Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 76
فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًا١ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّیْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ
فَلَمَّا : پھر جب جَنَّ : اندھیرا کرلیا عَلَيْهِ : اس پر الَّيْلُ : رات رَاٰ : اس نے دیکھا كَوْكَبًا : ایک ستارہ قَالَ : اس نے کہا هٰذَا : یہ رَبِّيْ : میرا رب فَلَمَّآ : پھر جب اَفَلَ : غائب ہوگیا قَالَ : اس نے کہا لَآ : نہیں اُحِبُّ : میں دوست رکھتا الْاٰفِلِيْنَ : غائب ہونے والے
پس یوں ہوا کہ جب رات نے اس کو ڈھانک لیا اس نے ایک تارے کو دیکھا، بولا کہ یہ میرا رب ہے۔ پھر جب وہ ڈوب گیا اس نے کہا میں ڈوب جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
ان آیات (آیت 76 تا 79) میں لغت یا اسلوب زبان کا کوئی اشکال نہیں ہے۔ نظم کے پہلو سے یہ اوپر والی کے اجمال کی تفصیل ہے۔ پہلے حوالہ دیا کہ کس طرح ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے دین کے کھوکھلے پن کو ان کے سامنے بےنقاب کیا اور ان کی کھلی ہوئی گمراہی پر ان کو ملامت کی۔ پھر اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح ہم ابراہیم ؑ پر آسمان و زمین میں اپنی ملکوت کے اسرار و حقائق بےنقاب کرتے تھے تاکہ وہ اپنی قوم پر ہماری حجت قائم کرے اور تاکہ وہ کاملین یقین میں سے بنے۔ اس کے بعد اب یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ ابراہیم ؑ نے کس طرح اپنی قوم پر یہ واضح کیا کہ وہ اس کائنات کی جن چیزوں کو معبود سمجھ کر ان کی پرستش کر رہی ہے وہ ساری چیزیں خود اپنے وجود سے شہادت دے رہی ہیں کہ وہ ملکوتِ الٰہی کے تابع اور اس کے احکام وقوانین مسخر ہیں۔ مجال نہیں ہے کہ سرِ مُو ادھر ادھر ان سے تجاوز کرسکیں۔ اس وجہ سے عبادت کا اصلی مستحق وہ ہے جو ان سب کا خالق و فاطر ہے نہ کہ یہ جو محکوم و مقہور ہیں۔ اب ہم حضرت ابراہیم کے اس استدلال کی وضاحت کریں گے لیکن اس وضاحت سے پہلے چند باتیں حضرت ابراہیم ؑ کے طرز خطاب و استدلال سے متعلق سمجھ لینی ضروری ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کے طرز استدلال کی بعض خصوصیات : حضرات انبیاء (علیہم السلام) یوں اپنی دعوت اور اپنے مقصد کے اعتبار سے تو بالکل یک رنگ و ہم آہنگ ہوتے ہیں لیکن اپنے مخاطبوں کے مزاج، ان کی افتادِ طبع اور ان کے ذوق کے اختلاف کے سبب سے ہر نبی کے طرز خطاب اور طریقہ استدلال و بحث میں کچھ امتیازی خصوصیات پیدا ہوگئی ہیں۔ مثلاً حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ ؑ زیادہ تر تمثیلوں میں بات کرتے تھے۔ بعض انبیا میں موعظت کا رنگ غالب ہے بعض کے ہاں قانون کا انداز نمایاں ہے۔ یہ فرق، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، زیادہ تر نتیجہ ہے مخاطب کے ذوق و مزاج کے فرق و اختلاف کا، لیکن کچھ اس میں ذوق رجحان کو بھی دخل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر طبیعت میں الگ الگ ودیعت فرمایا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم، جیسا کہ قرآن میں بیان کردہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے، بڑی مناظرہ باز اور حجرت طراز قوم تھی۔ اول تو لوگ بات سننے کے لیے آسانی سے تیار ہی نہ ہوتے اور اگر کبھی سنانے کا کوئی موقع نکلتا بھی تو بڑی جلدی بدک جاتے اور مباحثہ و مناظرہ کے لیے آستینیں چرھا لیتے۔ ان کے مزاج کی اس وحشت کی وجہ سے حضرت ابراہیم بحث و خطاب میں استدراج کا طریقہ زیادہ اختیار فرماتے۔ استدراج کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مخاطب پر اس راہ سے درجہ بدرجہ گھیرے ڈالتے جدھر سے اس کو سان گمان بھی نہ ہوتا کہ وہ گھیرے میں آسکتا ہے۔ اس کی ایک مثال اس واقعہ میں موجود ہے جو سورة انبیاء میں بیان ہوا ہے۔ انہوں نے ایک دن موقع نکال کر قوم کے بت خانے کے سارے بت ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیے۔ صرف بڑے بت کو سلامت چھوڑ دیا۔ جب پوچھ گچھ شروع ہوئی اور حضرت ابراہیم سے سوال ہوا کہ کیا یہ تمہارا فعل ہے، انہوں نے جھٹ جواب دیا کہ یہ تو اس بڑے بت کی کارستانی معلوم ہوتی ہے اور ٹوٹے ہوئے بتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے جن پر یہ مصیبت گزری ہے۔ اگر یہ بولتے ہیں تو اپنی مصیبت کی داستان خود ہی سنا دیں گے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی یہ بات سن کر پہلے تو سب پر شرم سے گھڑوں پانی پڑگیا کہ فی الواقع ہم کتنے احمق ہیں کہ ایسی چیزوں کو معبود بنائے بیٹھے ہیں جو خود اپنی حفاظت سے بھی قاصر ہیں۔ جب یہ خود اپنی حفاظت نہیں کرسکتیں تو بھلا ہماری حفاظت کیا کریں گی۔ اس طرح اندر سے ان کا اعتقاد متزلزل ہوگیا۔ لیکن پھر حمیت جاہلیت کے جوش میں حضرت ابراہیم ؑ کی بات کا جواب دینے کی کوشش کی تو اس کوشش میں اپنی حماقت کا اعتراف بھی کر گئے۔ بولے کہ یہ تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں۔ ان کے اس اعتراف پر حضرت ابراہیم ؑ کو ایک نہایت عمدہ موقع ان کی حماقت پر توجہ دلانے کا مل گیا اور انہوں نے ایک نہایت موثر تقریر کی کہ تم پر افسوس ہے کہ تم ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ کسی نفع پر قادر ہیں نہ کسی نقصان پر۔ اس طریقہ استدراج کے تقاضے سے حضرت ابراہیم ؑ کبھی کبھی توریہ سے بھی کام لیتے تھے۔ توریہ کا یہ مطلب ہے کہ وہ اپنی کوئی اسکیم پوری کرنے کے لیے حریف کے سامنے اپنی بات اس طرح پیش کرتے کہ بات تو بالکل صحیح ہوتی لیکن اس کے پیش کرنے کا انداز ایسا ہوتا کہ حریف اس سے مغالطہ میں پڑجاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ہوشیاری کے باوجود وہ اسکیم کے بروئے کار آجانے سے پہلے اس سے آگاہ نہ ہوپاتا۔ اس کی نہایت لطیف مثال سورة صافات میں ہے۔ انشاء اللہ ہم اس پر اس کے مقام میں گفتگو کریں گے اور وہیں بعض الفاظ کی وضاحت بھی کریں گے جن کے صحیح مفہوم سے بیخبر ی کے باعث بہت سے لوگ نہایت افسوسناک قسم کی غلط فہمیوں کے شکار ہوگئے۔ اس استدراج اور اس توریہ میں کہیں کہیں پاکیزہ ظرافت بھی شامل ہوجاتی ہے جو کچھ تو اس استدراج اور توریہ کا فطری تقاضا ہوتی ہے اس لیے کہ ہر کام ایک مخصوص انداز اور مخصوص اسلوب کا طالب ہوتا ہے اور کچھ اس میں اس لطافتِ ذوق کی نمود بھی ہوتی ہے جو حضرت ابراہیم کے مزاج کی ایک خصوصیت ہے۔ اس کی نہایت عمدہ مثالیں سورة انبیا اور سورة صافات میں آئیں گی۔ اس تمہید کے بعد اب زیر بحث آیات (آیت 76 تا 79) پر غور فرمائیے۔ حجت ابراہیمی کی وضاحت : ایک انہوں نے ایک ستارے کو چمکتے دیکھا (ہوسکتا ہے کہ یہ ستارہ زہرہ ہو جس کو ان کی قوم پوجتی تھی یا کوئی اور ستارہ ہو) تو بولے کہ ‘ ہاں بھائی یہ میرا رب ’ قرینہ صاف بتا رہا ہے کہ یہ بات انہوں نے خود اپنے آپ کو مخاطب کر کے اس طرح فرمائی ہوگی کہ دوسروں کے کان میں بھی پڑجائے۔ سننے والوں نے جب ان کی زبان سے یہ بات سنی ہوگی تو انہوں نے اطمینان کا سانس لیا ہوگا کہ چلو، یہ بھی غنیمت ہے۔ ایک ایسا شخص جو باپ دادا کے دین اور ہمارے معبودوں سے بالکل بیزار ہے جس حد تک بھی ہمارے ساتھ موافقت کر رہا ہے اسی پر قناعت کرو اور زیادہ اس کے درپے نہ ہو، حضرت ابراہیم ؑ یہ بات لوگوں کے کانوں میں ڈال کر خاموش ہو رہے۔ پھر جب ستارہ ڈوب گیا تو انہوں نے بالکل اسی انداز میں اپنے کو مخاطب اور دوسروں کو سناتے ہوئے کہا کہ میں ان ڈوب جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ آس پاس والوں کا سابق اطمینان تو ان کی یہ بات سن کر رخصت ہوگیا ہوگا لیکن وہ اس سوچ میں ضرور پڑگئے ہوں گے کہ اس نوجوان کا ہمارے معبودوں سے انحراف محض نوجوانی کی ترنگ اور بےقیدی وآزادی کی لا ابالیانہ خواہش کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کی سوچ نے اس کے عقیدے کو متزلزل کردیا ہے چونکہ بات ان کو براہ راست مخاطب کر کے تحدی کے انداز میں ہیں کہی گئی تھی اس وجہ سے وہ زیادہ مشتعل بھی نہیں ہوئے ہوں گے بلکہ وہ اس فکر میں پڑگئے ہوں گے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہماری بات ہی میں کوئی کمزوری ہے۔ کسی جمود کا اس حد تک ہل جانا بھی بایک بڑی کامیابی ہے، حضرت ابراہیم نے اس طرح ان کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ ان ستاروں کا طلوع ہونا اور چمکنا ہی کیوں دیکھتے ہو۔ طلوع ہونے کے بعد ان کا ڈوب جانا کیوں نہیں دیکھتے ؟ جب طلوع کے ساتھ غروب اور آنے کے ساتھ جانا بھی ہے اور اس پابندی اور محکومی کے ساتھ کہ مجال نہیں ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی وقت یا سمت میں یا ہیئت اور شکل میں سرِ مو تغیر ہوجائے تو یہ تو گویا وہ خود زبان حال سے بتا رہے ہیں کہ ہم آئے نہیں بلکہ لائے گئے ہیں اور جاتے نہیں بلکہ لے جائے جاتے ہیں۔ (ع)۔ لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے۔۔۔ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے۔ اس حقیقت کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم نے یہ بات بھی ان کے کانوں میں ڈال دی کہ خالق ومالک کے ساتھ بندے کا تعلق محبت کی بنیاد پر ہے، نہ کہ مجرد خوف کی بنیاد پر، مجرد خوف ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنیاد پر کسی کا کوئی حق قائم ہوجائے اور حق بھی اس کی عبادت کا۔ مشرکین کے لیے یہ بات بھی ایک نئی رہنمائی دینے والی بات تھی اس لیے کہ شرک کی بنیاد تمام تر خوف پر ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے گویا بتایا کہ میں مجرد خوف کی بنیاد پر کسی کی عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں بلکہ محبت کی بنا پر عبادت کرتا ہوں اور محبت کی سزوار یہ آنی جانی چیزیں نہیں بلکہ صرف وہ ہے جس کے حکم سے یہ چیزیں آتی جاتی ہیں۔
Top