Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 99
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَیْءٍ فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا١ۚ وَ مِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِیَةٌ وَّ جَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِهٍ١ؕ اُنْظُرُوْۤا اِلٰى ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ یَنْعِهٖ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
وَهُوَ
: اور وہی
الَّذِيْٓ
: وہ جو۔ جس
اَنْزَلَ
: اتارا
مِنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
مَآءً
: پانی
فَاَخْرَجْنَا
: پھر ہم نے نکالی
بِهٖ
: اس سے
نَبَاتَ
: اگنے والی
كُلِّ شَيْءٍ
: ہر چیز
فَاَخْرَجْنَا
: پھر ہم نے نکالی
مِنْهُ
: اس سے
خَضِرًا
: سبزی
نُّخْرِجُ
: ہم نکالتے ہیں
مِنْهُ
: اس سے
حَبًّا
: دانے
مُّتَرَاكِبًا
: ایک پر ایک چڑھا ہوا
وَمِنَ
: اور
النَّخْلِ
: کھجور
مِنْ
: سے
طَلْعِهَا
: گابھا
قِنْوَانٌ
: خوشے
دَانِيَةٌ
: جھکے ہوئے
وَّجَنّٰتٍ
: اور باغات
مِّنْ اَعْنَابٍ
: انگور کے
وَّالزَّيْتُوْنَ
: اور زیتون
وَالرُّمَّانَ
: اور انار
مُشْتَبِهًا
: ملتے جلتے
وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ
: اور نہیں بھی ملتے
اُنْظُرُوْٓا
: دیکھو
اِلٰى
: طرف
ثَمَرِهٖٓ
: اس کا پھل
اِذَآ
: جب
اَثْمَرَ
: پھلتا ہے
وَيَنْعِهٖ
: اور اس کا پکنا
اِنَّ
: بیشک
فِيْ
: میں
ذٰلِكُمْ
: اس
لَاٰيٰتٍ
: نشانیاں
لِّقَوْمٍ
: لوگوں کے لیے
يُّؤْمِنُوْنَ
: ایمان رکھتے ہیں
اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر ہم نے اس سے ہر چیز کے انکھوے نکالے، پھر ہم نے اس سے سرسبز شاخیں ابھاریں جن سے ہم تہ بہ تہ دانے پیدا کردیتے ہیں اور کھجور کے گابھے سے لٹکتے ہوئے گھچے اور انگوروں کے باغ اور زیتون اور انار، باہمدگر ملتے جلتے بھی اور ایک دوسرے سے مختلف بھی۔ ہر ایک کے پھل کو دیکھ جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو جب وہ پکتا ہے۔ بیشک ان کے اندر نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانا چاہیں۔
اب یہ خدا کی رحمت، ربوبیت، قدرت، حکمت، توحید اور معاد کے ان آثار و دلائل کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جو ہر انسان کو قدم قدم پر نظر آسکتے ہیں بشرطیکہ وہ ماننا چاہے۔ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ ، لفظ سماء پر ہم دوسری جگہ لکھ چکے ہیں کہ یہ بادلوں کے لیے بھی آتا ہے اور اس فضائے نیلگوں کے لیے بھی جس کو ہم آسمان کہتے ہیں۔ فرمایا کہ وہی خدا ہے جو آسمان سے بارش برساتا ہے اور اس سے ہر چیز کو روئیدگی بخشتا ہے۔ کلام کا آغاز غائب کے صیغہ سے فرمایا پھر اس کو فَاَخْرَجْنَا بہ، متکلم کے صیغہ میں بدل دیا۔ اس میں رافت، عنایت اور ربوبیت کا اظہار بھی ہے اور اس حقیقت کی طرف اشارہ بھی کہ آسمان و زمین اور ابرو ہوا سب پر ہماری حکومت ہے، اگر آسمان پر کسی اور کی حکومت ہوتی، زمین پر کسی اور کی تو یہ توافق کہاں سے ظہور میں آتا کہ آسمان سے پانی برستا اور زمین اپنے خزانے اگل دیتی۔ پھر اس میں ایک لطیف تلمیح آخرت کی بھی ہے۔ قرآن میں اسی بارش اور اس کے اثر سے مردہ زمین کے از سر نو لہلہا اٹھنے کو متعدد مقامات میں معاد کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ جب تم ہمیشہ دیکھتے ہو کہ زمین پر ایک تنکا بھی نہیں ہوتا لیکن بارش ہوتی ہے تو اس کے اندر کی دبی ہوئی ہر چیز جاگ پڑتی ہے اور گوشہ گوشہ سبزے سے معمور ہوجاتا ہے۔ تو مرجانے کے بعد جی اٹھنے کو کیوں بعید سمجھتے ہو ؟ ربوبیت عامہ کے بعد بعض اشارات ربوبیت خاصہ کی طرف : فَاَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا، یہ ربوبیت عامہ کے بعد ربوبیت خاصہ کا بیان ہے جس کا تعلق انسانوں سے ہے۔ پہلے غلہ کا ذکر فرمایا جو عام ضرورت کی چیز بھی ہے اور اپنی پائیداری کے اعتبار سے ذخیرہ کیے جانے کے لائق بھی۔ فرمایا کہ انہی نباتات میں سے، جن کے اندر ہم نے غلہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ سرسبز خوشے اور بالیاں نکالتے ہیں اور اپنی قدرت و حکمت سے ان پر تہ بہ تہ دانے جما دیتے ہیں اور اس طرح تمہارے بوئے ہوئے ایک دانے پر سینکڑوں دانوں کا اضافہ کر کے ہم تمہیں لوٹا دیتے ہیں۔ غور کرو کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہورہا ہے، کسی اندھی بہری قوت کا ظہور ہے، یا کسی حکیم و قدیر اور دانا وبصیر پروردگاری ہے ؟ اتنے اجزائے مختلفہ کو اتنی تدبیر، اتنی تدریج اور اتنی حکمت سے استعمال کرنا اور ان کے حاصل کو تمہاری زندگی کے بقا کا ذریعہ بنا دینا ایک رب کریم و کارساز کے سوا اور کس کا کام ہوسکتا ہے ؟ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ ۙ وَّجَنّٰتٍ مِّنْ اَعْنَابٍ ، ان دونوں ٹکڑوں میں فعل محذوف ہے۔ پہلے میں مجہول، دوسرے میں معروف، غلہ کے بعد اب یہ پھلوں کا ذکر فرمایا اور پہلے کھجور کو لیا جس کو اہل عرب کے ہاں عام پھل کی حیثیت حاصل تھی۔ کھجور کا ذکر اس طرح فرمایا ہے کہ اس کے درخت، اس درخت کے اندر گابھے کا پیدا ہونا اور پھر اس سے لٹکتے ہوئے بوجھل خوشوں کا ظہور میں آنا، ہر چیز کی طرف توجہ دلا دی ہے تاکہ اس کاری گری پر انسان کی نظر پڑے جو اس کے ابتدائے ظہور سے لے کر اس کی تکمیل اور پختگی تک قدرت اس پر صرف کرتی ہے۔ اسی کاری گری اور صنعت پر غور کرنے سے انسان کو صانع کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و ربوبیت کا کچھ اندازہ کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قدرت کا منشا ان قدرتوں اور حکمتوں کے اظہار سے یہی ہے کہ انسان کو خدا کی معرفت حاصل ہو ورنہ جہاں تک کھجور کی ضرورت مجرد غذا کے لیے ہے اس کی فراہمی کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ ایک چھوٹی سی گٹھلی سے درجہ بدرجہ ایک تناور درخت بنے، پھر ایک خاص مرحلہ میں پہنچ کر اس کے اندر گابھے اور خوشے پیدا ہوں، پھر ان کے اندر ننھی ننھی کیریاں بیٹھیں، پھر وہ درجہ بدرجہ پھ بنیں پھر پک کر اور بوجھل ہو کر ان کے خوشے زمین کی طرف لٹک آئیں اور انسان کو زبان حال سے دعوت شوق دیں۔ یہ سارا اہتمام دل گواہی دیتا ہے کہ اسی کے لیے ہے کہ انسان پر خدا کی قدرت، اس کی ربوبیت اور اس کی حکمت کے اسرار ظاہر ہوں لیکن یہ سائنس کا عجی اندھا پن ہے کہ اس کو حکمت تو نظر آتی ہے لیکن حکیم نظر نہیں آتا، ربوبیت تو اس کو دکھائی دیتی ہے لیکن رب کا سراغ اس کو کہیں نہیں ملتا۔ اور اس سے زیادہ عجیب معاملہ ان لوگوں کا ہے جو دیکھتے ہیں کہ کھجور کے درخت کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے پھولنے، پھلنے اور پکنے تک تمام عناصر کائنات نے اس کی دیکھ بھال اور غور و پرداخت میں اپنا اپنا حصہ ادا کیا تب کہیں کھجور کا ایک خوشہ تیار ہوا ہے لیکن پھر بھی وہ اس سفاہت میں مبتلا ہیں کہ یہ کائنات مختلف ارادوں اور بیشمار دیوتاؤں کی ایک رزمگاہ ہے اور ان سے بھی زیادہ عجیب معاملہ ان سادہ لوحوں کا ہے جو ربوبیت اور پروردگاری کے یہ سارے سروسامان دیکھ رہے ہیں، ان سے متمتع اور محظوظ بھی ہو رہے ہیں لیکن سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کے کھانے پینے، عیش کرنے کے لیے ہے، یہ سوال ان کے ذہن میں کبھی نہیں پیدا ہوتا کہ یہ سب کچھ مہیا کرنے والے کی طرف سے ان پر کوئی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے یا نہیں ؟ ان نعمتوں کے باب میں کوئی پرسش کا دن بھی آنے والا ہے یا نہیں ؟ گویا دینے والے نے حق تو ان کو سارے بخش دیے لیکن ذمہ داری ان کے اوپر کوئی بھی نہیں ڈالی۔ وَّالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ، کھجور کے بعد انگور، زیتون اور انار کا ذکر فرمایا۔ مقصود ان کے ذکر سے صرف انہی متعین پھلوں کا ذکر نہیں ہے، ان کا ذکر صرف اس پہلو سے ہوا کہ یہ اہل عرب کے معروف پھل تھے جو ان کو خود اپنے علاقے میں میسر تھے۔ اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا نے تمہاری ربوبیت کا جو سامان کیا ہے تو اس میں صرف روٹی ہی نہیں بلکہ مختلف قسم کے فواکہ اور میوہ جات بھی ہیں۔ پھر فرمایا کہ یہ فواکہ بھی جو دیے تو اس میں بھی اپنی ربوبیت، اپنی رحمت، اپنی فیاضی اور اپنی قدرت و حکمت کی یہ شان دکھائی کہ ایک ایک چیز کو گوناگوں اقسام و انواع، ایک دوسری سے ملتی جلتی بھی اور باہمدگر شکل، رنگ، قامت، ذائقہ میں مختلف بھی، تمہاری سامنے چن دیں۔ اب سوچ کہ جس نے یہ سب کچھ کیا ہے وہ رحیم، قدیر، علیم، حکیم اور کریم پروردگار ہے یا نہیں۔ آخر تمہاری زندگی مجرد اپنے بقا کے لیے تو ان پھلوں اور ان تمام تنوعات کی محتاج نہ تھی، تم جینے کو تو خشک روٹی اور پانی سے بھی جی سکتے تھے، پھر اس نے ایسا کیوں کیا کہ تمہارے آگے اتنے گوناگوں پھلوں کے انبار لگا دیے جن کی خوشبو، ذائقہ، شکل ہر چیز دل کو لبھانے والی، آنکھوں کو فریفتہ کرنے والی اور دماغ کو مست کرنے والی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ان میں سے ہر چیز کے اندر انسان اپنے خالق کی صفات کا جلوہ دیکھے اور پھر انہی صفات کے آئینہ میں اپنے ظاہر اور اپنے باطن کو سنوارے اور ان میں سے ہر نعمت اس کے اندر اس جذبہ شکر وسپاس کو ابھارے جو خدا نے ہر انسان کے اندر ودیعت فرمایا ہے اور جو تمام دین و شریعت کی، جیسا کہ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں، بنیاد ہے۔ اُنْظُرُوْٓا اِلٰى ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَــرَ وَيَنْعِهٖ۔ اِلٰى ثَمَرِهٖٓ میں ضمیر کا مرجع ہیں تو وہ ساری ہی چیزیں جن کا اوپر ذکر گزرا لیکن ضمیر واحد اس وجہ سے ہے کہ متکلم چاہتا ہے کہ ان میں سے ایک ایک چیز کو الگ الگ لے کر ان کے پیدا ہونے سے لے کر ان کے پکنے تک کے تمام مراحل پر غور کیا جائے۔ غور و فکر کا عمل فطری طور پر یہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی چیز پر نگاہ جمائی جائے تاکہ قوت فکر منتشر نہ ہو۔ گویا یہاں قرآن نے صرف غور و فکر کی دعوت ہی نہیں دی بلکہ اس کا صحیح طریقہ بھی بتا دیا۔ یہ واضح رہے کہ اس اسلوب کی مثالیں قرآن میں بھی ہیں اور کلام عرب میں بھی۔ وَيَنْعِهٖ کے بعد اذا اینع، ہمارے نزدیک حذف ہے۔ ہم دوسرے مقام میں عربی زبان کا یہ اسلوب واضح کرچکے ہیں کہ بعض اوقات ایسے مقابل الفاظ حذف کردیے جاتے ہیں جن کی مذکور الفاظ کے بعد کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یہاں چونکہ اِلٰى ثَمَرِهٖٓ کے بعد اِذَآ اَثْمَــرَ موجود تھا اس وجہ سے وَيَنْعِهٖ کے بعد اِذَا اَیْنَع کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ مذکور محذوف پر خود دلیل بن گیا۔ ہر ورق معرفت کردگار کا دفتر ہے : فرمایا کہ ان میں سے ایک ایک چیز کو لے کر اس کے پھلنے سے لے کر اس کے پکنے کے مراحل تک ہر مرحلے کو دیکھ اور اس پر غور کرو تو خالق کی قدرت، حکمت، ربوبیت، صناعی، کاریگری، باریک بینی، فیض بخشی اور اس کے حسن و جمال کی اتنی نشانیاں اور اتنی شہادتیں تمہارے سامنے آئیں گی کہ تم ان کو شمار نہیں کرسکو گے، تم ایک نشانی اور ایک معجزہ مانگتے ہو، آنکھیں ہوں تو ہر شاخ معجزہ، ہر پھول معجزہ، ہر پھل معجزہ، کوئی چھوٹی سی چھوٹی چیز بھی ایسی نہیں ہے جس کے اندر قدرت کے اعجاز کے ہزاروں شاہکار جلوہ نما نہ ہوں ہم اوپر اشارہ کر آئے ہیں کہ یہ دنیا اپنے بقا کے لیے ان تمام عجائب کی نمائش کی محتاج نہ تھی۔ یہ بالکل سادہ اور بےرنگ حالت میں بھی وجود میں آسکتی اور باقی رہ سکتی تھی لیکن خالق کائنات نے یہ پسند فرمایا کہ ایک ایک پھول اور ایک ایک پتی سے اس کی عظیم قدرت و حکمت اور اس کی بےنہایت رحمت و ربوبیت ظاہر ہوتا کہ انسان اس کی معرفت حاصل کرے۔ لیکن یہ انسان کی عجیب بدقسمتی ہے کہ ایک تو وہ اپنی ذہانت کے مظاہرے کا اتنا شوقین ہے کہ اگر ہڑپہ اور موہنجوداڑوں کے مدفون کھنڈروں سے کوئی ٹاٹوا ہوا مٹی کا مرتبان بھی اس کو ہاتھ آجائے تو اس پر کھنچی ہوئی آڑی ترچھی لکیروں سے وہ اس عہد کے آرٹ، اس عہد کے کلچر، اس عہد کی تہذیب، اس دور کے مذہب، اس دور کی سیاست، غرض ہر چیز پر ایک مزعومہ فلسفہ اور ایک فرضی تاریخ تیار کردے گا، دوسری طرف اس کی بلادت اور بد ذوقی کا یہ عالم ہے کہ خالق کائنات نے ایک ایک پتی پر اپنی حکمت کے جو دفاتر رقم فرمائے ہیں نہ ان کا کوئی حرف اس کی سمجھ میں آتا ہے نہ ان سے اسے کوئی رہنمائی حاص ہوتی ہے۔ ۭاِنَّ فِيْ ذٰلِكُمْ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۔ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لانا چاہیں ان کے لیے ان چیزوں کے اندر بہت سی نشانیاں ہیں۔ ہم اوپر عرض کرچکے ہیں کہ کسی حقیقت کے تسلیم کیے جانے کے لیے تنہا یہ کافی نہیں کہ وہ واضح اور ثابت ہے بلکہ اس کے لیے اول شرط یہ ہے کہ آدمی کے اندر اس کو قبول کرنے کا ارادہ پایا جاتا ہو۔ دنیا کو گمراہی علم کے مخفی ہونے کے سبب سے زیادہ پیش نہیں آئی ہے بلکہ زیادہ تر عمل کا سچا اور مضبوط ارادہ مفقود ہونے سے پیش آئی ہے۔ اس آیت کے اندر بیان کردہ نشانیاں : اب آئیے ان نشانیوں پر غور کیجیے جن کی طرف آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔ پہلی چیز تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اتنی حکمتوں سے یہ معمور دنیا نہ آپ سے آپ وجود میں آئی ہے، نہ یہ کسی اندھی بہری قوت کا کرشمہ ہے بلکہ اس کے ذرے ذرے کے اندر بےپایاں قدرت اور بےنہایت حکمت کی جو نشانیاں ہیں وہ زبان حال سے شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ایک قادر وقیوم اور ایک علیم و حکیم کی بنائی ہوئی دنیا ہے۔ دوسری چیز یہ نمایاں ہوتی ہے کہ آسمان و زمین، ابر وہوا، سورج اور چاند، نور اور ظلمت، سردی اور گرمی، بہار اور خزاں ہر چیز پر تنہا اسی قادر وقیوم کی حکمرانی ہے اس لیے کہ ہر چیز اپنے وجود، اپنے نشوونما اور اپنے بلوغ و کمال میں تمام عناصر کائنات کی ایک خاص تناسب کے ساتھ خدمات حاصل کرتی ہے جو بغیر اس کے ممکن نہیں کہ ہی بالا تر ارادہ تمام کائنات پر حاوی ہو اور وہ اپنے محیط کل علم و حکمت کے تحت ان تمام عناصر مختلفہ کے اندر ربط و ہم آہنگی پیدا کرے اور ان کو کائنات کے مجموعی مقصد کے لیے استعمال کرے۔ تیسری چیز یہ سمجھ میں آتی ہے کہ قدرت علم اور حکمت سے یہ معمور کائنات اپنے ہر گوشے سے پکار پکار کر شہادت دے رہی ہے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل تماشہ نہیں ہے جو محض اس نے اپنا جی بہلانے کے لیے بنایا ہو، جس کے اندر نیکی اور بدی خیر اور شر، عدل اور ظلم کا کوئی امتیاز نہ ہو۔ اس قدرت، اس علم اور اس حکمت کا لازمی تقاضا ہے کہ ایک ایسا دن آئے جس میں اس کے خالق ومالک کا کامل عدل اور اس کی کامل رحمت ظاہر ہو۔ چوتھی چیز یہ سامنے آتی ہے کہ اس کے اندر رب کریم و رحیم نے ہمارے لیے بغیر ہمارے کسی استحقاق کے، محض اپنے فضل و رحمت سے جو نعمتیں اور لذتیں مہیا فرمائی ہیں اور جن سے ہم متمع ہو رہے ہیں یہ ہم پر ہمارے رب کی شکر گزاری اور اسی کی عبادت و اطاعت کا حق واجب کرتی ہیں۔ جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک ایسا دن آئے جس میں اس حق کی بابت ہم سے پرسش ہو۔ جس نے یہ حق ادا کیا ہو وہ انعام پائے اور جس نے ناشکری کی ہو وہ اس کی سزا بھگتے۔ پانچویں حقیقت یہ واضح ہوتی ہے کہ جس پروردگار کی پروردگاری کا یہ عالم ہے کہ اس نے ہمارے اندر جو طلب اور جو داعیہ بھی ودیعت فرمایا اس کا ہمارے گرد و پیش میں بہتر جواب مہیا فرمایا، بھوک دی تو غذا مہیا فرمائی، پیاس تو پانی کے دریا بہا دیے، ذائقہ بخشا تو ذوق کی ضیافت کے نت نئے سامان کیے، ذوق نظر بخشا تو کائنات کے گوشے گوشے کو اپنی قدرت کی نیرنگیوں کی جلوہ گاہ بنا دیا، یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایسی فیض بخش اور بابرکت ذات جو ہماری مادی ضرورت کا اس سیر چشمی اور فیاضی سے اہتمام کرے، ہمارے اس جستجو کا کوئی جواب نہ پیدا کرے جو اس نے ہماری روح اور ہمارے دل کے اندر اپنی ہدایت کے لیے ودیعت فرمائی ہے ؟ یہ چیز لازم ٹھہراتی ہے کہ جس طرح اس نے ہماری جسمانی بھوک اور پیاس کے لیے غذا اور پانی کا انتظام فرمایا ہے اسی طرح ہماری اس روحانی تشنگی کے بجھانے کا بھی اہتمام فرمائے۔ یہ چیز رسالت کے سلسلہ رشد و ہدایت کی ضرورت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
Top