Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 77
فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب رَاَ : دیکھا الْقَمَرَ : چاند بَازِغًا : چمکتا ہوا قَالَ : بولے هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَ : غائب ہوگیا قَالَ : کہا لَئِنْ : اگر لَّمْ يَهْدِنِيْ : نہ ہدایت دے مجھے رَبِّيْ : میرا رب لَاَكُوْنَنَّ : تو میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْقَوْمِ : قوم۔ لوگ الضَّآلِّيْنَ : بھٹکنے والے
پھر جب اس نے چاند کو چمکتے دیکھا بولا یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ بھی ڈوب گیا اس نے کہا اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہوں میں سے ہو کر رہ جاؤں گا۔
فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا الایۃ، اسی طرح کسی دن، پورے چاند کی پھیلی ہوئی چاندنی میں انہوں نے پھر اس تعلیم کے لیے موقع پیدا کرلیا اور بالکل اسی لب و لہجہ اور اسی انداز میں انہوں نے چاند کے متعلق وہی بات کہی جو پہلے ستارے کے متعلق کہی تھی۔ پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو انہوں نے اسی طرح اپنے کو مخاطب کرتے ہوئے اور آس پاس والوں کو سناتے ہوئے فرمایا کہ لَىِٕنْ لَّمْ يَهْدِنِيْ رَبِّيْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّاۗلِّيْنَ : اگر میرے رب نے میری رہنمائی نہ فرمائی تو میں گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ یہاں تعلیم کا قدم پہلے کی نسبت سے آگے ہے۔ یہاں صرف اتنی ہی بات نہیں ظاہر ہوئی کہ ڈوبنے والے سزوار عبادت نہیں بلکہ یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ ان ڈوبنے والوں کو معبود بنانا کھلی ہوئی ضلالت ہے۔ نیز یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ یہ ضلالت کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بڑے حسرت واندوہ کی چیز ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ ہدایت کا سرچشمہ صرف خدا ہے، وہ ہدایت نہ بخشے تو انسان ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے درپے ہوجاتا ہے۔ یہ ساری باتیں حضرت ابراہیم ؑ نے چونکہ اپنے آپ سے کہیں اس وجہ سے سننے والوں میں سے جس کے کان میں پڑی ہوں گی اس کے لیے ان سے چڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی تھی بلکہ جس کے اندر کچھ بھی غور و فکر کی صلاحیت رہی ہوگی وہ اس سوچ میں پڑگیا ہوگا کہ ایک یہ شخص ہے جو طلب ہدایت میں اس طرح بےقرار ہے اور ایک ہم ہیں کہ پتھر کی طرح اپنی جگہ سے کھسکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ ایک حقیقت کا اظہار : یہاں حضرت ابراہیم ؑ نے جو یہ بات فرمائی کہ لَىِٕنْ لَّمْ يَهْدِنِيْ رَبِّيْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّاۗلِّيْنَ تو یہ ایک حقیقت نفس الامری کا اظہار ہے۔ ہدایت ہمیشہ خدا ہی سے حاصل ہوتی ہے، اگر وہ ہدایت نہ دے تو کسی کو بھی ہدایت حاصل نہیں ہوسکتی۔ بعض لوگوں نے اس کو شرط فی الماضی کے مفہوم میں لیا ہے لیکن اس تکلف کی ضرورت نہیں۔ ان کے یہ بات کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اس سے پہلے گمراہی میں تھے یا اپنے کو گمراہی پر سمجھتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی فطرت سلیم کا آئینہ دوسروں کے سامنے رکھا ہے کہ وہ لوگ اس آئینہ میں اپنے منہ دیکھیں۔ لیکن بس آئینہ رکھ دیا ہے خود ان کو مخاطب کر کے کچھ نہیں کہا ہے کہ وہ وحشت زدہ اور بدگمان نہ ہوں۔
Top