Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 45
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ
اِنَّ : بیشک الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار فِيْ : میں جَنّٰتٍ : باغات وَّعُيُوْنٍ : اور چشمے
بلاشبہ متقی انسان باغوں اور چشموں میں ہوں گے
پرہیزگار لوگ چشموں اور باغوں میں ہوں گے : 45۔ بدبختوں کے ذکر کے بعد نیک بختوں کا ذکر شروع کردیا گیا ، زیر نظر آیت سے نیک بخت اور نیک سیرت ونیک کردار لوگوں کا ذکر ہے کہ یہ لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے ، آخرت کے خانہ عیش و راحت کیلئے قرآن کریم نے عموما جنت اور بعض جگہ روضہ کا لفظ استعمال کیا ہے ‘ نادان اس کی وجہ یہ قرار دیتے ہیں کہ عرب کے شور وبے حاصل صحرا کے بسنے والوں کی انتہا کی آرزو چونکہ سرسبز و شاداب باغوں ہی کی ہو سکتی ہے اس لئے ان کیلئے یہ لفظ اس مقام پر آخرت کیلئے قرآن کریم نے استعمال کیا ہے مگر یہ سمجھنا چاہئے کہ قرآن کریم کا مخاطب صرف عرب ہی نہیں بلکہ دنیا کا گوشہ گوشہ ہے اس لئے عرب کی تخصیص بےمعنی ہے ، کیا دنیا کے سرسبز و شاداب ملکوں کے بسنے والوں کیلئے تخیل باغ دراغ اور رنگ وگل کی بہار پسندیدہ نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ یہاں بیابان وگلستان کی تخصیص نہیں ‘ یہ فطرت انسانی کی تصویر ہے انسان کسی خطہ ارضی میں بھی آباد ہو مگر وہ سرسبز و شاداب قطعات باغ و بہار اور کنار آب ونہر کو عیش ومسرت کا مقام سمجھتا ہے اور ان کو دیکھ کر اندر سے اس کی روح وجد کرتی ہے ۔ اس استعارہ کے استعمال کا ایک نکتہ بھی توجہ کے قابل ہے انسان کا گھر وہ عیش خانہ ہوتا ہے جس میں حزن وغم کی آمیزش بھی شامل ہوتی ہے اہل و عیال اور دولت ومال کے متعلق ہر قسم کی فکریں اس کے دل کے دامن میں لپٹی ہوتی ہیں مگر جب انسان سیر و تفریح کیلئے باغ وچمن کا رخ کرتا ہے تو تھوڑی دیر کیلئے وہ ہر غم کو بھول جاتا ہے اور ہر تعلق کو دل سے نکال دیتا ہے اور ایسا شاداں وفرحان جاتا ہے کہ غم والم اس کے ہر گوشہ خاطر سے دور ہوجاتے ہیں ۔ قرآن کریم کی وحی الہی نے اس لفظ کو اس لئے استعمال کیا ہے تاکہ اس سے اخروی عیش ومسرت شادابی و خوشی اور فراغ خاطر کی پوری تصویر کھنچ جائے ۔
Top