Tadabbur-e-Quran - Nooh : 4
یَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ یُؤَخِّرْكُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ١ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يَغْفِرْ لَكُمْ : بخش دے گا تمہارے لیے مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ : تمہارے گناہوں میں سے وَيُؤَخِّرْكُمْ : اور مہلت دے گا تم کو اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : مقرر وقت تک اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ : بیشک اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت اِذَا جَآءَ : جب آجاتا ہے لَا يُؤَخَّرُ : تو ڈھیل نہیں دی جاتی۔ تاخیر نہیں کی جاتی لَوْ كُنْتُمْ : اگر ہو تم تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے
اللہ تمہارے (پچھلے گناہ) معاف کر دے گا اور تم کو مہلت دے گا ایک معین مدت تک۔ بیشک اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت جب آجائے گی تو وہ ٹالے نہیں ٹلے گی۔ کاش کہ تم اسے کو سمجھتے !
زبان کی ایک بحث: یعنی اگر تم نے میری یہ تینوں باتیں مان لیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے ان جرائم کو معاف کر دے گا جن کے سبب سے تم مستحق عذاب قرار پائے ہو اور ایک معین مدت تک کے لیے تم کو اس دنیا میں کھانے بلسنے کی مہلت مل جائے گی۔ ’یَغْفِرْ لَکُمْ مِّنْ ذُنُوبِکُمْ‘ میں حرف ’مِنْ‘ کو بعض لوگوں نے زائد قرار دیا ہے اور بعض لوگوں نے اس کو ’عَنْ‘ کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ دونوں رائیں عربیت کے خلاف ہیں۔ قرآن میں کوئی حرف بھی زائد نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی حرف بظاہر زائد نظر آتا ہے تو وہ بھی زبان کے معروف ضابطہ کے تحت کسی خلا کو بھرنے کے لیے آیا ہے۔ اس طرح کے حروف مخصوص ہیں۔ ہر حرف کو بغیر کسی سند کے زائد نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ’مِنْ‘ کے زائد آنے کی کوئی مثال قرآن یا مستند کلام میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح اس کو ’عَنْ‘ کے معنی میں لینا بھی ایک بالکل بے سند بات ہے۔ اول تو اس کے ’عَنْ‘ کے معنی میں آنے کی کوئی قابل اعتماد مثال موجود نہیں ہے اور ہو بھی تو ’غفر‘ کا صلہ ’عَنْ‘ کے ساتھ نہیں آتا۔ آپ دعا میں کہتے ہیں: ’رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا‘ یوں نہیں کہتے کہ ’اِغْفِرْلَنَا عَنْ ذُنُوْبِنَا‘۔ اگر یوں کہیں گے تو اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ تاویل کرنی پڑے گی کہ یہاں ’غفر‘ لفظ ’صفح‘ یا اس کے ہم معنی کسی ایسے لفظ پر متضمن ہے جس کا صلہ ’عَنْ‘ کے ساتھ آتا ہے۔ اس کے بغیر ’غفر‘ کے ساتھ ’عَنْ‘ کا استعمال عربیت کے خلاف ہو گا۔ میرے نزدیک یہاں ’مِنْ‘ اپنے معروف معنی یعنی تبعیض ہی کے لیے آیا ہے۔ پوری بات گویا یوں ہے کہ ’یَغْفِرْلَکُمْ مَّا تَقَدَّمَ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ‘ (اگر تم میری باتیں مان لو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے وہ سارے گناہ معاف فرما دے گا جو اب تک تم سے صادر ہوئے ہیں)۔ یہاں وضاحت قرینہ کی بنا پر ’مَا تَقَدَّمَ‘ کے الفاظ حذف ہو گئے ہیں اس لیے کہ یہ بات معلوم بھی ہے اور عقلاً معقول بھی کہ کفر کے بعد ایمان کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے وہ گناہ، معاف ہو جاتے ہیں جو جاہلیت کی زندگی میں اس سے صادر ہوئے ہوتے ہیں۔ رہے وہ گناہ جن کا ارتکاب آدمی ایمان کی زندگی اختیار کرنے کے بعد کرتا ہے تو ان کے معاف ہونے کے لیے ایک مخصوص ضابطہ ہے جو آیت ’إِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِن قَرِیْبٍ فَأُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّہُ عَلَیْْہِمْ وَکَانَ اللّہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا‘ (النساء ۴: ۱۷) میں بیان ہوا ہے اور جس کی وضاحت اس کے محل میں ہو چکی ہے۔ اس آیت میں حرف ’مِنْ‘ اسی حقیقت کے اظہار کے لیے آیا ہے کہ اگر تم اس دعوت کو قبول کر کے ایمان میں داخل ہو جاؤ گے تو دور جاہلیت کے تمہارے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ اگر یہ ’مِنْ‘ یہاں نہ ہوتا تو آیت کے یہ معنی بھی نکل سکتے تھے کہ تمہارے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔ درآنحالیکہ یہ بات صحیح نہیں ہے اس لیے کہ کفر کے بعد ایمان صرف پچھلے گناہوں ہی کا ہادم بنتا ہے، آگے کے گناہوں کا ہادم نہیں بنتا۔ اس دنیا کی ہر فرصت فانی ہے: ’وَیُؤَخِّرْکُمْ إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی‘۔ یعنی میری یہ تینوں باتیں مان لو گے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب کو، جس سے میں ڈرا رہا ہوں، ٹال دے گا اور تمہیں اس دنیا میں جینے اور کھانے بلسنے کی ایک معین مدت تک مہلت دے دے گا۔ ’معین مدت‘ کی قید اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ اس دنیا میں کوئی مہلت بھی غیر محدود نہیں ہے۔ یہ دنیا اور اس کی ہر چیز وقتی اور فانی ہے۔ آدمی ایمان و عمل صالح کی زندگی گزارے جب بھی اس کو یہاں غیر محدود زندگی نہیں مل جاتی بلکہ لازماً وہ ایک دن اپنی جان جان آفریں کے حوالہ کرتا ہے۔ البتہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے کسی عذاب سے نہیں ہلاک ہوتا بلکہ وہ اپنی مہلت حیات سے بہرہ مند ہونے کی فرصت پاتا ہے۔ اسی طرح کوئی قوم اگر ایمان، تقویٰ اور اطاعت رسول کی زندگی اختیار کرتی ہے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ اسی وقت تک بہرہ مند رکھتا ہے جب تک وہ ایمان و تقویٰ پر استوار رہتی ہے۔ جوں ہی وہ اس سے منحرف ہوتی ہے اس پر زوال کے آثار طاری ہونے شروع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ جب اس کا اخلاقی زوال اس نقطہ پر پہنچ جاتا ہے جو آخری ہے تو اس کی ’اجل مسمّی‘ پوری ہو جاتی ہے اور قومی حیثیت سے اس کا وجود صفحۂ ارض سے مٹ جاتا ہے۔ یہی حال اس مجموعی دنیا کا بھی ہے۔ اس کی مدت بھی معین و مقرر ہے۔ ایک دن آئے گا جب اس دارالامتحان کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ایک نیا عالم نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ ظہور میں آئے گا جس کو دار آخرت کہتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے یہاں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اس دنیا کی ہر فرصت بہرحال محدود اور فانی ہے۔ نیک اور بد دونوں ہی اس کو ہمیشہ مستحضر رکھیں۔ جو اس کو مستحضر رکھیں گے وہی اس زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ جو اس کو بھول جائیں گے ان کے لیے یہ دنیا سرتاسر وبال اور خسران ہے۔ ’لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘۔ اس زندگی کی فوز و فلاح کا اصل راز اسی نکتہ کے اندر مضمر ہے لیکن اس کو سمجھنے والے بہت تھوڑے ہیں اس وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی اس تمنا کا اظہار فرمایا کہ کاش! تم لوگ اس کو جانتے اور سمجھتے! اس آیت میں جو سنت الٰہی بیان ہوئی ہے اس کا حوالہ سورۂ نحل آیت ۶۱ میں بھی گزر چکا ہے۔ تفصیل مطلوب ہو تو ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے۔
Top