Tafseer-al-Kitaab - Al-An'aam : 8
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَیْهِ مَلَكٌ١ؕ وَ لَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِیَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا یُنْظَرُوْنَ
وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں لَوْ : کیوں لَآ اُنْزِلَ : نہیں اتارا گیا عَلَيْهِ : اس پر مَلَكٌ : فرشتہ وَلَوْ : اور اگر اَنْزَلْنَا : ہم اتارتے مَلَكًا : فرشتہ لَّقُضِيَ : تو تمام ہوگیا ہوتا الْاَمْرُ : کام ثُمَّ : پھر لَا يُنْظَرُوْنَ : انہیں مہلت نہ دی جاتی
یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر) پر فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوا (جو اس کی پیغمبری کی تصدیق کرتا) ؟ اگر ہم فرشتہ نازل کرتے تو (کبھی کا) فیصلہ ہوگیا ہوتا، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی۔
[3] یعنی فرشتے کا نزول دنیا میں اس طرح کہ کافر تک کو نظر آجائے۔ دستور الٰہی میں نزول عذاب کے وقت ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر مہلت کا امکان کہاں ؟ مہلت اسی وقت تک ہے جب تک حقیقت پردہ غیب میں پوشیدہ ہے۔ جہاں غیب کا پردہ چاک ہوا اور حقیقت ظاہر ہوگئی، اس کے بعد تو صرف حساب ہی لینا باقی رہ جائے گا، اس لئے کہ دنیا کی زندگی امتحان کا زمانہ ہے اور امتحان اس چیز کا ہے کہ حقیقت کو دیکھے بغیر، غور و فکر سے انسان اس کا ادراک کرسکتا ہے یا نہیں۔ یہ مدت امتحان اسی وقت تک ہے جب تک غیب غیب ہے۔ جیسے ہی غیب ظاہر ہوگیا تو اس کے ساتھ مدت امتحان بھی ختم ہوگئی۔
Top