Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 98
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَّ مُسْتَوْدَعٌ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّفْقَهُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْٓ : وہ۔ جو۔ جس اَنْشَاَكُمْ : پیدا کیا تمہیں مِّنْ : سے نَّفْسٍ : وجود۔ شخص وَّاحِدَةٍ : ایک فَمُسْتَقَرٌّ : پھر ایک ٹھکانہ وَّمُسْتَوْدَعٌ : اور سپرد کیے جانے کی جگہ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّفْقَهُوْنَ : جو سمجھتے ہیں
اور وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا ایک ہی جان سے پھر ہر ایک کے لیے ایک مستقر اور ایک مدفن ہے، ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کردی ہیں جو سمجھیں
توحید کی دلیل خود انسان کی خلقت میں : خارجی عالم کی نشانیوں کی طر توجہ دلانے کے بعد اب یہ انسان کی خود اس کی خلقت اور اس کے اردگرد جو سامانِ معاش و معیشت فراہم فرمایا ہے، اس کی طرف توجہ دلائی۔ فرمایا کہ وہی خدا ہے جس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا اور نسل انسانی کا ایک وسیع گھرانا آباد کردیا۔ یہاں ‘ انشاء ’ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی صرف پیدا کرنے کے نہیں ہیں بلکہ اس کے اندر نشوونما بخشنے، پروان چڑھانے اور گروغ دینے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ ایک ہی جان، سے مراد آدم ہیں جن کو تمام آسمانی مذاہب میں نسل انسانی کی اصل کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ اہل عرب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے۔ فرمایا کہ یہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں ایک ہی جان سے پیدا کیا، اسکی جنس سے اس کا جوڑا بنایا، پھر مردوں اور عورتوں کی ایک دنیا پیدا کردی۔ ان میں شکلوں، صورتوں، زبانوں، لہجوں کا اگرچہ اختلاف ہے، لیکن جبلی تقاضوں اور فطری داعیات کے لحاظ سے اتفاق ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ سب کا خالق اور پروردگار ایک ہی ہے جس نے ایک ہی درخت سے یہ سارے برگ و بار پیدا کیے ہیں۔ عورت اور مرد میں بظاہر ضاد و اختلاف ہے لیکن ان دونوں کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ ساز گاری کے جو ظاہری و باطنی محرکات و اسباب جمع ہیں وہ زبان حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ دونوں کا خالق و مربی ایک ہی ہے جس نے ایک مشترک مقصد کے لیے ان کو وجود بخشا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ غور کرو کہ یہ ایک ہی خدا کا پیدا کیا ہوا اور ایک ہی آدم و حوا کا گھرانا ہے یا مختلف خداؤں کی پیدا کی ہوئی منتشر بھیڑ جس کے ہر گروہ کے خدا بھی الگ الگ ہیں اور ان میں سے رہ ایک کا باوا آدم بھی جدا گانہ ہے۔ قرآن نے اسی وحدت الٰہ اور وحدت آدم کے عقیدے پر انسانی معاشرے کے بنیاد رکھی ہے۔ اور ان لوگوں کو فساد فی الارض کا مجرم قرار دیا ہے جو معاشرے کی اس بنیاد کو ڈھانے کی کوشش کریں۔ اس مسئلہ پر تفصیل کے ساتھ ہم سورة نساء کی تفسیر میں بحث کر آئے ہیں۔ اس کی پہلی آیت اس عقیدے کو یوں پیش کرتی ہے“ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا : اے لوگو، تم اپنے اس خداوند سے ڈرو جس نے تم کو ایک ہی جان سے پیدا کیا، اور اسی کی جنس سے پیدا کیا اس کے جوڑے کو اور پھر ان دونوں سے پھیلا دے بیشمار مرد اور بیشمار عورتیں، اور اس اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے طالب مدد ہوتے ہو اور رحمی رشتوں کا اتحرام کرو بیشک اللہ تم پر نگران ہے ”۔ فَمُسْتَقَرٌّ وَّمُسْـتَوْدَعٌ کے معنی قرار و سکونت کی جگہ کے ہیں اور مستودع اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز بطور و دیعت و امانت حفاظت سے رکھی جائے۔ قرینہ دلیل ہے کہ یہاں مستقر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پیدا ہونے کے بعد انسان رہتا بستا ہے۔ ولکم فی الارض مستقر و متاع الی حین، اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت خاص تک رہنے بسنے کی جگہ اور کھانا پینا ہے۔ مستودع سے مراد وہ جگہ ہے جہاں مرنے کے بعد وہ دفن کیا جاتا ہے۔ دنیا میں آنے کے بعد انسان یہ دونوں ہی چیزیں پاتا ہے۔ جتنی زندگی اس کے لیے مقدر ہوتی ہے اتنے دن وہ گزارتا ہے اور جو رزق اس کے لیے مقدر ہوتا ہے اس سے متمتع ہوتا ہے اور اس کا یہ جینا اور خدا کے بخشے ہوئے رزق سے متمتع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا کی نگرانی اور اس کے علم میں ہے۔ پھر جب اس دنیا میں اس کی مدت حیات ختم ہوجاتی ہے تو وہ اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کرتا ہے اور جہاں کہیں بھی دفن ہوتا ہے خدا ہی کی زمین میں دفن ہوتا ہے اور جب خدا کا حکم ہوگا زمین اس امانت کو خدا کے حوالے کردے گی۔ ج سطرح ہر شخص کا مستقر، خدا کے علم میں ہوتا ہے، اسی طرح اس کا مستودع، بھی اس کے علم میں ہوتا ہے، خدا کا علم ہر چیز کو محیط ہے، کوئی چیز بھی اس سے مخفی نہیں۔ قرآن مجید میں یہ مضمون دوسرے مقامات میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے مثلا وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الأرْضِ إِلا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُبِينٍ : اور نہیں ہے زمین میں کوئی جاندار مگر اللہ ہی اس کو روزی دیتا ہے، اور خدا دنیا میں اس کے مستقر کو بھی جانتا ہے اور مر گئے پر اس کے سپرد کیے جانے کی جگہ کو بھی، ہر چیز ایک واضح رجسٹر میں درج ہے (ھود :6)۔ مطلب یہ ہے کہ پیدا ہونے کے بعد زندگی، رزق اور اسباب و وسائل سب کچھ اسی سے حاصل ہوتا ہے تو کسی غیر کو انسان اپنی امید کو مرجع کیوں بنائے ؟ پھر مدفن کے لیے مستودع، کا لفظ استعمال کر کے ایک لطیف اشارہ مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی طرف بھی فرما دیا کہ انسان جب مرتا ہے تو یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ ختم ہوگیا، بلکہ وہ زمین کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے جہاں سے وہ پھر اٹھایا جائے گا تاکہ وہ اپنی شکر گزاری کا انعام پائے اگر خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کا اس نے حق پہچانا ہے اور اپنی ناشکری کی سزا بھگتے اگر اس نے خدا کی نعمتوں کی ناقدری کی ہے۔ یہ خدا کی رحمت و ربوبیت اور اس کے علم و حکمت کا لازمی تقاضا ہے۔ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّفْقَهُوْنَ : اس میں وہی بات فرمائی گئی ہے جو اوپر گزر چکی ہے۔ اس کا اعادہ اس بات کی دلیل ہے کہ مخاطب نہایت ضدی ہیں جو بات تو سمجھنا نہیں چاہتے لیکن بہانہ یہ تراش رہے ہیں کہ ان کو کوئی معجزہ نہیں دکھایا جا رہا ہے، علم اور تفقہ میں فرق یہ ہے کہ علم عقل و شعور کا فعل ہے اور تفقہ دل کا، چناچہ قرآن میں جگہ جگہ ارشاد ہوا ہے، لھم قلب لا یفقہون بہا (ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں)۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان پر خدا کی نشانیاں اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب وہ اپنی عقل اور دل کو استعمال کرتا ہے۔ جب تک وہ محسوسات کا غلام بنا رہتا ہے، اس وقت تک اس کی مثال گدھے کی ہے جو ڈنڈے کی زبان کے سوا دوسری کوئی زبان بھی نہیں سمجھتا۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ عقل اور دل بھی مشاہدہ کائنات سے خدا تک اسی صورت میں پہنچتے ہیں جب ان کے اندر محسوسات سے آگے بڑھنے کی ہمت اور حوصلہ ہو۔ اگر وہ صرف محسوسات ہی پر قانع ہوجائیں اور ان کی ساری تردود انہی چیزوں کے لیے رہ جائے جو اس حیات چند روزہ میں کام آنے والی ہیں تو بسا اوقات تل تو ان کو نظر آجاتا ہے لیکن تل کی اوٹ کا پہاڑ ان سے اوجھل ہی رہتا ہے۔ یہ حبّ عاجلہ کی بیماری ہے، جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دیکھنے کو تو سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں۔
Top