Tafheem-ul-Quran - Al-Furqaan : 53
وَ هُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ١ۚ وَ جَعَلَ بَیْنَهُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : جس نے مَرَجَ : ملایا الْبَحْرَيْنِ : دو دریا ھٰذَا : یہ عَذْبٌ : شیریں فُرَاتٌ : خوشگوار وَّھٰذَا : اور یہ مِلْحٌ اُجَاجٌ : تلخ بدمزہ وَجَعَلَ : اور اس نے بنایا بَيْنَهُمَا : ان دونوں کے درمیان بَرْزَخًا : ایک پردہ وَّحِجْرًا : اور آڑ مَّحْجُوْرًا : مضبوط آڑ
اور وہی ہے جس نے دوسمندروں کو ملا رکھا ہے۔ ایک لذیذ و شیریں، دُوسرا تلخ و شور۔ اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے۔ ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈ مڈ ہونے سے روکے ہوئے ہے۔ 68
سورة الْفُرْقَان 68 یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہاں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے۔ اس کے علاوہ خود سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی) اپنی کتاب مرآۃ الممالک میں، جو سولہویں صدی عیسوی کی تصنیف ہے خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہاں آب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں، جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حاصل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکن کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداءً وہ بھی خلیج فارس کے ان ہی چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنوئیں کھود لیے گئے اور ان سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمندر کی تہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ تو ہے آیت کا ظاہری مضمون، جو اللہ کی قدرت کے ایک کرشمے سے اس کے الٰہ واحد اور رب واحد ہونے پر استدلال کر رہا ہے۔ مگر اس کے بین السطور سے بھی ایک لطیف اشارہ ایک دوسرے مضمون کی طرف نکلتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسانی معاشرے کا سمندر خواہ کتنا ہی تلخ و شور ہوجائے، اللہ جب چاہے اس کی تہ سے ایک جماعت صالحہ کا چشمہ شیریں نکال سکتا ہے، اور سمندر کے آب تلخ کی موجیں خواہ کتنا ہی زور مار لیں وہ اس چشمے کو ہڑپ کر جانے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔
Top