Tadabbur-e-Quran - Nooh : 3
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِیْعُوْنِۙ
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ : کہ عبادت کرو اللہ کی وَاتَّقُوْهُ : اور ڈرو اس سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
کہ اللہ کی بندگی کرو، اس کے حدود کی پابندی کرو اور میری بات مانو۔
یہ اس انذار کی تفصیل ہے کہ اللہ کی بندگی کرو، اس کے مقرر کردہ حدود کی خلاف ورزی سے بچو اور میری اطاعت کرو۔ ’اَنِ اعْبُدُوا اللَّہَ‘۔ یعنی اپنے خود تراشیدہ معبودوں کی (جن کی تفصیل اسی سورہ میں آگے آ رہی ہے) پوجا چھوڑو اور اپنے رب حقیقی، اللہ واحد کی بندگی کرو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ’وَاتَّقُوْہُ‘۔ یعنی اللہ نے جو حدود و قیود تمہاری زندگی کی رہنمائی کے لیے مقرر کیے ہیں ان کی پابندی کرو کہ اس کے غضب سے محفوظ رہو۔ ’تقویٰ‘ کا اصل مفہوم، جیسا کہ ہم اس کتاب میں جگہ جگہ واضح کر چکے ہیں، یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے، زندگی کے ہر شعبہ میں، اپنی شریعت کے ذریعہ سے جو حدود قائم فرما دیے ہیں، بندہ ان کا پورا احترام کرے اور ان کی خلاف ورزی سے برابر ڈرتا رہے۔ جو لوگ ان حدود کی خلاف ورزی میں بے باک ہو جاتے ہیں بالآخر وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی زد میں آ جاتے ہیں۔ ’وَاَطِیْعُوۡنِ‘۔ یعنی اپنے مفسد لیڈروں کی اطاعت چھوڑ کر میری اطاعت کرو۔ آگے اسی سورہ میں ان مفسد لیڈروں کا ذکر آ رہا ہے۔ حضرت نوحؑ نے قوم کو یہ آگاہی بھی دی کہ تمہارے لیڈر تمہیں خدا کے عذاب کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اگر اس عذاب سے بچنا چاہتے ہو تو ان کی پیروی چھوڑو اور میں جس راہ کی دعوت دے رہا ہوں اس کو اختیار کرو۔ حضرت نوحؑ کی دعوت کے تین ارکان: حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کے تین بنیادی ارکان اس آیت میں بیان ہوئے ہیں: توحید، شریعت الٰہی کی پابندی اور رسول کی اطاعت۔۔۔ انہی تین ارکان پر تمام رسولوں کی دعوت مبنی رہی ہے۔ انہی کے استحکام پر دین کے استحکام کا انحصار ہے۔ جب تک کوئی قوم ان پر استوار رہتی ہے اس کے قدم جادۂ مستقیم پر استوار رہتے ہیں۔ جہاں اس سے قدم ہٹے اس کی راہ کج ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اصل راہ سے اتنی دور ہو جاتی ہے کہ اس کے لیے بازگشت کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا۔ پھر وہ بہتر سے بہتر ناصحوں کی نصیحت بھی ٹھکرا دیتی ہے اور بالآخر خدا کے عذاب کی گرفت میں آ جاتی ہے۔
Top