Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 110
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ١ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ۚ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا
قُلِ : آپ کہ دیں ادْعُوا : تم پکارو اللّٰهَ : اللہ اَوِ : یا ادْعُوا : تم پکارو الرَّحْمٰنَ : رحمن اَيًّا مَّا : جو کچھ بھی تَدْعُوْا : تم پکارو گے فَلَهُ : تو اسی کے لیے لْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى : سب سے اچھے نام وَلَا تَجْهَرْ : اور نہ بلند کرو تم بِصَلَاتِكَ : اپنی نماز میں وَ : اور لَا تُخَافِتْ : نہ بالکل پست کرو تم بِهَا : اس میں وَابْتَغِ : اور ڈھونڈو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان سَبِيْلًا : راستہ
(اے پیغمبر اسلام ! ﷺ کہہ دے تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے پکارو اس کے سارے نام حسن و خوبی کے نام ہیں اور تو جب نماز میں مشغول ہو تو نہ تو چِلّا کر (زور سے) پڑھ نہ بالکل چپکے چپکے چاہیے کہ درمیان کی راہ اختیار کی جائے
اللہ کے نام سے اس کو پکارو یا رحمن کے نام سے اس کے سارے ہی نام اچھے ہیں : 128۔ دنیا کے اس عظیم الشان کارخانے کا ذرہ ذرہ ‘ سمندروں کا قطرہ قطرہ درختوں کا پتا پتا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا گواہ ہے ، قرآن کریم میں ہے کہ (آیت) ” ان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم “۔ کیوں فرمایا ؟ اس لئے کہ کوئی چیز بڑی ہو یا چھوٹی ‘ زمین میں ہو یا آسمان میں ‘ خشکی میں ہو یا تری میں ‘ جاندار ہو یا بےجان اس خوبی اور عمدگی کے ساتھ ہے کہ اس سے بہتر ہونا ممکن نہیں ، آپ سے آپ نہیں بن گئی ، ضرور کسی کے بنانے سے بنی ہے ، ہم نے اس بنانے والے کی جستجو کی اور زمین سے لے کر آسمان تک چھان مارا تو کسی کو اس لائق نہ پایا ، جس کو دیکھا عاجز ‘ جس کو ٹٹولا درماندہ ۔ روئے زمین پر ہم ہی سب سے پیش پیش تھے کہ عقل رکھتے تھے سو ” ایاز قدر خود شناس “ سن اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ناچار آسمان پر نظر دوڑائی تو ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ یاد کرکے خاموش بیٹھ گئے یہ قصہ سورة الانعام کی آیات 74 تا 79 میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے ہم سمجھے کہ جس کی جستجو ہے وہ تو چشم سر سے دیکھنے کی چیز ہی نہیں ۔ بنی اسرائیل نے شوخ چشمی کی تو (آیت) ” فاخذتھم الصاعقۃ “۔ کی سزا پائی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غلبہ شوق میں آکر حوصلہ کیا تو (آیت) ” خر موسیٰ صعقا “۔ سے شرمندگی اٹھائی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حواس ظاہر کی گرفت سے بالاتر ہے اور یہ ہمارے حواس کا قصور ہے ۔ گرنہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ آفتاب راچہ گناہ : ہاں ! چشم دل سے دیکھا جائے تو دنیا آئینہ خانہ ہے اور درد دیوار اللہ کے نور سے پڑے جگمگا رہے ہیں : دل کے آئینے میں ہے تصویر یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی : کسی نے کیا ہی عیبہ کہا ہے کہ دوست نزدیک تر از من بمن است دیں عجب ترکہ من ازوے دورم : چہ کنم با کہ تو ان گفت کہ او درکنار من ومن مہجورم : اس کا ترجمہ کسی نے یوں کردیا کہ : حبل الورید سے بھی وہ نزدیک ہے تو کیا آنکھیں نہیں تو کیا نظر آئے قریب سے : ہمارا تو خیال ہے کہ انسان کو شروع ہی سے اللہ کے بارے میں یہ غلطی واقعی ہوئی ہے اور اب تک بھی اکثر اللہ کے بندے اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اللہ کو اپنے حواس ظاہر کے ذریعہ سے معلوم کرنا چاہا اور جب انکو اس ارادے میں کامیابی نہ ہوئی تو من مانا خدا فرض کرلیا (آیت) ” اتخذ الھہ ھواہ “۔ اور اس کو اپنے ادہام باطلہ کا تخت مشق بنایا یعنی ذلیل سے ذلیل اور رذیل سے رذیل مخلوقات کو بھی پورا یا ادھورا خدا بنانے یا ماننے میں تامل نہیں کیا ۔ پورا تو پورا ادھورے کے یہ معنی کہ اپنے زعم میں خدائی کے اختیار اللہ رب العزت چھین کر نااہلوں کے حوالے کئے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ خد اس کو منصب خدائی سے معزول کردیا جس جس طرح پر اللہ کے بندوں نے اللہ کی جناب میں گستاخیاں اور بےادبیاں کیں اور کر رہے ہیں ناگفتہ بہ ہیں ، کوئی تو اس کی ذات پر حملے کرتا ہے کہ ایک نہیں دو خدا ہیں ، ایک پیدا کرتا اور دوسرا مارتا ہے ، ایک خالق خیر ہے اور دوسر خالق شر۔ کوئی کہتا ہے کہ تین خدا ہیں اور پھر وہ ایک بھی ہے ، کوئی مانتا ہے کہ ہرچیز بجائے خود خدا ہے ۔ کسی کا خیال ہے کہ خدا تو ہے مگر وہ اسباب کا سلسلہ قائم کرکے آپ انتظام دنیا سے دست کش ہو بیٹھا ہے ، ان کے نزدیک دنیا ایک طرح کی گھڑی ہے اور خدا کھڑی ساز ہے جس نے اس کو بنا کر کوک بھر دیا ہے اور گھڑی پڑی چل رہی ہے ، ذات تو ذات اللہ تعالیٰ کی صفات میں اس سے بھی بڑھ کر بیہودگی کی جاتی ہے ، غرض بندوں نے اتنے خدا بنا ڈالے کہ ایک خدا کے حصے میں پورا ایک بندہ بھی نہیں آتا اور یہ بات نہ سمجھے کہ اگر خدا کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہوتا تو دو برتن ایک جگہ رکھے ہوئے کھٹکھٹا اٹھتے ہیں ایسا کس طرح ممکن ہے کہ دو یا زیادہ خداؤں میں اختلاف نہ ہو اور اختلاف ہو تو دنیا ایک لمحہ بھی نہیں ٹھہر سکتی (آیت) ” لوکان فیھما الھہ الا اللہ لفسدتا “۔ دو بادشاہ آپس میں لڑتے ہیں تو ملک کے ملک خاک سیاہ ہوجاتے ہیں اور پھر خداؤں کی لڑائی تو خدا کی پناہ ، پس دنیا کا ایک اسلوب پر چلے جانا صاف اس بات کی دلیل ہے کہ تمام عالم میں ایک خدا کی حکومت ہے اقوام روزگار میں دوسری قومیں خدا کے بارے میں جیسے کچھ خیالات رکھتی ہیں وہ جانیں اور ان کی عقلیں ‘ ہم کو تو زیادہ خیال مسلمان بھائیوں کا ہے کہ ان کے ہاں بڑا زور توحید پر ہے مگر عملا انہوں نے مشرکوں کی کوئی ادا نہیں چھوڑی جس کی نقل نہ کی ہو الا ما شاء اللہ وقلیل ماھم “۔ (آیت) ” وما یؤمن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون “۔ ” اور مشرکوں کا حال یہ ہے کہ اللہ کو بھی مانتے ہیں اور شرک بھی کرتے جاتے ہیں ۔ “ اس کو اچھی طرح ہر شخص اپنی جگہ سمجھ لے کیونکہ معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اس کے متعلق ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ (آیت) ” یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور “۔ ” اللہ تعالیٰ آنکھوں کی چوری کو بھی جانتا ہے اور ان رازوں کو بھی جو لوگوں کے سینوں میں ہیں۔ “ خدا کے بارے میں اسلامی عقیدہ ایسا سیدھا اور صاف ہے کہ اس سے زیادہ سیدھا اور صاف عقیدہ ہو ہی نہیں سکتا ، اسلام مخلوقات سے خدا کی ذات وصفات کا پتہ چلاتا ہے اور یہی وہ راستہ ہے جسے موصل الی المطلوب کہہ سکتے ہیں ، مخلوقات سے ہم کو اتنی بات کا پتہ چلتا ہے کہ کارخانہ عالم کا بنانے والا اور سنبھالنے والا کوئی ہے اور وہ ان چیزوں سے نہیں جن کو ہم معلوم کرسکتے ہیں ، بس سوائے اس کے ہم خدا کی ذات کے بارے میں اور کچھ نہیں کہہ سکتے اور عقل انسانی کی رسائی یہیں تک ہے ، اب رہیں صفات تو کارخانہ عالم اور اس کے انتظام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس کا بنانے والا اور اس کے انتظام کو چلانے والا ان صفتوں سے متصف ہو یعنی اس میں وہ کمالات ہوں جو اس کے صفاتی ناموں سے ظاہر ہوتے ہیں ، خدا کے ننانویں نام ہیں جو ” نودونہ “ نام سے مشہور ہیں ان میں سے ایک نام ” اللہ “ اسم ذات مان لیا گیا ہے اگرچہ معبود ہونے کی حیثیت سے اللہ کو بھی اسم صفت کہہ سکتے ہیں مگر آخر اتنے سارے صفاتی نام ہوں تو کوئی اسم ذات بھی ہونا چاہئے اور وہ ” اللہ “ ہے باقی اٹھانویں نام وہ کسی نہ کسی صفت پر دلالت کرتے ہیں ، اسمائے صفاتی کے بارے میں بھی ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ صفتیں بھی خدا میں ہیں یا ہونی ضروری ہیں بس اس سے زیادہ ہم اس کی صفات کی توضیح نہیں کرسکتے ، مثلا ہم کہتے ہیں کہ خدا سمیع ہے سب کی سنتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ جو علم ہم نبی آدم کو حاسہ سمع کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے وہ علم علی وجہ الکمال خدا کو بھی ہے نہ یہ کہ ہماری طرح کے اس کے کان ہیں ہمارے سننے کا تو یہ حال ہے کہ بولنے والا آواز کے ذریعے سے ہوا میں تموج پیدا کرتا ہے اور وہ تموج کان کے پردے سے ٹکراتا ہے اور ہم کو آواز کا علم ہوجاتا ہے ، خدا اس طرح کا علم تو رکھتا ہے مگر وہ بےنیاز ہے کان کا اور ہوا کے تموج کا محتاج نہیں بس اس پر اللہ تعالیٰ کی دوسری صفتوں کو قیاس کرلو یہ صفتیں ہم نے اپنے اوپر قیاس کر کے اللہ میں مان لی ہیں مگر ہماری صفات ناقص ہیں اللہ کی کامل واکمل جیسے ذرے کی چمک اور آفتاب کی جگمگاہٹ ۔ زیر نظر آیت میں فرمایا گیا کہ تم اللہ کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن کے نام سے پکارو جائز اور درست ہے کیونکہ اس کے اچھے اچھے نام بہت سے ہیں اس ارشاد الہی میں ایک بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور افسوس ہے کہ لوگوں کی نظر بحث و تفسیر میں اس طرف نہیں گئی ، دنیا میں انسان کے اکثر اختلافات محض لفظ و صورت کے اختلاف ہیں ، وہ معنی پر بہت کم لڑتا ہے لفظ پر زیادہ لڑتا ہے ، بسا اوقات ایک ہی حقیقت سب کے سامنے ہوتی ہے لیکن چونکہ نام مختلف ہوتے ہیں ‘ صورتیں مختلف ہوتیں ہیں ‘ اسلوب اور ڈھنگ مختلف ہوتے ہیں اس لئے ہر انسان دوسرے سے لڑنے لگتا ہے اور نہیں جانتا کہ یہ ساری لڑائی لفظ کی لڑائی ہے معنی کی لڑائی نہیں ہے ۔ مولانا روم نے چار دوستوں کے نزاع کا قصہ سنایا ہے جن میں ہر شخص انگور کا خواہش مند تھا لیکن چونکہ ایک آدمی ” عنب “ کہتا تھا ‘ دوسرا ” تاک “ اس لئے تلواریں نیام سے نکل آئیں ، اگر دنیا کے لوگ صرف اتنی بات پالیں تو نوع انسانی کے دو تہائی اختلافات جنہوں نے دائمی نزاعوں اور جنگوں کی صورت اختیار کرلی ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں ۔ اس آیت اور اس کی ہم معنی آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ، مشرکین عرب ” اللہ “ کے لفظ سے آشنا تھے کیونکہ یہ لفظ پروردگار عالم کے لئے بطور اسم ذات کے قدیم سے مستعمل تھے لیکن دوسرے ناموں سے آشنا نہ تھے جن کا قرآن کریم نے اس کی صفتوں کے لئے اعلان کیا تھا مثلا ” الرحمن “ رحمن کا لفظ بولا جاتا تھا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اسے اللہ کے لئے بولنا چاہیے ، پس جب ایسے اسماء سنتے تو متعجب ہوتے اور طرح طرح کے اعتراضات کرتے ، قرآن کریم ان سے کہتا ہے کہ تم اے ” اللہ “ کہہ کر پکارو یا ” الرحمن “ کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو ‘ پکار اسی کے لئے ہے اور ناموں کے تعدد سے حقیقت متعدد ہوجاتی ہے ، اس کا نام ایک ہی نہیں اس کے بہت سے نام ہیں لیکن جتنے نام ہیں سب حسن و خوبی کے نام ہیں کیونکہ وہ سرتاسر حسن و کمال اور کبریائی و جلال ہے ، تم ان ناموں میں سے کوئی نام بھی لو ‘ تمہارا مقصود ومطلوب وہی ہونا چاہئے ۔ عباراتنا شتی وحسنک واحد وکل الی ذاک الجمال یشیرا : ہم پیچھے سورة الاعراف کی آیت 180 کے تحت اس بات کا ذکر کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کونسے نام ایسے ہیں جو دوسرے انسانوں کے لئے نہیں بولنا چاہئے اور کون کون سے بولے جاسکتے ہیں اور ان کے بولنے کا کیا طریقہ مناسب ہے اور اللہ تعالیٰ کے مشہور ومعروف ناموں کا ذکر اور ان کا تعارف بیان کرنے کا ہمارا وعدہ ہے لیکن یہ انشاء اللہ العزیز سورة ” الحشر “ میں پورا ہوگا کیونکہ وعدہ کے لئے اس جگہ کا انتخاب کردیا تھا جیسا کہ سورة الاعراف میں اس کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتائیں گے کہ کون کون سے نام قرآن کریم میں آتے ہیں اور کونسے ہیں جن کے مشتقات قرآن کریم میں ہیں لیکن اصل نام نہیں اور کون سے وہ نام ہیں جن کے مشتقات بھی قرآن کریم میں موجود نہیں لیکن احادیث میں ان کا ذکر آیا ہے اور اس طرح ننانویں نام جو امام ترمذی اور حاکم نے نقل کئے ہیں ان میں وہ موجود ہیں ۔ اسی طرح کون سے نام وہ ہیں جو مشہور ومعروف ہونے کے باوجود ان ننانویں ناموں میں شمار نہیں کئے گئے ۔ تمہاری نماز نہ بالکل چپکے ہونی چاہئے اور نہ ہی بہت پکار کر درمیانی راہ صحیح ہے : 129۔ آیت کے پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ کی پکار کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے ذاتی نام ” اللہ “ سے پکارو یا صفاتی ناموں میں سے کسی نام سے پکارو پکار سکتے ہو اور آیت کے اسی دوسرے حصہ میں اس کی پکار کا ادب سکھایا گیا ہے کہ جاہلوں کی طرح زور زور سے چلا چلا کر اللہ کو مت پکارو وہ دلوں کے رازوں کو جاننے والا ہے ہاں ! اگر زبان سے پکارنا ہی چاہو تو درمیانی راہ اختیار کرو جس سے بےادبی کا مظاہرہ نہ ہو بلکہ ادب ملحوظ خاطر رہے ۔ جاہلوں میں اس وقت بھی اور آج بھی اپنے معبودوں کو زور زور سے پکارنے کا رواج تھا اور ہے کہ وہ سر دھنتے ہیں ‘ جلیاں پاتے ہیں اور سب مل کر زور زور سے ان کا نام لیتے ہیں اور پھر جس طرح غیر اللہ کی صدائیں بلند کر کے پکارتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کسی نام کا بھی ورد کرتے ہیں تو زور زور سے کرتے ہیں ان کو زیر نظر آیت میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو یا تلاوت قرآن کریم کرو ‘ نماز کے اندر ہو یا باہر ہر حال میں درمیانی راہ اختیار کرو چلا چلا کر اور زور زور سے نعرے لگانا سراسر جہالت ہے ، لیکن افسوس کہ آج بھی مسلمانوں کے ہاں کتنے لوگ ہیں جو گا گا کر ‘ چلا چلا کر اللہ کے نام کی ضربیں لگاتے ہیں اور ” ہو ہو “ کی صدائیں بلند کرتے ہیں بلکہ آج کل تو سپیکر کھول کر فل آواز سے صلوۃ وسلام درود ووظائف ‘ کلمہ کا ذکر ‘ حق حق کی آوزیں ‘ بزرگوں ‘ ولیوں اور پیروں ‘ مرشدوں کے ناموں کی دہائی دی جاتی ہے اور ان مجالس کو ” مجالس ذکر “ کا نام دیا جاتا ہے اور پھر اس سے زیادہ لغو اور واہیات حرکات کے ساتھ ” محفل سماع “ قائم کی جاتی ہیں ۔ آیت میں (صلوۃ) کا لفظ جو آیا ہے اس سے ضروری نہیں کہ یہ معروف نماز یا اس کی قرات ہی مراد لی جائے کیونکہ (صلوۃ) کا لفظ دعاء ذکر وفکر اور نماز سے متعارف عبادت اور قرآن کریم کی قرات سب پر بولا جاتا ہے ۔ احادیث میں بھی اس لفظ (صلوۃ) سے دعا اور نماز کے اندر قرات قرآن کریم دونوں مراد لی گئی ہیں ۔ بخاری شریف میں دونوں قسم کی احادیث ہیں ۔ ابن عباس ؓ کی روایت نزول قرات کے متعلق ہے اور سیدہ عائشہ صدقہ ؓ کی روایت عام دعا کے بارہ میں ہے اور سیاق مضمون بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو پکارو تو میانہ روی اختیار کرو کہ نہ تو اس قدر چیخ کر پکارو کہ گویا اللہ تعالیٰ بلند آواز ہی کو سنتا ہے اور نہ ہی یہ جان کر کہ اللہ تعالیٰ تو دل کی باتیں جانتا ہے منہ سے کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے اس لئے بالکل خاموشی اختیار کر جاؤ ، دعا کے معاملہ میں بھی لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اسلام نے ہمیشہ میانہ روی اختیار کی ہے اور افراط وتفریط کو ہلاکت اور جہالت قرار دیا ہے اور اس معاملہ میں بھی اس راہ کو راہ ہدایت بتایا ہے ۔
Top