Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 90
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِیْنَ۠   ۧ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ الَّذِيْنَ : وہ جو هَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ فَبِهُدٰىهُمُ : سو ان کی راہ پر اقْتَدِهْ : چلو قُلْ : آپ کہ دیں لَّآ اَسْئَلُكُمْ : نہیں مانگتا میں تم سے عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجرت اِنْ : نہیں هُوَ : یہ اِلَّا : مگر ذِكْرٰي : نصیحت لِلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان والے
یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی تو تم بھی انہی کے طریقے کی پیروی کرو، اعلان کردو، میں اس پر تم سے کسی صلہ کا طالب نہیں، یہ تو بس عالم والوں کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ الایۃ، اقتدہ، میں ‘ ہ ’ وقفہ اور سکتہ کی ہے۔ فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی ہدایت سرفراز فرمایا تو تم انہی کے نقش قدم پر چلو اور انہی کی ہدایت کی پیروی کرو۔ رہے یہ لوگ جو مدعی تو ہیں۔ ابراہیم کے وارث ہونے کے لیلکن پیروی کر رہے ہیں شیطان کی اور تمہاری بات سننے کے لیے تیار نہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو، ان سے کہہ دو کہ میں اس پر کوئی معاوضہ تو تم سے مانگ نہیں رہا ہوں کہ تم اس کا بوجھ محسوس کر رہے ہو۔ میں نے اپنے رب سے مفت پایا ہے، مفت بانٹ رہا ہوں۔ اگر قبول کروگے تو تمہارا ہی نفع ہے، رد کردوگے تو خود محروم رہوگے۔ یہ اللہ کے دین کی دعوت ہے، یہ کوئی تجارت اور دکانداری نہیں کہ تم گاہک نہ بنے تو میرا کاروبار بیٹھ جائے گا۔ میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰي لِلْعٰلَمِيْنَ میں ‘ ھُوَ ’ کا مرجع قرآن ہے اور یہ اسی مضمون کی مزید توضیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن تو محض لوگوں کے لیے ایک تذکیر اور ایک یاد دہانی ہے۔ پیغمبر نے اگر یہ یاد دہانی پہنچا دی تو وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوا۔ اگر لوگ اس کو قبول نہیں کرتے تو اس کا انجام وہ خود دیکھیں گے۔ پیغمبر پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ لوگ اس کو قبول ہی کرلیں۔ قرآن کے لیے ذکریٰ کے لفظ سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ ہو ہر ہا ہے۔ ایک تو اس حقیقت کی طرف کہ وہ جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ کوئی اوپر اور انوکھی بات نہیں ہے۔ بلکہ انہی حقائق کی یاد دہانی ہے جو انسانی فطرت کے اندر ودیعت ہیں لیکن لوگوں نے ان کو اپنی خواہشات و بدعات کے نیچے دبادیا ہے۔ دوسرے اس حقیقت کی طرف کہ یہ اسی ہدایت الٰہی کی یاد دہانی کرہا ہے جس کو نوح، ابراہیم اور تمام انبیا لے کر آئے لیکن ان کے ساتھ نسبت کے مدیوں نے اس ہدایت الٰہی کی جگہ مختلف ناموں سے مختلف ضلالتیں ایجاد کرلیں اور نہی ضلالتوں کو اپنے بزرگوں کا دین سمجھ بیٹھے۔ قرآن اپنی اس تذکیر سے تاریخ کے فراموش کردہ اوراق کو بھی یاد دلا رہا ہے اور فطرت کے فراموش کردہ اسباق کو بھی۔ پس جس کا جی چاہے اس سے فائدہ اٹھائے۔
Top