Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 31
اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ
اِلَّآ : سوائے اِبْلِيْسَ : ابلیس اَبٰٓى : اس نے انکار کیا اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : وہ ہو مَعَ : ساتھ السّٰجِدِيْنَ : سجدہ کرنے والے
مگر ابلیس پر یہ بات شاق گزری کہ سجدہ کرنے والوں میں سے ہو
ابلیس نے سجدہ نہ کیا اور اس طرح وہ نافرمانی کا مستحق قرار پایا : 31۔ یہ بدنصیب تو پہلے ہی تھا کیونکہ مجسمہ برائی تھا اور خیر کے مقابلہ کی چیز تھا اس لئے (آیت) ” حماء مسنون “۔ ہی کو دیکھ کر رہ گیا لیکن (آیت) ” نفخت فیہ من روحی “ کے راز کو نہ سمجھ سکا اور اس کی ساری اصلیت اس ایک جملہ سے واضح ہوگئی اور زبان سے کچھ کہنے سے پہلے ہی اس نے عملی انکار کردیا اور عملی انکار وہ چیز ہے جس کی تردید بھی ممکن نہیں اور عذر بھی پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ معذرت کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی اس بات سے عملی انکار کرنے والوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا انکار کتنا سخت انکار ہے لیکن ہمارے علماء نے ہم کو اس کی پوری تفہیم نہیں ہونے دی یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا پورا معاشرہ عملی انکار مرتکب ہے اور اسلام کو سچے دل سے ماننے والے عنقاہو چکے ہیں لیکن ہمارے مفیتوں کا فتوی کیا ہے ؟ یہی کہ یہ گنہگار ضرور ہیں لیکن ان کو انکاری نہیں کہا جاسکتا ؟ اس لئے کہ یہ سارے ارکان اسلامی کا اقرار کرتے ہیں اگرچہ وہ سرہلانے سے ہو یا ” ہوں ‘ ہوں “ کرنے سے اور عملی انکار ان کا اگرچہ موجود ہے لیکن جب تک زبان سے اقرار کرتے ہیں صرف عملی انکار کے مرتکب ہو کر وہ انکار نہیں کہلا سکتے ، یہ مفتیان شرع متین کا فتوی ہے لیکن اس جگہ اس کے قولی انکار سے پہلے اس کے عملی انکار ہی کا ذکر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ ” ابی “ اس نے انکار کردیا یہ انکار اس کا کیا تھا ؟ فرمایا وہ یہ تھا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ ریز نہ ہوا۔
Top