Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 97
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ : وہ جس جَعَلَ : بنائے لَكُمُ : تمہارے لیے النُّجُوْمَ : ستارے لِتَهْتَدُوْا : تاکہ تم راستہ معلوم کرو بِهَا : ان سے فِيْ : میں ظُلُمٰتِ : اندھیرے الْبَرِّ : خشکی وَالْبَحْرِ : اور دریا قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ : بیشک ہم نے کھول کر بیان کردی ہیں آیتیں لِقَوْمٍ : لوگوں کے لیے يَّعْلَمُوْنَ : علم رکھتے ہیں
اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان سے خشکی اور تری کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کرو۔ ہم نے اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کردی ہیں جو جاننا چاہیں
سورج اور چاند کے بعد ستاروں کی طرف متوجہ کیا کہ دیکھ لو، یہ خود اپنی خدمت گزاری سے شہادت دے رہے ہیں کہ خالق نے ان کو تمہاری خدت پر مقرر کیا ہے۔ جب تم خشکی اور تری کا سفر کرتے ہو تو سمندروں اور بیابانوں میں یہ روشنی کے میناروں اور برجیوں کی طرح تمہاری کشتیوں اور تمہارے قافلوں کو سمتیں اور راستے بتاتے ہیں۔ اب یہی کیسی بےوقوفی کی بات ہے کہ وہ خود تو اپنے عمل سے بتا رہے ہیں کہ تمہارے خالق نے ان کو تمہاری خدمت میں لگا رکھاے ہے اور تم ان کو خدا کی خدائی میں شریک مان کر ان کے بت کھڑے کر کے ان کی پرستش شروع کردو۔ پھر دیکھو کہ یہ ہیں تو آسمان میں لیکن شمع برداری کی خدمت وہ تم زمین والوں کی انجام دے رہے ہیں۔ سوچو کہ زمین کا خد الگ ہوتا اور آسمانوں کے دیوتا الگ ہوتے تو آسمان کے ستاروں کو کیا پڑی تھی کہ وہ زمین والوں کو رستہ بنانے کے لیے ساری رات دیدبانوں میں کھڑے کھڑے اپنی نیندیں خراب کرتے ؟ یہ صورت حال تو صاف شہادت رہی ہے کہ زمین و آسمان سب پر ایک ہی خدا کی حکمرانی ہے اور اسی نے ان ستاروں کو تمہاری خدمت کے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم اپنے رب کے شکر گذار بنو اور اس کی عبادت کرو۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ عرب شعرا اپنے بیابانی سفروں کی جو داستان بیان کرتے ہیں اس میں ستاروں کا ذکر ان کی رہنمائی کے پہلو سے بھی کرتے ہیں اور رات کے مختلف حصوں کے اوقات بتانے کے لیے بھی انہی کا حوالہ دیتے ہیں۔ گویا وہ ان سے گھڑیوں کا کام بھی لیتے تھے اور رہنما برجیوں کا بھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بعض ستاروں کی پرستش بھی کرتے تھے۔ شعری کا حوالہ تو قرآن میں بھی آیا ہے جو موسم بہار میں طلوع ہوتا تھا، اسی طرح دوسرے ستارے بھی، جو نکھتروں سے تعلق رکھتے تھے، ان کے معبود تھے بعض سعد سمجھے جاتے تھے، بعض نحس۔ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ، لفظ آیت کے مختلف معانی پر ہم دوسرے مقام میں بحث کرچکے ہیں۔ یہاں یہ نشانی کے معنی میں ہے اوپر چونکہ ہر نشانی اس چیز کی دلیل ہوتی ہے جس کی وہ نشانی ہوتی ہے اس وجہ سے اس کے معنی دلائل کے ہوں گے اور چونکہ یہاں زیر بحث خدا اور اس کی توحید اور ضمناً معاد و رسالت ہے اس وجہ سے یہاں مراد انہی کے دلائل ہوں گے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ہر نشانی اپنے اندر گوناگوں پہلو رکھتی ہے اس وجہ سے یہ تو بتا دیا ہے کہ ہم نے نشانیوں کی تفصیل کردی ہے لیکن یہ نہیں واضح فرمایا کہ کس چیز کی نشانیاں واضح فرمائی ہیں۔ یہ چیز مخاطب کے فہم پر چھور دی ہے کہ اس کے اندر علم کی طلب و جستجو ہوگی تو وہ ان میں اپنی ہر جستجو کا جواب پا جائے گا۔ یہاں لفظ ‘ آیات ’ کے استعمال میں ایک لطیف اشارہ بھی ہے۔ منکرین قریش کے متعلق اوپر بھی بیان ہوچکا ہے اور اس مجموعہ آیات کے خاتمہ پر بھی ذکر آئے گا کہ وہ قرآن پر ایمان لانے کے لیے یہ شرط ٹھہراتے کہ پیغمبر کوئی نشانی دکھائیں تو وہ ایمان لائیں گے۔ نشانی سے مراد وہ کوئی محسوس معجزہ لیتے تھے۔ ان کی اسی ذہنیت کو پیش نظر رکھ کر فرمایا کہ اگر نشانیوں کی طلب ہے تو عقل و دل کو مطمئن کرنے والی نشانیاں یہ ہم نے بیان کردی ہیں لیکن یہ کار آمد ان کے لیے ہیں جو علم کے طالب ہیں جن کے اندر علم کی طلب نہیں ہے وہ دنیا جہاں کے معجزے لیتے تھے۔ ان کی اسی ذہنیت کو پیش نظر رکھ کر فرمایا کہ اگر نشانیوں کی طلب ہے تو عقل و دل کو مطمئن کرنے والی نشانیاں یہ ہم نے بیان کردی ہیں لیکن یہ کار آمد ان کے لیے ہیں جو علم کے طالب ہیں جن کے اندر علم علم کی طلب نہیں ہے وہ دنیا جہان کے معجزے دیکھ بھی اندھے ہی بنے رہتے ہیں۔ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ ، کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے لیے جو جاننا چاہیں۔ یہ بات واضح رہے کہ ہم اپنی زبان میں بھی جب بولتے ہیں، ان کے لیے جو مایں، ان کے لیے جو سمجھیں، ان کے لیے جو غور کریں، تو فعل ارادہ فعل ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
Top