Taiseer-ul-Quran - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
اور ہم ضرور تمہیں 195 خوف اور فاقہ میں مبتلا کر کے، نیز جان و مال اور پھلوں کے خسارہ میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اور (اے نبی ! ) ایسے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے
195 یہ خطاب مسلمانوں سے ہے۔ خوف سے مراد وہ ہنگامی صورت حال ہے جو جنگ احزاب سے پہلے ہر وقت مدینہ کی آزاد چھوٹی سی ریاست کے گرد منڈلاتی رہتی تھی۔ ایک دفعہ خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کاش آج رات کوئی میرا پہرہ دے تاکہ میں سو سکوں۔ یہ سن کر حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ مسلح ہو کر آگئے اور کہا یا رسول اللہ ﷺ ! میں پہرہ دیتا ہوں آپ ﷺ سو جائیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے اس طرح آرام فرمایا۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحراسہ فی الغزو فی سبیل اللّٰہ عزوجل، بخاری کتاب التمنی باب قولہ النبی لیت کذا وکذا) اور ایک رات اہل مدینہ ایک خوفناک آواز سن کر گھبرا گئے، پھر وہ اس آواز کی طرف روانہ ہوئے تو دیکھا رسول اللہ ﷺ ادھر سے واپس آ رہے ہیں۔ آپ ﷺ ان سے پہلے ہی اس آواز کی جانب روانہ ہوگئے تھے اور خبر معلوم کر کے آ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے کہا ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب الحمائل و تعلیق السیف بالعنق اور مبادرۃ الامام عند الفزع اور مسلم کتاب الفضائل باب شجاعۃ النبی) اور اس دور میں مسلمانوں کی معاشی تنگ دستی کا حال درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ 1۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے صفہ والوں میں ستر آدمی ایسے دیکھے جن کے پاس چادر تک نہ تھی یا تو فقط تہبند تھا یا فقط کمبل۔ جسے انہوں نے گردن سے باندھ رکھا تھا۔ جو کسی کی آدھی پنڈلیوں تک پہنچتا اور کسی کے ٹخنوں تک، جسے وہ اپنے ہاتھ سے سمیٹتے رہتے۔ اس ڈر سے کہ کہیں ان کا ستر نہ کھل جائے۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب نوم الرجال فی المسجد) 2۔ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بھانجے عروہ بن زبیر ؓ سے کہا کہ : میرے بھانجے ہم پر ایسا وقت گزر چکا ہے کہ ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند، پھر تیسرا چاند یعنی دو دو مہینے آپ ﷺ کے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی۔ عروہ ؓ نے کہا : خالہ ! پھر تمہاری گزر کس چیز پر ہوتی تھی ؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : انہی دو کالی چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر۔ اتنا ضرور تھا کہ چند انصاری لوگ آپ ﷺ کے ہمسائے تھے جن کے پاس بکریاں تھیں۔ وہ آپ کے لیے بکریوں کا دودھ تحفہ کے طور پر بھیجا کرتے جس سے ہم آپ ﷺ کو بھی پلاتے۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا) 3۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آل پر آپ کی وفات تک ایسا زمانہ نہیں گزرا کہ انہوں نے مسلسل تین دن پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو۔ (بخاری، کتاب الاطعمہ باب قول اللہ تعالیٰ کلوا من طیبات مارزقنکم وکلوا من طیبات ما کسبتم) 4۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ مجھے حضرت عمر ؓ ملے تو ان سے کہا کہ قرآن پاک کی فلاں آیت : ( وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا ۝) 76 ۔ الإنسان :8) مجھے پڑھ کر سناؤ، وہ اپنے گھر میں گئے اور یہ آیت مجھے پڑھ کر سنائی اور سمجھائی۔ آخر میں وہاں سے چلا۔ تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ بھوک سے بےحال ہو کر اوندھے منہ گرپڑا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ میرے سرہانے کھڑے ہیں۔ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور پہچان گئے کہ بھوک کے مارے میرا یہ حال ہے۔ آپ مجھے گھر لے گئے اور میرے لیے دودھ کا پیالہ لانے کا حکم دیا۔ میں نے دودھ پیا، پھر فرمایا ابوہریرہ ! اور پی، میں نے اور پیا۔ پھر فرمایا : اور پی۔ میں نے اور پیا حتیٰ کہ میرا پیٹ تن کر سیدھا ہوگیا۔ پھر میں حضرت عمر ؓ سے ملا اور اپنا حال بیان کیا اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے میری بھوک دور کرنے کے لیے ایسے شخص کو بھیج دیا جو آپ سے اس بات کے زیادہ لائق تھے اللہ کی قسم ! میں نے آپ سے جونسی آیت پڑھ کر سنانے کو کہا تھا۔ وہ مجھے آپ سے زیادہ یاد تھی۔ حضرت عمر ؓ کہنے لگے، اللہ کی قسم ! اگر میں اس وقت تمہیں گھر لے جا کر کھانا کھلاتا تو سرخ اونٹوں کے ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ (بخاری، کتاب قول اللّٰہ تعالیٰ کلوا من طیبات ما رزقناکم) 5۔ سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ میں پہلا عرب ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم نے اپنے تئیں اس وقت جہاد کرتے پایا جب ہم کو حبلہ اور سمر (کانٹے دار درخت) کے پتوں کے سوا اور خوراک نہ ملتی۔ ہم لوگوں کو اس وقت بکری کی طرح سوکھی مینگنیاں آیا کرتیں جن میں تری نام کی کوئی چیز نہ ہوتی۔ (بخاری، کتاب الرقاق، (باب کیف کان عیش النبی ﷺ و اصحابہ۔۔ ) 6۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک لڑائی کو نکلے۔ سواری کے لیے ہم سب کے پاس ایک ہی اونٹ تھا اور باری باری اس پر سوار ہوتے اور چلتے چلتے ہمارے پاؤں پھٹ گئے اور میرے تو پاؤں پھٹ کر ناخن بھی گرپڑے۔ اس حال میں ہم پاؤں پر چیتھڑے لپیٹ لیتے۔ اسی لیے اس لڑائی کا نام غزوہ ذات الرقاع (چیتھڑوں والی لڑائی پڑگیا (بخاری، کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع) 7۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے ایک لشکر سمندر کے کنارے بھیجا جس میں تین سو آدمی اور سردار ابو عبیدہ بن الجراح ؓ تھے۔ ہمارا راشن ختم ہوگیا تو ابو عبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ سب لوگ اپنا اپنا بچا ہوا راشن ایک جگہ جمع کریں۔ یہ سارا راشن کھجور کے دو تھیلے تھے ابو عبیدہ ؓ اس سے تھوڑا تھوڑا کھانے کو دیتے رہے۔ جب وہ بھی ختم ہوگیا تو ہمیں روزانہ صرف ایک کھجور کھانے کو ملا کرتی۔ وہب نے جابر ؓ سے پوچھا ! بھلا ایک کھجور سے کیا بنتا ہوگا۔ جابر ؓ کہنے لگے کہ وہ ایک کھجور بھی غنیمت تھی، جب وہ بھی نہ رہی تو ہمیں اس کی قدر معلوم ہوئی۔ پھر ہم سمندر پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑی مچھلی ٹیلے کی طرح پڑی ہے۔ سارا لشکر اٹھارہ دن اس کا گوشت کھاتا رہا، جب ہم چلنے لگے تو ابو عبیدہ ؓ نے حکم دیا کہ اس کی دو پسلیاں کھڑی کی جائیں وہ اتنی اونچی تھیں کہ اونٹ پر کجاوہ کسا گیا تو وہ ان کے نیچے سے نکل گیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی باب غزوۃ سیف البحر) خوف کے علاوہ فاقہ، جان و مال اور پھلوں میں خسارہ یہ سب ایسی صورتیں ہیں جو اسلام کی راہ میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو پیش آتی رہیں۔ اسی لیے انہیں صبر اور نماز سے مدد لینے کی ہدایت کی گئی۔
Top