Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 110
قُلِ ادْعُوا اللّٰهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ١ؕ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى١ۚ وَ لَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ وَ لَا تُخَافِتْ بِهَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِكَ سَبِیْلًا
قُلِ
: آپ کہ دیں
ادْعُوا
: تم پکارو
اللّٰهَ
: اللہ
اَوِ
: یا
ادْعُوا
: تم پکارو
الرَّحْمٰنَ
: رحمن
اَيًّا مَّا
: جو کچھ بھی
تَدْعُوْا
: تم پکارو گے
فَلَهُ
: تو اسی کے لیے
لْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى
: سب سے اچھے نام
وَلَا تَجْهَرْ
: اور نہ بلند کرو تم
بِصَلَاتِكَ
: اپنی نماز میں
وَ
: اور
لَا تُخَافِتْ
: نہ بالکل پست کرو تم
بِهَا
: اس میں
وَابْتَغِ
: اور ڈھونڈو
بَيْنَ ذٰلِكَ
: اس کے درمیان
سَبِيْلًا
: راستہ
(اے پیغمبر اسلام ! ﷺ کہہ دے تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے پکارو اس کے سارے نام حسن و خوبی کے نام ہیں اور تو جب نماز میں مشغول ہو تو نہ تو چِلّا کر (زور سے) پڑھ نہ بالکل چپکے چپکے چاہیے کہ درمیان کی راہ اختیار کی جائے
اللہ کے نام سے اس کو پکارو یا رحمن کے نام سے اس کے سارے ہی نام اچھے ہیں : 128۔ دنیا کے اس عظیم الشان کارخانے کا ذرہ ذرہ ‘ سمندروں کا قطرہ قطرہ درختوں کا پتا پتا اللہ تعالیٰ کی ہستی کا گواہ ہے ، قرآن کریم میں ہے کہ (آیت) ” ان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم “۔ کیوں فرمایا ؟ اس لئے کہ کوئی چیز بڑی ہو یا چھوٹی ‘ زمین میں ہو یا آسمان میں ‘ خشکی میں ہو یا تری میں ‘ جاندار ہو یا بےجان اس خوبی اور عمدگی کے ساتھ ہے کہ اس سے بہتر ہونا ممکن نہیں ، آپ سے آپ نہیں بن گئی ، ضرور کسی کے بنانے سے بنی ہے ، ہم نے اس بنانے والے کی جستجو کی اور زمین سے لے کر آسمان تک چھان مارا تو کسی کو اس لائق نہ پایا ، جس کو دیکھا عاجز ‘ جس کو ٹٹولا درماندہ ۔ روئے زمین پر ہم ہی سب سے پیش پیش تھے کہ عقل رکھتے تھے سو ” ایاز قدر خود شناس “ سن اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ناچار آسمان پر نظر دوڑائی تو ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ یاد کرکے خاموش بیٹھ گئے یہ قصہ سورة الانعام کی آیات 74 تا 79 میں بیان کیا گیا ہے ، اس سے ہم سمجھے کہ جس کی جستجو ہے وہ تو چشم سر سے دیکھنے کی چیز ہی نہیں ۔ بنی اسرائیل نے شوخ چشمی کی تو (آیت) ” فاخذتھم الصاعقۃ “۔ کی سزا پائی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غلبہ شوق میں آکر حوصلہ کیا تو (آیت) ” خر موسیٰ صعقا “۔ سے شرمندگی اٹھائی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حواس ظاہر کی گرفت سے بالاتر ہے اور یہ ہمارے حواس کا قصور ہے ۔ گرنہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ آفتاب راچہ گناہ : ہاں ! چشم دل سے دیکھا جائے تو دنیا آئینہ خانہ ہے اور درد دیوار اللہ کے نور سے پڑے جگمگا رہے ہیں : دل کے آئینے میں ہے تصویر یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی : کسی نے کیا ہی عیبہ کہا ہے کہ دوست نزدیک تر از من بمن است دیں عجب ترکہ من ازوے دورم : چہ کنم با کہ تو ان گفت کہ او درکنار من ومن مہجورم : اس کا ترجمہ کسی نے یوں کردیا کہ : حبل الورید سے بھی وہ نزدیک ہے تو کیا آنکھیں نہیں تو کیا نظر آئے قریب سے : ہمارا تو خیال ہے کہ انسان کو شروع ہی سے اللہ کے بارے میں یہ غلطی واقعی ہوئی ہے اور اب تک بھی اکثر اللہ کے بندے اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اللہ کو اپنے حواس ظاہر کے ذریعہ سے معلوم کرنا چاہا اور جب انکو اس ارادے میں کامیابی نہ ہوئی تو من مانا خدا فرض کرلیا (آیت) ” اتخذ الھہ ھواہ “۔ اور اس کو اپنے ادہام باطلہ کا تخت مشق بنایا یعنی ذلیل سے ذلیل اور رذیل سے رذیل مخلوقات کو بھی پورا یا ادھورا خدا بنانے یا ماننے میں تامل نہیں کیا ۔ پورا تو پورا ادھورے کے یہ معنی کہ اپنے زعم میں خدائی کے اختیار اللہ رب العزت چھین کر نااہلوں کے حوالے کئے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ خد اس کو منصب خدائی سے معزول کردیا جس جس طرح پر اللہ کے بندوں نے اللہ کی جناب میں گستاخیاں اور بےادبیاں کیں اور کر رہے ہیں ناگفتہ بہ ہیں ، کوئی تو اس کی ذات پر حملے کرتا ہے کہ ایک نہیں دو خدا ہیں ، ایک پیدا کرتا اور دوسرا مارتا ہے ، ایک خالق خیر ہے اور دوسر خالق شر۔ کوئی کہتا ہے کہ تین خدا ہیں اور پھر وہ ایک بھی ہے ، کوئی مانتا ہے کہ ہرچیز بجائے خود خدا ہے ۔ کسی کا خیال ہے کہ خدا تو ہے مگر وہ اسباب کا سلسلہ قائم کرکے آپ انتظام دنیا سے دست کش ہو بیٹھا ہے ، ان کے نزدیک دنیا ایک طرح کی گھڑی ہے اور خدا کھڑی ساز ہے جس نے اس کو بنا کر کوک بھر دیا ہے اور گھڑی پڑی چل رہی ہے ، ذات تو ذات اللہ تعالیٰ کی صفات میں اس سے بھی بڑھ کر بیہودگی کی جاتی ہے ، غرض بندوں نے اتنے خدا بنا ڈالے کہ ایک خدا کے حصے میں پورا ایک بندہ بھی نہیں آتا اور یہ بات نہ سمجھے کہ اگر خدا کے ساتھ کوئی اور خدا بھی ہوتا تو دو برتن ایک جگہ رکھے ہوئے کھٹکھٹا اٹھتے ہیں ایسا کس طرح ممکن ہے کہ دو یا زیادہ خداؤں میں اختلاف نہ ہو اور اختلاف ہو تو دنیا ایک لمحہ بھی نہیں ٹھہر سکتی (آیت) ” لوکان فیھما الھہ الا اللہ لفسدتا “۔ دو بادشاہ آپس میں لڑتے ہیں تو ملک کے ملک خاک سیاہ ہوجاتے ہیں اور پھر خداؤں کی لڑائی تو خدا کی پناہ ، پس دنیا کا ایک اسلوب پر چلے جانا صاف اس بات کی دلیل ہے کہ تمام عالم میں ایک خدا کی حکومت ہے اقوام روزگار میں دوسری قومیں خدا کے بارے میں جیسے کچھ خیالات رکھتی ہیں وہ جانیں اور ان کی عقلیں ‘ ہم کو تو زیادہ خیال مسلمان بھائیوں کا ہے کہ ان کے ہاں بڑا زور توحید پر ہے مگر عملا انہوں نے مشرکوں کی کوئی ادا نہیں چھوڑی جس کی نقل نہ کی ہو الا ما شاء اللہ وقلیل ماھم “۔ (آیت) ” وما یؤمن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون “۔ ” اور مشرکوں کا حال یہ ہے کہ اللہ کو بھی مانتے ہیں اور شرک بھی کرتے جاتے ہیں ۔ “ اس کو اچھی طرح ہر شخص اپنی جگہ سمجھ لے کیونکہ معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اس کے متعلق ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ (آیت) ” یعلم خائنۃ الاعین وما تخفی الصدور “۔ ” اللہ تعالیٰ آنکھوں کی چوری کو بھی جانتا ہے اور ان رازوں کو بھی جو لوگوں کے سینوں میں ہیں۔ “ خدا کے بارے میں اسلامی عقیدہ ایسا سیدھا اور صاف ہے کہ اس سے زیادہ سیدھا اور صاف عقیدہ ہو ہی نہیں سکتا ، اسلام مخلوقات سے خدا کی ذات وصفات کا پتہ چلاتا ہے اور یہی وہ راستہ ہے جسے موصل الی المطلوب کہہ سکتے ہیں ، مخلوقات سے ہم کو اتنی بات کا پتہ چلتا ہے کہ کارخانہ عالم کا بنانے والا اور سنبھالنے والا کوئی ہے اور وہ ان چیزوں سے نہیں جن کو ہم معلوم کرسکتے ہیں ، بس سوائے اس کے ہم خدا کی ذات کے بارے میں اور کچھ نہیں کہہ سکتے اور عقل انسانی کی رسائی یہیں تک ہے ، اب رہیں صفات تو کارخانہ عالم اور اس کے انتظام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس کا بنانے والا اور اس کے انتظام کو چلانے والا ان صفتوں سے متصف ہو یعنی اس میں وہ کمالات ہوں جو اس کے صفاتی ناموں سے ظاہر ہوتے ہیں ، خدا کے ننانویں نام ہیں جو ” نودونہ “ نام سے مشہور ہیں ان میں سے ایک نام ” اللہ “ اسم ذات مان لیا گیا ہے اگرچہ معبود ہونے کی حیثیت سے اللہ کو بھی اسم صفت کہہ سکتے ہیں مگر آخر اتنے سارے صفاتی نام ہوں تو کوئی اسم ذات بھی ہونا چاہئے اور وہ ” اللہ “ ہے باقی اٹھانویں نام وہ کسی نہ کسی صفت پر دلالت کرتے ہیں ، اسمائے صفاتی کے بارے میں بھی ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ صفتیں بھی خدا میں ہیں یا ہونی ضروری ہیں بس اس سے زیادہ ہم اس کی صفات کی توضیح نہیں کرسکتے ، مثلا ہم کہتے ہیں کہ خدا سمیع ہے سب کی سنتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ جو علم ہم نبی آدم کو حاسہ سمع کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے وہ علم علی وجہ الکمال خدا کو بھی ہے نہ یہ کہ ہماری طرح کے اس کے کان ہیں ہمارے سننے کا تو یہ حال ہے کہ بولنے والا آواز کے ذریعے سے ہوا میں تموج پیدا کرتا ہے اور وہ تموج کان کے پردے سے ٹکراتا ہے اور ہم کو آواز کا علم ہوجاتا ہے ، خدا اس طرح کا علم تو رکھتا ہے مگر وہ بےنیاز ہے کان کا اور ہوا کے تموج کا محتاج نہیں بس اس پر اللہ تعالیٰ کی دوسری صفتوں کو قیاس کرلو یہ صفتیں ہم نے اپنے اوپر قیاس کر کے اللہ میں مان لی ہیں مگر ہماری صفات ناقص ہیں اللہ کی کامل واکمل جیسے ذرے کی چمک اور آفتاب کی جگمگاہٹ ۔ زیر نظر آیت میں فرمایا گیا کہ تم اللہ کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن کے نام سے پکارو جائز اور درست ہے کیونکہ اس کے اچھے اچھے نام بہت سے ہیں اس ارشاد الہی میں ایک بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور افسوس ہے کہ لوگوں کی نظر بحث و تفسیر میں اس طرف نہیں گئی ، دنیا میں انسان کے اکثر اختلافات محض لفظ و صورت کے اختلاف ہیں ، وہ معنی پر بہت کم لڑتا ہے لفظ پر زیادہ لڑتا ہے ، بسا اوقات ایک ہی حقیقت سب کے سامنے ہوتی ہے لیکن چونکہ نام مختلف ہوتے ہیں ‘ صورتیں مختلف ہوتیں ہیں ‘ اسلوب اور ڈھنگ مختلف ہوتے ہیں اس لئے ہر انسان دوسرے سے لڑنے لگتا ہے اور نہیں جانتا کہ یہ ساری لڑائی لفظ کی لڑائی ہے معنی کی لڑائی نہیں ہے ۔ مولانا روم نے چار دوستوں کے نزاع کا قصہ سنایا ہے جن میں ہر شخص انگور کا خواہش مند تھا لیکن چونکہ ایک آدمی ” عنب “ کہتا تھا ‘ دوسرا ” تاک “ اس لئے تلواریں نیام سے نکل آئیں ، اگر دنیا کے لوگ صرف اتنی بات پالیں تو نوع انسانی کے دو تہائی اختلافات جنہوں نے دائمی نزاعوں اور جنگوں کی صورت اختیار کرلی ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں ۔ اس آیت اور اس کی ہم معنی آیات میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ، مشرکین عرب ” اللہ “ کے لفظ سے آشنا تھے کیونکہ یہ لفظ پروردگار عالم کے لئے بطور اسم ذات کے قدیم سے مستعمل تھے لیکن دوسرے ناموں سے آشنا نہ تھے جن کا قرآن کریم نے اس کی صفتوں کے لئے اعلان کیا تھا مثلا ” الرحمن “ رحمن کا لفظ بولا جاتا تھا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اسے اللہ کے لئے بولنا چاہیے ، پس جب ایسے اسماء سنتے تو متعجب ہوتے اور طرح طرح کے اعتراضات کرتے ، قرآن کریم ان سے کہتا ہے کہ تم اے ” اللہ “ کہہ کر پکارو یا ” الرحمن “ کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو ‘ پکار اسی کے لئے ہے اور ناموں کے تعدد سے حقیقت متعدد ہوجاتی ہے ، اس کا نام ایک ہی نہیں اس کے بہت سے نام ہیں لیکن جتنے نام ہیں سب حسن و خوبی کے نام ہیں کیونکہ وہ سرتاسر حسن و کمال اور کبریائی و جلال ہے ، تم ان ناموں میں سے کوئی نام بھی لو ‘ تمہارا مقصود ومطلوب وہی ہونا چاہئے ۔ عباراتنا شتی وحسنک واحد وکل الی ذاک الجمال یشیرا : ہم پیچھے سورة الاعراف کی آیت 180 کے تحت اس بات کا ذکر کر آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کونسے نام ایسے ہیں جو دوسرے انسانوں کے لئے نہیں بولنا چاہئے اور کون کون سے بولے جاسکتے ہیں اور ان کے بولنے کا کیا طریقہ مناسب ہے اور اللہ تعالیٰ کے مشہور ومعروف ناموں کا ذکر اور ان کا تعارف بیان کرنے کا ہمارا وعدہ ہے لیکن یہ انشاء اللہ العزیز سورة ” الحشر “ میں پورا ہوگا کیونکہ وعدہ کے لئے اس جگہ کا انتخاب کردیا تھا جیسا کہ سورة الاعراف میں اس کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بھی بتائیں گے کہ کون کون سے نام قرآن کریم میں آتے ہیں اور کونسے ہیں جن کے مشتقات قرآن کریم میں ہیں لیکن اصل نام نہیں اور کون سے وہ نام ہیں جن کے مشتقات بھی قرآن کریم میں موجود نہیں لیکن احادیث میں ان کا ذکر آیا ہے اور اس طرح ننانویں نام جو امام ترمذی اور حاکم نے نقل کئے ہیں ان میں وہ موجود ہیں ۔ اسی طرح کون سے نام وہ ہیں جو مشہور ومعروف ہونے کے باوجود ان ننانویں ناموں میں شمار نہیں کئے گئے ۔ تمہاری نماز نہ بالکل چپکے ہونی چاہئے اور نہ ہی بہت پکار کر درمیانی راہ صحیح ہے : 129۔ آیت کے پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ کی پکار کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے ذاتی نام ” اللہ “ سے پکارو یا صفاتی ناموں میں سے کسی نام سے پکارو پکار سکتے ہو اور آیت کے اسی دوسرے حصہ میں اس کی پکار کا ادب سکھایا گیا ہے کہ جاہلوں کی طرح زور زور سے چلا چلا کر اللہ کو مت پکارو وہ دلوں کے رازوں کو جاننے والا ہے ہاں ! اگر زبان سے پکارنا ہی چاہو تو درمیانی راہ اختیار کرو جس سے بےادبی کا مظاہرہ نہ ہو بلکہ ادب ملحوظ خاطر رہے ۔ جاہلوں میں اس وقت بھی اور آج بھی اپنے معبودوں کو زور زور سے پکارنے کا رواج تھا اور ہے کہ وہ سر دھنتے ہیں ‘ جلیاں پاتے ہیں اور سب مل کر زور زور سے ان کا نام لیتے ہیں اور پھر جس طرح غیر اللہ کی صدائیں بلند کر کے پکارتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے کسی نام کا بھی ورد کرتے ہیں تو زور زور سے کرتے ہیں ان کو زیر نظر آیت میں اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو یا تلاوت قرآن کریم کرو ‘ نماز کے اندر ہو یا باہر ہر حال میں درمیانی راہ اختیار کرو چلا چلا کر اور زور زور سے نعرے لگانا سراسر جہالت ہے ، لیکن افسوس کہ آج بھی مسلمانوں کے ہاں کتنے لوگ ہیں جو گا گا کر ‘ چلا چلا کر اللہ کے نام کی ضربیں لگاتے ہیں اور ” ہو ہو “ کی صدائیں بلند کرتے ہیں بلکہ آج کل تو سپیکر کھول کر فل آواز سے صلوۃ وسلام درود ووظائف ‘ کلمہ کا ذکر ‘ حق حق کی آوزیں ‘ بزرگوں ‘ ولیوں اور پیروں ‘ مرشدوں کے ناموں کی دہائی دی جاتی ہے اور ان مجالس کو ” مجالس ذکر “ کا نام دیا جاتا ہے اور پھر اس سے زیادہ لغو اور واہیات حرکات کے ساتھ ” محفل سماع “ قائم کی جاتی ہیں ۔ آیت میں (صلوۃ) کا لفظ جو آیا ہے اس سے ضروری نہیں کہ یہ معروف نماز یا اس کی قرات ہی مراد لی جائے کیونکہ (صلوۃ) کا لفظ دعاء ذکر وفکر اور نماز سے متعارف عبادت اور قرآن کریم کی قرات سب پر بولا جاتا ہے ۔ احادیث میں بھی اس لفظ (صلوۃ) سے دعا اور نماز کے اندر قرات قرآن کریم دونوں مراد لی گئی ہیں ۔ بخاری شریف میں دونوں قسم کی احادیث ہیں ۔ ابن عباس ؓ کی روایت نزول قرات کے متعلق ہے اور سیدہ عائشہ صدقہ ؓ کی روایت عام دعا کے بارہ میں ہے اور سیاق مضمون بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو پکارو تو میانہ روی اختیار کرو کہ نہ تو اس قدر چیخ کر پکارو کہ گویا اللہ تعالیٰ بلند آواز ہی کو سنتا ہے اور نہ ہی یہ جان کر کہ اللہ تعالیٰ تو دل کی باتیں جانتا ہے منہ سے کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے اس لئے بالکل خاموشی اختیار کر جاؤ ، دعا کے معاملہ میں بھی لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے کیونکہ اسلام نے ہمیشہ میانہ روی اختیار کی ہے اور افراط وتفریط کو ہلاکت اور جہالت قرار دیا ہے اور اس معاملہ میں بھی اس راہ کو راہ ہدایت بتایا ہے ۔
Top