Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 78
فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : اس نے دیکھا الشَّمْسَ : سورج بَازِغَةً : جگمگاتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب هٰذَآ : یہ اَكْبَرُ : سب سے بڑا فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَتْ : وہ غائب ہوگیا قَالَ : کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اِنِّىْ : بیشک میں بَرِيْٓءٌ : بیزار مِّمَّا : اس سے جو تُشْرِكُوْنَ : تم شرک کرتے ہو
پھر جب اس نے سورج کو چمکتے دیکھا بولا کہ یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو، میں ان چیزوں سے بری ہوں جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو۔
اسی طرح ایک دن انہوں نے سورج کے طلوع و غروب کو اپنی تعلیم کا ذریعہ بنا لیا۔ سورج جب آب تاب سے نکلا اور نصف النہار پر پہنچا تو اسی انداز میں جس کا ذکر اوپر گزرا، انہوں نے سورج کے متعلق بھی وہی بات فرمائی جو تارے اور چاند کے متعلق فرمائی تھی۔ البتہ اس کے ساتھ اتنا اضافہ بھی فرما دیا کہ ‘ ھذا اکبر ’ یہ سب سے بڑا ہے ؟ قرینہ صاف پتہ دے رہا ہے کہ یہ بات انہوں نے طنز، تحقیر اور استہزاء کے طور پر فرمائی لیکن سننے والوں نے پھر اطمینان کا سانس لیا ہوگا کہ چلو، اس سر پھرے آدمی سے یہ بھی غنیمت ہے۔ زہر اور چاند کو نہیں مانتا نہ سہی، ہمارے بڑے دیوتا سورج کو تو مانتا ہے۔ لیکن ان کا یہ اطمینان بھی زیادہ دیر پا نہ ثابت ہوا۔ آخر سورج کو بھی ڈوبنا ہی تھا، وہ بھی ڈوب گیا، جب وہ بھی ڈوب گیا تو حضرت ابراہیم ؑ نے بالکل کھل کر اور سب کو مخاطب کر کے حق کا اعلان فرما دیا کہ يٰقَوْمِ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ ، اے میری قوم کے لوگو ! تم جن چیزوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے اپنے آپ کو بری کرتا ہوں۔ اب تک انہوں نے جو کچھ فرمایا تھا اس کی نوعیت خود اپنے اوپر اپنے تاثرات کے اظہار کی تھی، اگرچہ اس سے مقصود بالواسطہ قوم کی عقل اور اس کے ضمیر کو بیدار کرنا ہی تھا لیکن قوم کو براہ راست مخاطب نہیں فرمایا تھا۔ اب انہوں نے ان کو براہ راست مخاطب کر کے ان کے دین اور ان کے معبودوں سے اپنی براءت کا اعلان فرما دیا۔
Top