Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 89
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحُكْمَ وَ النُّبُوَّةَ١ۚ فَاِنْ یَّكْفُرْ بِهَا هٰۤؤُلَآءِ فَقَدْ وَ كَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِهَا بِكٰفِرِیْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہ الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے دی انہیں الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحُكْمَ : اور شریعت وَالنُّبُوَّةَ : اور نبوت فَاِنْ : پس اگر يَّكْفُرْ : انکار کریں بِهَا : اس کا هٰٓؤُلَآءِ : یہ لوگ فَقَدْ وَكَّلْنَا : تو ہم مقرر کردیتے ہیں بِهَا : ان کے لیے قَوْمًا : ایسے لوگ لَّيْسُوْا : وہ نہیں بِهَا : اس کے بِكٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے
یہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب اور قوت فیصلہ اور نبوت عطا فرمائی تو اگر یہ لوگ اس کا انکار کردیں گے تو کچھ پروا نہیں، ہم نے اس کے لیے ایسے لوگ مامور کردیے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں۔
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ الایۃ۔ کتات کے ساتھ حکمت کا لفظ قرآن میں اکثر آیا ہے۔ یہاں حکم کا لفظ ہے۔ مولانا فراہی اپنی کتاب مفردات القرآن میں لفظ حکم پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حکم سے مراد صحیح فہم اور صحیح فہم کی روشنی میں معاملات کا فیصلہ کرنا ہے۔ یہی چیز جب پختہ ہو کر ایک ملکہ راسخہ کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے تو اس کو حکمت کہتے ہیں، حکم اور حکمت کتاب الٰہی کے لوازم میں سے ہے اس لیے کہ کتاب الٰہی کا اصل مقصد ہی زندگی کے معاملات میں رہنمائی دینا ہے، عام اس سے کہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماع اور عام اس سے کہ پیش آمدہ صورت معاملہ صریحاً کتاب میں بیان ہوئی ہو یا اجتہاداً واستنباطاً اس کا حکم نکالنا پڑے۔ کتاب کی طرح یہ حکم بھی عطیہ الٰہی ہے اور اسی سے کتاب الٰہی زندگی کی ایک عملی حقیقت بنتی ہے۔ اگر حاملین کتاب اس چیز سے محروم ہوجائیں تو پھر کتاب زندگی کے معاملات و مسائل سے بےتعلق ہو کر محض ایک ایسی تاریخی دستاویز بن کے رہ جاتی ہے جو نوادرات کے کسی عجائب خانہ میں رکھی ہو۔ آیت کا مطلب یہ ہے یہ کہ لوگ جن کا اوپر بیان ہو، جن کو ہم نے کتاب، حکم اور نبوت کی نعمت سے سرفراز کیا اور انہوں نے اس نعمت کی قدر کی، اب انہی نعمتوں سے ہم نے تمہارے واسطہ سے (اشارہ پیغمبر ﷺ کی طرف ہے) ان لوگوں کو (اشارہ اہل مکہ کی طرف ہے) نوازنا چاہا ہے، حق تو یہ تھا کہ یہ اس نعمت کی قدرت کرتے لیکن یہ لوگ اس نعمت کی اگر ناقدری کرتے ہیں تو تم ان کی پروا نہ کرو، ہم نے ایسے لوگوں کو اس کی ذمہ داری اٹھانے کے لیے مقرر کردیا ہے جو اس کا انکار کرنے والے نہیں ہیں۔ وَكَّلْنَا بِهَا میں ذمہ دار بنائے جانے کے ساتھ ساتھ ضامن اور زمین بنائے جانے کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ ‘ ب ’ اس پر دلیل ہے۔ ‘ قوماً ’ سے مراد یہاں صحابہ کی وہ جماعت بھی ہے جو اس وقت تک داخل اسلام ہوچکی تھی اور وہ لوگ بھی ہیں جن کے لیے بعد میں اس کے حاملین میں داخل ہونا مقدر تھا، اگرچہ ان ٓآیات کے نزول کے وقت تک وہ ان میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ اس ٹکڑے میں صحابہ کی استقامت اور مستقبل میں امت کی کثرت کی پیشینگوئی ہے اور اس پہلو سے یہ آنحضرت ﷺ کے لیے ایک عظیم بشارت ہے جو اس دور میں آپ کو دی گئی جب آپ مخالفتوں کے طوفان سے گزر رہے تھے۔ الفاظ سے تقدیر الٰہی کا وہ اٹل فیصلہ بھی مترشح ہو رہا ہے جو اس دعوت کو فتح مند کرنے کے لیے ہوچکا ہے اور یہ شارہ بھی نکل رہا ہے کہ اللہ نے اپنے جن بندوں کو اس کے لیے کھڑا کردیا ہے ان کی قلت تعداد پر نہ جاؤ، یہی لوگ اس دعوت کے علمبردار ہوں گے اور یہی قطرے ایک دن سمندر بنیں گے۔
Top