Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 9
وَ لَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسْنَا عَلَیْهِمْ مَّا یَلْبِسُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر جَعَلْنٰهُ : ہم اسے بناتے مَلَكًا : فرشتہ لَّجَعَلْنٰهُ : تو ہم اسے بناتے رَجُلًا : آدمی وَّلَلَبَسْنَا : ہم شبہ ڈالتے عَلَيْهِمْ : ان پر مَّا يَلْبِسُوْنَ : جو وہ شبہ کرتے ہیں
اور اگر ہم اس کو کوئی فرشتہ بناتے جب بھی آدمی ہی کی شکل میں بناتے تو جو گھپلا وہ پیدا کر رہے ہیں ہم اسی میں ان کو ڈال دیتے۔
فرشتوں کو رسول بنا کر نہ بھیجنے کی مصالحت : وَلَوْ جَعَلْنٰهُ مَلَكًا لَّجَعَلْنٰهُ رَجُلًا الایہ، یہ ایک تیسرے مطالبے کا جواب ہے اور یہ بھی قرآن میں دوسری جگہ نقل ہوا ہے۔ مثلاً“ وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَسُولا : اور ہدایت الٰہی کے آجانے کے بعد لوگوں کو ایمان سے نہیں روکا مگر اس چیز نے کہ انہوں نے اعتراض کیا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ”(اسراء :94)۔“ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا وَتَوَلَّوْا وَاسْتَغْنَى اللَّهُ : پس وہ بولے کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے، پس انہوں نے انکار کردیا اور پیٹھ پھیرلی اور اللہ بھی ان سے بےنیاز ہوگیا ”(تغابن :6)۔ اس کا جواب یہ دیا کہ اگر رسول بالفرض فرشتہ ہی بھیجا جاتا جب بھی لازماً وہ آدمی ہی کی شکل و صورت میں ہوتا تو پھر وہی گھپلا پیش آجاتا جو اب پیش آیا ہے مطلب یہ ہے کہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر نہ بھیجنا اس بنا پر نہیں ہے کہ خدا کے لیے یہ ناممکن تھا بلکہ اس بنا پر ہے کہ انسان فرشتوں کو فرشتوں کی شکل میں نہیں بلکہ انسانوں کی شکل میں دیکھ سکتے اور اسی صورت میں ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو جب وہ انسان ہی کے روپ میں آتا تو یہ پھر وہی اعتراض اٹھاتے جو اب اٹھا رہے ہیں۔ مَّا يَلْبِسُوْنَ سے یہاں یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ بات نہیں ہے کہ فی الواقع یہ شبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ لوگ یہ شبہ پیدا کر رہے ہیں تاکہ اس طرح اپنے سادہ لوح پیرو وں کو گھپلے میں ڈالیں۔ لَبَسْنَا میں فعل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف جو منسوب فرمایا ہے تو یہ نسبت اسی طرح کی ہے جس طرح کی نسبت فلما زاغوا ازاغ اللہ میں ہے۔
Top