Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 33
قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ
قَالَ : اس نے کہا لَمْ اَكُنْ : میں نہیں ہوں لِّاَسْجُدَ : کہ سجدہ کروں لِبَشَرٍ : انسان کو خَلَقْتَهٗ : تو نے اس کو پیدا کیا مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھکھناتا ہوا مِّنْ : سے حَمَاٍ : سیاہ گارا مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اس نے کہا مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بشر کے (خلیفہ بننے کے لیے) سجدہ کروں جسے تو نے خمیر اٹھائے ہوئے گارے سے بنایا ہے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے
تفسیر : ابلیس نے کہا میں ایک انسان کیلئے سجدہ کروں ؟ جس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے : 33۔ ابلیس کہنے لگا کہ اے میرے اللہ ! اے میرے رب ! ایک انسان کی فوقیت کو تسلیم کرلوں کہ وہ مجھ جیسے پر فوقیت رکھتا ہے ؟ یہ کیسے ممکن ہے جب کہ وہ خود پرانے کیچڑ کی بجنے والی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ، گویا ایسے حقیر و ذلیل مادہ سے بنی ہوئی مخلوق کیلئے میں سجدہ کروں اور تسلیم کرلوں کہ وہ میرے سے فی الواقع افضل واعلی ہے حالانکہ میں نورانی مادہ آتش سے بنا ہوا ہوں ! آتش کہیں خاکی کے آگے نورانی کہیں ظلماتی کے آگے اپنی سبکی اور ہار مان سکتا ہے ؟ گویا وہ لطیف مادہ کثیف سے افضل و بہتر ہر جہت و اعتبار سے ہوتا ہے اور افضل کو غیر افضل کے آگے کبھی اور کسی اعتبار سے بھی جھکنا غلط ہے ! ابلیس کی ان باطل آرائیوں کی تردید سورة الاعراف میں پوری طرح کی جا چکی ہے ۔ اس لئے کہ وہاں آیت 10 سے آیت 27 تک مسلسل یہی مضمون چلا گیا ہے اور تقریبا 22 ، 23 ، حاشیوں میں اس کی بڑی تفصیل دی گئی ہے ۔ عروۃ الوثقی : جلد سوم سورة الاعراف کی آیت 10 سے 27 تک ملاحظہ فرمائیں ۔
Top