Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 111
وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ كَبِّرْهُ تَكْبِیْرًا۠   ۧ
وَقُلِ : اور کہ دیں الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے لَمْ يَتَّخِذْ : نہیں بنائی وَلَدًا : کوئی اولاد وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهٗ : اس کے لیے شَرِيْك : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهٗ : اس کا وَلِيٌّ : کوئی مددگار مِّنَ : سے۔ سبب الذُّلِّ : ناتوانی وَكَبِّرْهُ : اور اس کی بڑائی کرو تَكْبِيْرًا : خوب بڑائی
اور کہہ ساری ستائشیں اللہ کے لیے ہیں جو نہ تو اولاد رکھتا ہے نہ اس کی فرمانروائی میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ کوئی ایسا ہے کہ اس کی درماندگی کی وجہ سے اس کا مددگار ہو اس کی بڑائی کی پکار بلند کر جیسی پکار بلند کرنی چاہیے
سب اچھی تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جس نے کسی کو اولاد نہیں بنایا ‘ نہ اس کا کوئی شریک ہے ۔ 130۔ اس آیت پر سورت بنی اسرائیل کا اختتام ہو رہا ہے گیا سورة مبارکہ (سبحان اللہ) سے شروع ہوئی تھی اور (الحمد للہ) پر ختم ہو رہی ہے اور احادیث میں اس آیت کو آیت عزت قرار دیا گیا ہے جیسا کہ امام احمد بن حنبل (رح) نے مسند میں معاذ جہنمی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (الحمد للہ) سے آخر آیت تک آیت عزت ہے اور اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بندہ اللہ کی کتنی ہی تنزیہ اور تمجید بیان کرے اور حمد وثناء کے گیت گائے اور کتنی عبادت کرے پھر بھی اس کو اقرار کرنا چاہئے کہ وہ حق ادا کرنے سے قاصر ہے ، فرمایا وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دیتے ہیں کیا ہو اس کو کمزور سمجھتے ہیں یا فانی کہ کل جب وہ وفات پا جائے گا تو اس کے بعد اس کی جگہ پر بیٹھے گا یا وہ کمزور ہوجائے گا تو اس کی مدد کرے گا ۔ ہرگز نہیں اس کو اولاد بنانے یا اپنا ساجھی اور شریک ٹھہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ، وہ کمزور نہیں کہ اس کو ولی اور حامی و مددگار کی ضرورت ہو ۔ وہی سب بڑائیوں کے قابل ہے۔ سورة کے اختتام پر ” عقیدہ ولد “ کا ذکر کرکے آنے والے مضمون کا اشارہ عیسائی مذہب کی طرف کردیا جس پر آنے والی سورت میں بحث اور یہ بھی بتا دیا کہ رسولوں کی آمد اور بعثت کا مقصد اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور بزرگی بیان کرنا ہے ، محققین نے بیان کیا ہے کہ عربی زبان میں ” تکبیر “ سے بڑھ کر اور جامع تو کوئی لفظ نہیں اور جب اس فعل کا امر مصدر اور پھر صیغہ نکرہ کے ساتھ موکد ہو کر آئے تو زور اور وسعت کی انتہا ہی نہیں رہتی ۔ (روح) عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اعظم وآخر ﷺ نے فرمایا ” حمد شکر کی چوٹی ہے جو بندہ اللہ کی حمد و ستائش نہیں کرتا وہ شکر گزار بندہ نہیں ہوسکتا ۔ “ (رواہ البیہقی وعبدالرزاق فی الجامع) جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” سب سے بہتر دعا ” الحمد للہ “ اور سب سے اعلی ذکر لا الہ الا اللہ ہے ۔ (رواۃ الترمذی وابن ماجہ) سمرہ بن جندب ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پیارے چار جملے ہیں ” لا الہ الا اللہ “ ” سبحان اللہ “ ” اللہ اکبر “ اور ” الحمد للہ “ جس سے بھی شروع کروکر سکتے ہو ، (رواہ مسلم واحمد) انس ؓ سے روایت ہے کہ جب بچہ کی زبان کھل جائے یعنی بات سیکھنے لگے اور بولنے لگے تو اس کو ” الحمد للہ الذی لم یتخذ ولدا “۔ کا جملہ یاد کراؤ (ابن سنی عمل الیوم) ” سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم “۔ الحمد للہ کی تفسیر عروۃ الوثقی “ میں سورة بنی اسرائیل کی تفسیر مکمل ہوئی ۔ 17۔ اکتوبر 1996 ء قبل از صلوۃ عصر۔
Top