Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 107
قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ
قُلْ : آپ کہ دیں اٰمِنُوْا : تم ایمان لاؤ بِهٖٓ : اس پر اَوْ : یا لَا تُؤْمِنُوْا : تم ایمان نہ لاؤ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : علم دیا گیا مِنْ قَبْلِهٖٓ : اس سے قبل اِذَا : جب يُتْلٰى : وہ پڑھاجاتا ہے عَلَيْهِمْ : ان کے سامنے يَخِرُّوْنَ : وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے
ان لوگوں سے کہہ دے تم قرآن کو مانو یا نہ مانو لیکن جن لوگوں کو پچھلی کتابوں کا علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ کلام سنایا جاتا ہے تو وہ بےاختیار ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں
اے پیغمبر اسلام ! کہہ دیجئے کہ مانو یا نہ مانو علم والے اس کو ہدایات تسلیم کریں گے : 125۔ علم والے کون ہیں ؟ مذہبی پیشواؤں کے نزدیک علم والے وہ ہیں جو کسی اونچی دینی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہوں پھر سارے مکاتب فکر کی اپنی اپنی دینی درسگاہیں ہیں اور ان کے نزدیک عالم بھی وہی ہے جو ان کی دینی درسگاہ کا سند یافتہ بلکہ انعام یافتہ ہو اس کے علاوہ جتنے لوگ کالجوں ‘ یونیورسیٹوں سے فارغ التحصیل ہو کر آتے ہیں سب کے سب جاہل ہیں گویا ڈاکٹر ‘ انجینئر ‘ پروفیسر ‘ پر نسپل سارے شعبوں کے ڈائریکڑ اور سیکرٹری سب کے سب جاہل ہیں بلکہ ہمارے علمائے کرام نے باقاعدہ جاہلوں کی ایک فہرست تیار کر رکھی ہے جب وہ کٹر جا ہو وں کا نام لینا چاہتے ہیں تو ان ناموں سے دو چار نام پڑھ دیتے ہیں تاکہ لوگ جاہلوں سے متعارف ہوجائیں اس وقت ہمارے ملک میں مذہبی پشواؤں کے نزدیک سب سے زیادہ جاہل بلکہ جہالت کے باپ یا دادا کا نام لینا ہو تو سرفہرست سیداحمد خاں (رح) کا اسم گرامی آئے گا یا علامہ اقبال (رح) پر نظر جم جائے گی ذرا نیچے اتریں گے تو ابو الکلام آزاد (رح) پر نظرے پڑے گی اور ان ان پڑھوں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ اگر اس کو درج کرنے لگیں تو بیسیوں صفحات کالے کرنے پڑیں گے کیونکہ انہی ان پڑھوں میں مولانا مودودی (رح) امین احسن اصلاحی (رح) ، تمناعمادی (رح) نیاز فتح پوری (رح) اور ڈکٹر اسرار (رح) ، جیسے سارے لوگ باری باری آتے جائیں گے ۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ جب پر صغیر میں سکولوں ‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا وجود نہیں تھا اس وقت مذہبی اور دینی درسگاہیں فی الواقع نور علم کا منبع تھیں اور انہی درسگاہوں کے نتیجہ میں قوم مسلم کو مالک (رح) ، ابوحنیفہ (رح) ، شافعی (رح) احمد بن حنبل (رح) ، بخاری (رح) ، مسلم ، (رح) ابو داؤد ، (رح) ، ترمذی (رح) ، رازی (رح) ، ابن تیمیہ (رح) ، ابن قیم (رح) ، شاہ عبدالرحیم (رح) ، شاہ ولی اللہ (رح) ، شاہ عبدالقادر (رح) ، شاہ رفیع الدین (رح) ، اور شاہ عبدالغنی (رح) ، جیسے لوگ مہیا ہوئے تھے ، لیکن جب سے مذہبی درس گاہیں تقسیم ہو کر سکولوں ‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نام سامنے آئے ، دینی درسگاہوں نے فرقہ بندی کا لبادہ پہن لیا اور اب درسگاہیں نہیں بلکہ جہالت گاہیں اور فرقہ بندی کی تعلیم گاہیں ہو کر رہ گئیں ۔ لیکن قرآن کریم کی زبان میں جس چیز کا نام ” علم “ رکھا گیا وہ ایک بات کو جان لینے کے بعد اس کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے اور جس علم کے مطابق عمل نہ ہو اس علم کا علم تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کو عین جہالت قرار دیا ۔ قرآن کریم کے نزول کے وقت بھی کتنے صاحب علم موجود تھے لیکن قرآن کریم نازل ہوا تو جن لوگوں نے اس کلام کو سن کر اپنی اگلی کتابوں کو پیش گوئیوں اور پیش خبریوں کی تصدیق کی وہ صاحب علم قرار دیئے گئے اور جن لوگوں نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اسے ماننے اور تسلیم کرنے سے انکار کردیا ان کو جاہل قرار دیا گا ے ہے ۔ زیر نظر آیت میں فرمایا کہ ” تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ یاد رکھو کہ جو لوگ صاحب علم ہیں ان کے سامنے جب قرآن کریم پڑھا جاتا ہے تو وہ اس کو سمجھ کر کہ یہ کلام فی الواقعہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے عاجزانہ طور پر بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ۔ (اذقان) ” ذقن “ کی جمع ہے اور ذقن ٹھوڑی کو کہتے ہیں اور قرآن کریم میں جزء کا نام لے کر کل مراد لینا عام ہے اس طرح یہاں بھی (ذقن) ٹھوڑی کا نام لے کر سجدہ کی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے جیسے ہمارے ہاں ناک سے لکیریں نکلوانے کے الفاظ بولے جاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جو شخص (آیت) ” اوتوالعلم “۔ کا مصداق ہے وہ علم کی بات کے سامنے نفس کی ہوا ہوس آباواجداد کے رسم و رواج اور دوسری معاشرتی اور سماجی اور خاندانی پابندیوں کو چھوڑ دیتا ہے اس کی نگاہ فقط حکم الہی کی پابندی پر لگی ہوتی ہے ، مختصر یہ کہ علم ہمیشہ دلیل چاہتا ہے اور جہالت ضد ‘ ہٹ دھرمی اور بعض وعناد جیسی چیزیں پسند کرتی ہے اس لئے علم اور جہالت کی پہچان تقریبا آسان ہے بشرطیکہ کوئی پہچان کرنا چاہئے ۔
Top