Urwatul-Wusqaa - Al-Hijr : 28
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّكَ : تیرا رب لِلْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتوں کو اِنِّىْ : بیشک میں خَالِقٌ : بنانے والا بَشَرًا : انسان مِّنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ : سے حَمَاٍ : سیاہ گارا مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا میں خمیر اٹھے ہوئے گارے سے جو سوکھ کر بجنے لگتا ہے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں
فرشتوں سے کہا گیا کہ میں اس سوکھ کر بجنے والی مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں : 28۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا خیر کی الگ طاقت کا نام انسان نہیں ہے اور اس طرح شرک کی الگ طاقت کا نام بھی انسان نہیں تھا ۔ اب جب دونوں قسم کے قوی کو جمع کردیا تو اس کرشمہ سازی سے جو مجسمہ تیار ہو کر کھڑا ہوگیا بس اس کا نام انسان تھا ‘ ہے اور رہے گا ۔ اب اس طاقت کو جو سراسر خیر ہی خیر ہے اور سراسر شر ہی شر ہے حکم دیا گیا کہ اس مجسمہ خیر وشر کی فوقیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس علت کی بنا پر سجدہ ریز ہوجا جب کہ میں اس کو ایک مجسمہ کی صورت بنا کر صحیح اور درست کر دوں ، گویا یہ ایک وعدہ تھا جو تخلیق آدم سے پہلے ان دونوں طاقتوں اور قوتوں سے لیا گیا اور پھر یہ بھی کہ ایک ہی قوت کا نام لینے میں دوسری خود بخود اس میں آگئی کیونکہ ایک کے وجود کیلئے دوسری طاقت لازم آتی ہے جس طرح 24 گھنٹے کا دن شمار ہو تو رات اس میں خود لازم ہوتی ہے اور اس سے کسی کو یہ غلط فہمی کبھی نہیں ہوئی کہ شاید 24 گھنٹے کا دن جو کہا گیا تو رات وہاں موجود نہ رہی ہوگی یا رات کا وجود ختم ہوگیا ہوگا یا یہ الفاظ بولنے والے کے غلط ہوں گے کیونکہ 24 گھنٹے کا دن تو آج تک جب سے یہ نظام قائم ہوا کبھی ہوا ہی نہیں ۔ قرآن کریم نے جہاں کہیں بھی اس قصہ کو بیان کیا تو اس کاپیرایہ بیان اس طرح رکھا تاکہ لوگوں کو غلطی نہ لگے اور بات کو سنتے ہی اچھی طرح سمجھ جائیں ، مفسرین نے اس بات کو سمجھانے کیلئے اپنے اپنے مذاق کے مطابق بہت لمبی چوڑی بحثیں کی ہیں لیکن ان بھاری بھر کم بحثوں سے مستفید ہونے کیلئے اس ” اٹل بحث “ کو یاد کرنا پڑتا ہے جو علماء کہلانے کیلئے پڑھنا لازم قرار پائی ہے ، ہمارے جیسے کم علموں کے ذہن و دماغ میں آنے والی وہ باتیں نہیں ، لیکن قرآن کریم جو اللہ کا کلام ہے وہ ہم سب کیلئے یکساں حیثیت رکھتا ہے جیسے ان کیلئے وہ اللہ کی کتاب ہے ہمارے لئے بھی ہے اور چونکہ خواص تھے اس لئے انہوں نے خواص کیلئے ضابطے خود گھڑے اور انہیں خود ساختہ ضابطوں کے تحت اس کو سمجھا لیکن معاملہ ان سے بالکل الگ ہے جیسا کہ ان لوگوں کا تھا جن کے ادوار میں ابھی یہ ضابطے تشکیل نہیں دیئے گئے تھے لیکن قرآن کریم کو وہ بلاشبہ ان سے بدرجہا بہتر سمجھتے تھے پھر جب وہ سمجھتے تھے تو آج ہم ان ضابطوں سے ہٹ کر اس فطری طریقہ سے ان کو کیوں نہیں سمجھ سکیں گے ؟
Top