَرَ : کوئی اور فَتُلْقٰى : پھر تو ڈالدیا جائے فِيْ جَهَنَّمَ : جہنم میں مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّدْحُوْرًا : دھکیلا ہوا
یہ ان دانائی کی باتوں میں سے ہے جو تیرے پروردگار کی جانب سے تجھ پر وحی کی گئی ہیں اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہرا کہ بالآخر دوزخ میں ڈالا جائے گا ہر بھلائی سے ٹھکرایا ہوا
یہ دانائی کی باتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی پابندی لازم ہے : 51۔ اوپر بیان کی گئی باتوں کو حکمت کی باتیں قرار دیا گیا ہے جیسا کہ زیر نظر آیت میں مذکور ہے کہ ” یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تیرے رب نے تجھ پر وحی کی ہیں ۔ “ اس لئے اس جگہ حکمت کے متعلق کچھ عرض کردینا یقینا حکمت سے خالی نہیں ہوگا اس لئے سمجھ لینا چاہئے کہ حکمت کیا ہے ؟ جیسا کہ ان آیات کریمات میں اوپر گزرا اس طرح مزید یہ سمجھ لینا چاہئے کہ انبیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نعمتیں عطا ہوتی رہی ہیں ان میں کسی ایک خاص نعمت کو حکمت کے نام سے یاد کیا گیا ہے ، دیکھو آل ابراہیم پر اللہ تعالیٰ نے جو احسانات کئے تھے ان کا ذکر وہ ان الفاظ میں فرماتا ہے کہ : 1۔ ّ (آیت) ” فقداتینا ال ابراہیم الکتب والحکمۃ واتینھم ملکا عظیما “۔ (النساء 4 : 54) ” پس بلاشبہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کو کتاب اور حکمت دی اور ان کو بڑی سلطنت بخشی ۔ “ لقمان (علیہ السلام) کی نسبت بیان فرمایا گیا کہ : 2۔ (آیت) ” ولقد اتینا لقمن الحکمۃ “۔ (لقمان 41 : 12) اور یقینا ہم نے لقمان کو حکمت دی ۔ “۔ داؤد (علیہ السلام) کے ذکر میں فرمایا : 3۔ (آیت) ” وشددنا ملکہ واتینہ الحکمۃ وفصل الخطاب “۔ (ص 38 : 20) ” اور ہم نے داؤد کی سلطنت کو مضبوط بنایا اور اس کو حکمت اور قول فیصل عطا کیا ۔ “ 4۔ (آیت) ” وقتل داؤد جالوت واتہ اللہ الملک والحکمۃ وعلمہ مما یشآء “۔ (البقرہ 2 : 251) ” اور داؤد (علیہ السلام) نے جالوت کو مارا اور خدا نے داؤد کو سلطنت اور حکمت بخشی اور جو چاہتا ہے ‘ اس میں سے کچھ سکھایا ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں : 5۔ (آیت) ” قد جئتکم بالحکمۃ ولا بین لکم بعض الذی تختلفون فیہ “۔ (الزخرف 43 : 63) ۔ ” میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں تاکہ جن باتوں میں تم باہم اختلاف رکھتے ہو کچھ باتیں ان میں سے کھول دوں “۔ خود اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اپنا احسان جتاتا ہے ‘ تو فرماتا ہے : 6۔ (آیت) ” واذ علمتک ال کتاب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل “۔ (المائدہ 5 : 110) اور (یاد کرو) جب میں نے تجھ کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی ۔ عام انبیاء کرام (علیہم السلام) کے متعلق ہے : 7۔ (آیت) ” واذ اخذ اللہ میثاق النبین لما اتیتکم من ا کتاب و حکمۃ “۔ (آل عمران 3 : 81) اور جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ جو میں تم کو کوئی کتاب اور حکمت دوں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ کے ظہور کی یہ دعا مانگی تھی : 8۔ (آیت) ” ربنا وابعث فیھم رسولا منھم یتلوا علیھم ایتک ویعلمھم الکتب والحکمۃ ویزکیھم انک انت العزیز الحکیم “۔ (البقرہ 2 : 129) ہمارے پروردگار ! اور ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیج جو انکو تیری آیتیں سنائے اور کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کو سنوارے بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی : 9۔ کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یتلوا علیکم ایتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتب والحکمۃ ویعلمکم مالکم تکونوا تعلمون “۔ (البقرہ 2 : 151) جس طرح ہم نے تم میں تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں سناتا اور تم کو سنوارتا ہے اور تم کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور وہ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے ۔ اس دعائے ابراہیمی کے مطابق آنحضرت ﷺ کے ظہور کا احسان اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران میں ہم پر جتایا ہے : 10۔ (آیت) ” لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ یزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین “۔ (آل عمران 3 : 164) یقینا اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے ، اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہی احسان انہی الفاظ میں سورة جمعہ میں دہرایا ہے : 11۔ (آیت) ” ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین “۔ (الجمعہ 62 : 2) وہی اللہ جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں سناتا ہے اور ان کو پاک وصاف کرتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔ خود آنحضرت ﷺ کو خطاب کرکے اپنا یہ احسان ان پر ظاہر فرمایا ہے : 12۔ (آیت) ” ولولا فضل اللہ علیک ورحمتہ لھمت طائفۃ منھم ان یضلوک وما یضلون الا انفسھم وما یضرونک من شیء وانزل اللہ علیک الکتب والحکمۃ وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما “۔ (النساء : 4 : 113) ” اور اگر خدا کا فضل و کرم تجھ پر نہ ہوتا تو ان میں سے ایک جماعت ارادہ کرچکی تھی کہ وہ تجھے گمراہ کر دے اور وہ گمراہ نہیں کرتے لیکن اپنے آپ کو اور تجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے ، خدا نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتارای اور تجھ کو وہ سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور تجھ پر خدا کا بڑا فضل تھا ۔ آنحضرت ﷺ سے خطاب ہے : 13۔ (آیت) ” ذلک مما اوحی الیک ربک من الحکمۃ “۔ (بنی اسرائیل 17 : 39) ” یہ وہ ہے جو خدا نے حکمت کی باتوں میں سے تم پر وحی کی ہے ۔ عام مسلمانوں سے ارشاد ہے : 14۔ (آیت) ” واذکروا نعمت اللہ علیکم وما انزل علیکم من الکتب والحکمۃ یعظکم بہ “۔ (البقرہ 2 : 231) ” اور اللہ کا جو احسان تم پر اور اس نے تم پر جو کتاب اور حکمت اتاری ہے ان کو یاد کرو ‘ خدا تم کو اس سے سمجھاتا ہے ۔ خاص طور پر ازواج مطہرات کو خطاب کیا ہے : 15۔ (آیت) ” واذکرن مایتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ “۔ (الاحزاب 33 : 34) ” اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور حکمت کی جو باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ “ یہ نعمت حسب تعداد عام مسلمانوں کو بھی ملا کرتی ہے : 16۔ (آیت) ” یؤتی الحکمۃ من یشآء ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا “۔ (البقرہ 2 : 269) ” اور خدا جس کو چاہتا ہے حکمت بخشتا ہے اور جس کو حکمت بخشی گئی اس کو بڑی دولت (بھلائی) دی گئی “۔ اسی کے ذریعہ تبلیغ ودوعوت کا حکم ہوتا ہے ۔ 17۔ (آیت) ” ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن “۔ (النحل 16 : 125) ” اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف تو حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ سے بلا اور ان سے عمدہ طریقہ سے مناظرہ کرو۔ ایک جگہ قیامت اور عبرت کے واقعات پر حکمت کا اطلاق ہوا ہے : 18۔ (آیت) ” ولقد جآء ھم من الانبآء ما فیہ مزدجر محکمۃ بالغۃ فما تغن النذرہ “۔ (القمر 54 : 4 ، 5) ” اور انکو اتنے احوال جتنے میں ڈانٹ ہو سکتی ہے پہنچ چکے ہیں موثر حکمت تو ان کو ڈر سنانے والے فائدہ نہیں پہنچا سکتے ۔ اوپر کی سطروں میں وہ تمام آیتیں لکھ دی گئی ہیں جن میں حکمت کا لفظ آیا ہے ’ ان میں کہیں ” حکمت “ کا لفظ تنہا آیا ہے اور کہیں ” کتاب “ کے بعد آیا ہے ‘ کتاب کے دو معنی قرآن میں ہیں ‘ ایک ” صحیفہ ربانی “ اور یہ اکثر آیا ہے اور دوسرے نوشتہ الہی اور علم الہی ‘ جیسے (آیت) ” لولا کتاب من اللہ سبق “۔ (اگر خدا کا نوشتہ یا علم پہلے نہ ہوتا) مذکورہ بالا آیتوں میں کتاب سے بلاشبہ آسمانی کتاب اور صحیفہ ربانی یا یوں کہو کہ وحی سے کتاب مراد ہے ‘ جیسے تورات و قرآن وغیرہ لیکن حکمت کا مفہوم ان آیتوں میں کیا ہے ؟ حکمت کے لغوی معنی دانائی کی بات اور کام کے ہیں ‘ مگر یہاں اس سے کیا مقصود ہے ‘ اس تحقیق کے لئے ضرورت ہے کہ مستند اہل لغت اور ماہرین قرآن کے اقوال نقل کرکے تبصرہ کیا جائے ‘ سب سے قدیم لغت نویس ابن درید المتوفی 321 ھ اپنی کتاب ” جمرۃ اللغہ “ میں حکمت کے حسب ذیل معنی لکھتا ہے کہ : فکل کلمۃ وعظتک او زجرتک اودعتک الی مکرمۃ اونھتک من قبیح فھی حکمۃ وحکم “۔ (جلد 2 ص 186 حیدرآباد) ہر وہ بات جو تجھ کو سمجھائے یا تجھ کو تنبیہ کرے یا کسی اچھی خصلت کی طرف بلائے یا کسی بری چیز سے روکے وہ حکمت اور حکم ہے ۔ لغت کا امام جوہری اپنی صحاح اللغہ میں لکھتا ہے : الحکمۃ من العلم والحکیم العالم وصاحب الحکمۃ والحکیم المتقن للامور “۔ (جلد 2 ص 276 طبع مصر) حکمت یعنی علم اور حکیم یعنی عالم اور حکمت والا اور حکیم کاموں کو خوبی سے کرنے والا ۔ عربی لغت کی مبسوط ومستند کتاب لسان العرب میں ہے : والحکمۃ عبارۃ عن معرفہ افضل الاشیاء بافضل العلوم “۔ (ج 15 ‘ ص 30 طبع مصر) اور حکمت بہترین چیز کو بہترین علم کے ذریعہ سے جاننے کو کہتے ہیں ۔ لغت قرؤن کے مشہور امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں کہتے ہیں : والحکمۃ اصابہ الحق بالعلم والعقل فالحکمۃ من اللہ تعالیٰ معرفۃ الاشیاء وایجادھا علی غابہ الاحکام من الانسان معرفۃ الموجودات وفعل الخیرات “۔ (ص 126 طبع مصر) اور حکمت ‘ علم اور عقل کے ذریعہ سے سچی اور صحیح بات کو پہنچنا ہے تو اللہ تعالیٰ کی حکمت چیزوں کا جاننا اور انکو بکمال خوبی پیدا کرنا ہے اور انسان کی حکمت موجودات کو جاننا اور اچھی باتوں کا کرنا ہے ۔ یہ تو عربی لغت کے اماموں کی تصریحات تھیں ، ‘ اب ان بزرگوں کے اقوال پر غور کرنا ہے جو زبان دانی کے ساتھ قرآن اور شریعت کے استدلالات اور محاوروں سے بھی کامل طور پر آگاہ تھے ۔ ابن حبان اندلسی نے اپنی تفسیر بحرالمحیط میں ان کے اکثر اقوال کو یکجا کردیا ہے ۔ 1۔ قال مالک وابو زرین ‘ الحکمۃ الفقہ فی الدین والفھم الذی ھو سجیہ ونور من اللہ تعالیٰ “۔ امام مالک اور ابو زرین کا قول ہے ‘ حکمت دین میں سمجھ اور اس فہم کو کہتے ہیں جو ایک فطری ملکہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ہے ۔ 2۔ وقال مجاہد الحکم فھم القرآن۔ مجاہد کا قول ہے ‘ حکمت یعنی قرآن کا فہم ۔ 3۔ وقال مقاتل العلم والعمل بہ لا یکون الرجل حکیما حتی یجمعھا ۔ مقاتل کا قول ہے ۔ حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کو کہتے ہیں کسی شخص کو حکیم اس وقت تک نہیں کہا جاتا جب تک وہ علم اور عمل دونوں کا جامع نہ ہو ۔ 4۔ وقیل الحکمۃ والقضاء : بعضوں کا قول ہے ‘ حکمت فیصلہ کرنا ہے ۔ 5۔ وقیل مالا یعلم الا من جھۃ الرسول۔ کسی کا قول ہے ‘ حکمت وہ ہے جو رسولوں کے سوا کسی اور ذریعہ سے معلوم نہ ہو سکے ۔ 6۔ وقال ابو جعفر محمد بن یعقوب کل صواب من القول ورث فعلا صحیحا فھو حکمۃ ۔ ابو جعفر کا قول ہے ہر وہ صحیح بات جو صحیح عمل پیدا کرے حکمت ہے ۔ 7۔ وقیل کل قول وجب فعلہ ۔ ایک اور شخص کا قول ہے ‘ ہر وہ بات جس کا کرنا ضروری ہے ، حکمت ہے ۔ امام ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں حسب ذیل اقوال لکھے ہیں : 1۔ قال (مالک) المعرفۃ بالدین والفقہ فی الدین والاتباع لہ ۔ مالک کا قول ہے دین کی معرفت اور دین میں سمجھ اور اس کی پیروی حکمت ہے ۔ 2۔ قال ابن زید الحکمۃ الدین الذی لا یعرفونہ الا بہ ﷺ یعلمھم ایاھا قال والحکمۃ العقل فی الدین وقرء (آیت) ” ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا “ وقال یعیسی (آیت) ” ویعلمہ الکتب والحکمۃ والتوراۃ والانجیل “۔ وقرء ابن زید (آیت) ” واتل علیھم نباء الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا “۔ قال لم ینتفع بالایات حین لم تکن معھا حکمۃ قال والحکمۃ شیء یجعلہ اللہ فی القلب نورلہ بہ ۔ ابن زید ؓ کا قول ہے ‘ حکمت دین کا وہ حصہ ہے جو صرف رسول سے معلوم ہوتا ہے وہی اس کو سکھاتا ہے نیز انہی کا قول ہے کہ حکمت دینی عقل کا نام ہے اور اس پر یہ آیت پڑھی کہ ” جس کو حکمت دی گئی اس کو بڑی دولت دی گئی “ اور خدا نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق کہا کہ ” خدا ان کو کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھاتا ہے “ ابن زید نے یہ آیت بھی پڑھی کہ ” ان کو اس کا حال سناؤ ‘ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے الگ ہوگیا ۔ “ یعنی ان آیتوں سے نفع نہیں اٹھایا کیونکہ ان کے ساتھ حکمت نہ تھی ، انہی کا قول ہے کہ حکمت وہ چیز ہے جس کو اللہ اپنے بندہ کے قلب میں رکھتا ہے اور اس سے اس کو روشن کرتا ہے ۔ 3۔ عن قتادہ والحکمۃ ای السنہ ۔ قتادہ سے مروی ہے ‘ حکمت یعنی سنت نبوی ﷺ آخر میں امام طبری اپنا فیصلہ سناتے ہیں : 4۔ قال ابن جریر الطبری والصواب من القول عندنا فی الحکمۃ انھا العلم باحکام اللہ التی لایدرک علمھا الاببیان الرسول ﷺ والمعرفۃ بھا وما دل علیہ ذلک من نظائرہ وھو عندی ماخوذ من الحکم الذی بمعنی الفصل بین الحق الباطل : ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ حکمت ان احکام الہی کے علم کا نام ہے جو صرف رسول کے بیان (تشریح) سے معلوم ہوتے ہیں اور جو ان کی مثالیں اور نظیریں ہیں ان کو معرفت کہتے ہیں ” حکمت “ کا لفظ میرے نزدیک حکم سے ماخوذ ہے جس کے معنی حق و باطل میں تمیز کرنے کے ہیں ۔ امام شافعی (رح) نے اپنی تصنیف کتاب الرسالہ میں قتادہ کے مسلک کو پسند کیا ہے ‘ لکھتے ہیں : 5۔ وسمعت من ارضی من اھل العلم بالقرآن یقول الحکمۃ سنۃ رسول اللہ ﷺ (ص 24) میں نے قرآن کے ان اہل علم سے جن کو پسند کرتا ہوں یہ سنا کہ حکمت آنحضرت صیے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کا نام ہے ۔ امام شافعی (رح) اسی کتاب میں آگے چل کر بعضوں کا قول نقل کرتے ہیں : وسنت الحکمۃ التی القی فی روعہ عن اللہ عزوجل۔ (ص 280) اور آپ ﷺ کی سنت وہ حکمت ہے ‘ جو آپ ﷺ کے دل میں خدا کی طرف سے ڈالی گئی ، ائمہ لغت اور علمائے قرآن کے ان تمام اقوال پر ایک غائر نظر ڈالو تو معلوم ہوگا کہ یہ کل کے کل ایک ہی مفہوم کی مختلف تعبیریں اور ایک ہی حقیقت کی متعدد تفسیریں ہیں ‘ حکمت عقل وفہم کی اس کامل ترین حقیقت کا نام ہے جس سے صحیح و غلط ، صواب وخطا حق و باطل اور خیر وشر کے درمیان تمیز و فیصلہ بذریعہ غور وفکر ‘ دلیل وبرہان اور تجربہ واستقراء کے نہیں بلکہ منکشفانہ طور سے ہوجاتا ہے اور اسی کے مطابق اس صاحب حکمت کا عمل بھی ہوتا ہے ۔ ہر فن کے واقف کار دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کسی فن کو باقاعدہ حاصل کرتے اور اس کی مشق کرتے اور اس میں مہارت اور کمال بہم پہنچاتے ہیں ‘ دوسرے وہ جو اس فن کی فطری استعداد اور قابلیت رکھتے ہیں اور تجربہ و دلیل کے بغیر خود اپنی فطری صلاحیت ‘ صحیح وجدان اور سلیم ذوق سے اس فن کی کسی شے کو دیکھنے کے ساتھ ہی اس کے متعلق جچی تلی رائے دیتے ہیں اور حرف حرف صحیح دیتے ہیں ‘ اسی کا نام آپ صحت وجدان اور سلامت ذوق رکھتے ہیں ‘ شاعری انشاء پردازی اور دوسرے فنون لطیفہ میں اس کی مثالیں بکثرت دیکھی اور سنی جاتی ہیں ‘ اسی طرح بعض لوگوں میں اشیاء کے حق و باطل اور افعال کے خیر وشر کا صحیح وجدان اور صحیح ذوق ہوتا ہے ‘ وہ ان امور کے دقیق سے دقیق مسئلہ کے متعلق اپنے ربانی ذوق ووجدان سے ایسی صحیح رائے دیتے ہیں جو دوسرے لوگ وسیع مطالعہ اور غور وفکر کے بعد بھی نہیں دے سکتے یہی وہ معرفت اور نور الہی ہے جو جدوجہد اور سعی و محنت سے نہیں بلکہ عطا و بخشش سے حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام ” حکمت “ ہے ۔ دوسری زبانی استعدادوں اور فطری بخششوں کی طرح حکمت کا عطیہ بھی سب کو یکساں نہیں ملتا بلکہ حسب استعداد اور معمولی حکمت سے لے کر اعلی ترین اور کامل ترین حکمت تک لوگوں کو عطا ہوتی ہے ‘ اس کے مختلف درجے اور مرتبے عام انسانوں کو مل سکتے ہیں اور ملتے ہیں لیکن اعلی ترین اور کامل ترین درجہ اور مرتبہ حضرات انبیاء کرام (علیہم السلام) کو حاصل ہوتا ہے ۔ مگر یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح اس ربانی عطیہ ‘ آسمانی فہم ‘ دینی عقل اور نورانی قوت پر ” حکمت “ کا اطلاق ہوتا ہے ، اسی طرح اس قوت (حکمت) کے آثار ونتائج اور اس کی تعلیمات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ، چناچہ دوسری آیت جس میں حضرت لقمان (علیہ السلام) کو حکمت دیئے جانے کا بیان ہے اس کے بعد اس حکمت لقمانی کی حسب ذلیل تعلیمات کا ذکر بھی کار گیا ہے کہ اللہ کا شکر ادا کرنا ‘ شرک کی ممانعت ‘ والدین کی خدمت اچھوں کی پیروی ‘ خدا کا ہمہ گیر علم ‘ نماز کا حکم ‘ صبر وفخر و غرور کی ممانعت ‘ میانہ روی ‘ آہستہ بولنا ‘ اسی طرح تیرہویں آیت میں حکمت محمدی کی حسب ذلیل تعلیمات کی تفصیل بھی کی گئی ہے ۔ شرک کی ممانعت ‘ والدین کے ساتھ احسان ‘ قرابت داروں اور بےکسوں سے نیک سلوک ‘ اسراف کی برائی ، نرمی کی بات کرنا ، میانہ روی ‘ اولاد کے قتل کی مذمت ‘ کسی کی جان نہ لینا مقتول کا بدلہ لینا ‘ یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ عہد پورا کرنا ‘ ناپ تول ٹھیک رکھنا ‘ بےجان چیز کی پیروی نہ کرنا ، فخر و غرور کی مذمت ‘ ان تمام باتوں کو بیان فرما کر اللہ کہتا ہے ۔ (آیت) ” ذلک مما اوحی الیک ربک من الحکمۃ “۔ (الاسراء 17 : 39) یہ ہیں حکمت کی وہ بعض باتیں جو خدا نے تجھ پر وحی کی ہیں ۔ حکمت کی ان بعض باتوں کی تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمت کے مظاہر اور نتائج کس قسم کی باتیں ہوتی ہیں ‘ یہ عموما وہی باتیں ہوتی ہیں جن کی عالمگیر صداقت اور سچائی کو خود فطرت انسانی اور حس اخلاقی تسلیم کرتی ہے ‘ یہی سبب ہے کہ تیسری اور چوتھی آیت میں حکمت کا اطلاق زبور پر اور پانچویں اور چھٹی آیت میں انجیل پر ہوا ہے کہ ان میں اسی قسم کی دلاویز نصیحتوں اور عالمگیر صداقتوں کی تعلیم ہے اور خود قرآن پاک نے بھی اپنی صفت ” حکمت والا قرآن “ ظاہر کی ہے۔ (آیت) ” تلک ایت ال کتاب الحکیم “۔ (لقمان ویونس) (والقرآن الحکیم) (یس) (والذکرالحکیم) (آل عمران) ان آیتوں سے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے یہ ” حکمت “ کی بعض اہم تنظیموں کو وحی الہی خود اپنے اندر کبھی شامل کرکے ان کو آپ مقطر بنا دیتی ہے یہ چیز انبیاء کو کتاب الہی کے ساتھ ساتھ عامل طور پر ملتی ہے ۔ فرمایا : (آیت) ” واذ اخذاللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ “۔ (آل عمران 3 : 81) اور یاد کرو جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ البتہ جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں ۔ بہرحال یہ حکمت کی قوت انبیاء کرام (علیہم السلام) کو بدرجہ اتم حاصل تھی اور اسی کے کا نتیجہ تھا کہ ان کی ہر بات دانائی اور ہر کام دانش مندی پر مبنی ہوتا تھا اور چونکہ یہ قوت انکو حاصل تھی اسی لئے اس کے آثار اور نتائج بھی اقوال اعمال کی صورت میں ظاہر ہوئے جن کا نہ صرف اقرار واعتراف بلکہ ان پر عمل بھی نبوت کی تصدیق میں داخل ہوا ‘ پندرہویں آیت میں ہے : (آیت) ” واذکرن مایتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ “۔ (الاحزاب 33 : 34) (اے محمد رسول اللہ ﷺ کی بیویو ! ) تمہارے گھروں میں خدا کی جو آیتیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ‘ ان کو یاد رکھو ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کو آیات الہی کے علاوہ کس حکمت کے یاد رکھنے کا حکم دیا گیا ‘ ظاہر ہے کہ وہ خود محمد رسول اللہ ﷺ کی حکمت و دانائی کی باتیں تھیں ‘ اب اگر وہ باتیں امور دین سے متعلق نہ ہوتیں ‘ تو ان کے لئے ان کا یاد رکھنا کیوں ضروری قراردیا جاتا ‘ اسی طرح آٹھویں ‘ نویں دسویں اور گیارہویں آیت میں آنحضرت ﷺ کی صفت میں ہے : (آیت) ” یعلمھم ال کتاب والحکمۃ “۔ (الجمعہ : 62 : 2) وہ مسلمانوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ محمد رسول اللہ ﷺ کتاب کے بعد کس حکمت کی تعلیم دیتے تھے ؟ ظاہر ہے کہ خود اپنی حکمت کی ‘ تو جس حکمت کی تعلیم وہ دیتے تھے وہ کود ان کے اندر بھی تھی کہ جو چیز ان کے پاس نہ تھی دوسرون کو کیا بخش سکتے تھے ، اور جب یہ قوت آپ کے پاس تھی تو اس کے آثار ونتائج بھی اقوال وافعال کی صورت میں نمایاں ہوں گے ‘ جن کی آپ تعلیم فرماتے تھے اور اپنے ان امور حکمت کی تعلیم سے آپ کا مقصد بھی یہی ہو سکتا تھا کہ مسلمان ان پر عمل کریں ۔ پانچویں آیت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں ۔ (آیت) ” قد جئتکم بالحکمۃ ولابین لکم بعض الذی تختلفون فیہ “۔ (الزخرف 43 : 63) میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا ہوں تاکہ جن باتوں میں تم باہم اختلاف رکھتے ہو کچھ باتیں ان میں سے کھول دوں ۔ اسے معلوم ہوا کہ حکمت کا ایک فریضہ تبیین بھی ہے ‘ یعنی کسی مجمل ‘ ذو معنیین اور مختلف فیہ مسئلہ کی تشریح و تفصیل جس سے وہ اجمال اور اختلاف جاتا رہے اور اصل مقصود کی تشریح ہوجائے چناچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کے بعض احکام کی جن میں یہود مختلف الرائے تھے ‘ تفصیل فرمائی اور ان کی غلطی دور کی ۔ بارہویں آیت میں ہے : (آیت) ” ولولا فضل اللہ علیک ورحمتہ لھمت طائفۃ منھم ان یضلوک وما یضلون الا انفسھم وما یضرونک من شیء وانزل اللہ علیک الکتب والحکمۃ وعلمک مالم تکن تعلم وکان فضل اللہ علیک عظیما “۔ (النساء : 4 : 113) اگر خدا کا فضل و کرم تجھ پر نہ ہوتا تو ان میں سے ایک گروہ نے چاہا تھا کہ تجھ کو گمراہ کرے اور وہ گمراہ نہیں کرتے لیکن اپنے آپ کو او تجھے ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے ‘ اللہ نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتاری اور تجھ کو سکھایا جو تو نہیں جانتا تھا اور اللہ کا فضل تجھ پر بڑا ہے۔ ان آیتویں میں بیان ہے کہ منافقین کا ایک گروہ آپ کو غلط رائے دے کر بہکانا چاہتا تھا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” ان کی یہ چال کارگر نہ ہوئی اور وہ تجھ کو بہکا نہ سکے ‘ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ کا تجھ پر فضل و کرم ہے اور وہ فضل و کرم یہ ہے کہ اس نے تجھ پر کتاب اور حکمت اتاری اور تجھے وہ علم بخشا جو پہلے نہ تھا ۔ “ اس سے ظاہر ہوا کہ گمراہی سے آپ کی یہ حفاظت ‘ خطاب سے یہ عصمت اور علم کی یہ بخشش آپ کو کتاب اور حکمت دونوں کے ملنے کے سبب سے حاصل ہوئی ہے ‘ الغرض اس حفاظت وعصمت کے حصول میں کتاب الہی کے ساتھ حکمت ربانی کے انعام کو بی داخل کامل ہے ۔ یہ تو وہ نبوی حکمت تھی جس کا سرچشمہ صرف سینہ نبوت تھا لیکن یہ فیض حسب استعداد پیغمبر کی اتباع میں دوسروں کو بھی ملتا ہے جس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ وہ سچی اور صحیح بات کو بہت آسانی سے سمجھ لیتے قبول کرلیتے اور اس پر عمل کرتے ہیں ۔ تبلیغ اسلام کے تین ذریعوں ‘ حکمت ‘ موعظت اور خوش خلقی سے مناظرہ کرنے میں سب سے اول حکمت کو جگہ دی گئی ہے ۔ (آیت) ” ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن “۔ (النحل 16 : 125) تو اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے مناظرہ بطریق احسن کر ۔ سچی صحیح اور صاف بات دل تک پہنچ جاتی ہے اور بہت جلد اثر دکھاتی ہے ‘ فرمایا : (آیت) ” حکمۃ بالغۃ “۔ (القمر 54 : 5) دل کو پہنچ جانے والی حکمت ؛ یہ حکمت ہر نیکی کی جڑ اور ہر بھلائی کی اصل ہے پھر اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کیا دولت ہو سکتی ہے ‘ اس لئے ارشاد ہوا ؛ (آیت) ” ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا “۔ (البقرہ 2 : 269) جس کو حکمت دی گئی اس کو بہت نیکی (دولت) دی گئی ۔ اس سلسلہ میں دو مشہور اور مستند حدیثون کا حوالہ بھی مناسب ہے جن سے حکمت کی حقیقت واضح ہوگئی اور کم از کم قرن اول میں اس لفظ کا مفہوم ظاہر ہوگا۔ آنحضرت ﷺ نے وفد کے ایک خطیب کا بیان سن کر فرمایا : ان من الشعر الحکمۃ وان من البیان لسحرا : بعض شعر حکمت ہوتے ہیں اور بعض تقریریں جادو ہوتی ہیں ۔ ایک حدیث میں بعض اشعار کو حکمت اور بعض تقریروں کو جادو کہا گیا ہے ‘ اس تقابل سے ظاہر ہے کہ حکمت کا عربی مفہوم اس کے اردو مفہوم سے بلند تر ہے یعنی سحر وجادو کے مافوق انسانی تصور کی طرح ” حکمت “ کے عربی مفہوم میں کوئی مافوق بشری تخیل ضرور ہے ‘ اسی سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ عربی میں حکمت کے معنی عقل وفہم وغیرہ کے معمولی الفاظ سے کوئی بلند اور غیر معمولی حقیقت ہے اور اردو میں اس حقیقت کی ” حکمت “ کے ساتھ لفظ ” الہامی “ بڑھا کر ادا کیا جاسکتا ہے یعنی ” الہامی حکمت “ ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ رشک وحسد اگر جائز ہے تو صرف دو شخصوں پر ‘ ایک اس پر جس کو مال کی دولت ملی تو وہ اس کو صحیح مصرف میں لٹاتا ہے اور دوسرے رجل اتاہ اللہ الحکمۃ فھو یقضی بھا ویعلمھا “۔ (صحیح بخاری کتاب العلم) اس شخص پر جس کو حکمت ملی ہے تو وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہے اور دوسروں کو سکھاتا ہے اور اس میں معلم ہونے کی شان پیدا ہوتی ہے ‘ جب عام انسان کا یہ درجہ ہے تو انبیاء (علیہم السلام) کو یہ دولت کس بہتات سے ملی ہوگی اور وہ یقینا آنحضرت ﷺ کے حصہ میں بھی آئی ‘ اب اس حصول دولت یعنی عطائے حکمت کا نتیجہ بھی آپ ﷺ سے ظاہر ہونا چاہئے اور وہ فیصلہ اور تعلیم ہے آپ ﷺ کے یہ ملہمانہ فیصلے اور حکیمانہ تعلمالت تمامتر وحی ربانی کی عملی اور زبانی شرح اور بیان ہیں ۔ اسلامی منشور کے اعلان کے بعد شرک سے بچنے کی تاکید مزید : 52۔ شرک دراصل روحانی بیماریوں میں سے ام الامراض ہے اس لئے اس سے بچنے کی تاکید مزید کی جارہی ہے کہ اے لوگو ! دیکھو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہ ٹھہراؤ کیونکہ اس کا انجام آخر کار دوزخ ہی ہے اور دوزخ ایسا شفاخانہ ہے کہ جس کے مریضوں کے لئے کراہنا اور چخناک لازم قرار پایا ہے اور اس میں یقینا ایسے مریض بھی ہوں گے جن کا شفایاب ہونا ممکن نہیں ہے اور ان کے کھانے پینے کی خوراک بھی نہایت بدمزہ اور منہ چڑھا دینے والی ہے اور اس سے دوسرے مریض بھی نفرت کریں گے جس کے باعث ان پر لعنت وملامت ہوتی رہے گی ۔
Top