Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 75
وَ كَذٰلِكَ نُرِیْۤ اِبْرٰهِیْمَ مَلَكُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لِیَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُرِيْٓ : ہم دکھانے لگے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم مَلَكُوْتَ : بادشاہی السَّمٰوٰتِ : آسمانوں (جمع) وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلِيَكُوْنَ : اور تاکہ ہوجائے وہ مِنَ : سے الْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والے
اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین میں ملکوت الٰہی کا مشاہدہ کراتے تھے تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرے اور کاملین یقین میں سے بنے۔
وَكَذٰلِكَ نُرِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ ، دوسرے مقام میں ہم اس اسلوب کی وضاحت کرچکے ہیں کہ یہ در اصل کُنَّا نُرِيْٓ اِبْرٰهِيْمَ ہے، عربی زبان کے معروف اسلوب کے مطابق یہاں ‘ کنا ’ محذوف ہوگیا ہے۔ لفظ ملکوت کی تحقیق :‘ مَلَکُوْت ’ جس طرح ‘ رہبۃ ’ سے ‘ رہبوت ’ ہے اسی طرح ملک سے ملکوت ہے، ملکوت کا لغوی مفہوم تو عزت و اقتدار، بادشاہی اور سلطنت ہے لیکن قرآن میں یہ لفظ خدا کی اس تکوینی بادشاہی کے لیے استعمال ہوا ہے جو آسمان اور زمین بلکہ ہر چیز پر قائم و دائم ہے۔ اس ملکوت الٰہی پر غور کرنے کی دعوت مختلف اسلوبوں سے قرآن میں بار بار دی گئی ہے“ اولم ینظروا فی ملکوت السموات والارض : کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین میں خدا کی بادشاہی پر غور نہیں کیا ”(اعراف :185)۔“ سبحان الذی بیدہ ملکوت کل شیء والیہ ترجعون : پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی زمام ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ”۔ ملکوت الٰہی میں تفکر تمام علم کی کلید ہے : یہاں یہ بات واضح کی جا رہی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ آسمان و زمین کے نظام پر غور کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق بکشی سے ان پر اپنی معرفت کے وہ اسرار و حقائق کھولے جو انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم پر واضح کیے۔ یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ اسی ملکوت پر غور کرنے سے وہ کلید ہاتھ آتی ہے جس سے صحیح فکر اور صحیح عمل کے دروازے کھلتے ہیں اسی سے زندگی کا سرا بھی ہاتھ آتا ہے اور اسی سے اس کے منتہا کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس دنیا کا کوئی خالق ہے یا یہ خود ہی آ دھمکی ہے ؟ اگر کوئی خالق ہے تو وہ یکہ و تنہا ہے یا اس کے اور بھی شریک وسہیم ہیں ؟ یہ پیدا ہو کر کبھی ختم ہوگی یا اسی طرح ہمیشہ ہمیش چلتی رہے گی، اگر اس کا کوئی خالق ومالک ہے تو اس کی صفات و خصوصیات کیا ہیں اور کس لیے اس نے اتنا بڑا عالم کھڑا کردیا ہے ؟ اس دنیا میں حق و باطل کے لیے کوئی معیار ہے یا یہ کوئی اندھیر نگری ہے ؟ انسان اپنے اقوال و افعال کے لیے مسئول اور جواب دہ ہے یا بالکل مطلق العنان اور شتر بےمہار ہے ؟ آسمانوں اور زمین ایک ہی قادر وقیوم کی تدبیر و حکمت کار فرما ہے یا ان کے اندر الگ الگ مشیتیں اور الگ الگ ارادے زور آزمائی کر رہے ہیں ؟ یہ اور اس قبیل کے دوسرے بہت سے سوالات ہیں جن کے صحیح حل پر پر ہی صحیح فکر اور صحیح عمل کی بنیاد ہے۔ اس وجہ سے قرآن نے آسمان و زمین کے اس نظام پر غور کرنے کی دعوت بھی دی ہے اور صحیح نتائج تک پہنچنے میں ہمارے فکر کی رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ جہاں تک غور کرنے کا تعلق ہے اس ملکوت پر غور تو ایک سائنس دان بھی کرتا ہے لیکن وہ سارا غور و فکر اپنی ذات یا اپنے محدود ماحول کو محور بنا کر کرتا ہے۔ اس کی نگاہ صرف اپنے نفع عاجل پر ہوتی ہے اس وجہ سے وہ ان حقائق تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا جو اس کی نگاہ کو اس کے مطلوب نفع عاجل سے ہٹا دیں۔ وہ چمن میں کھلے ہوئے گلاب کو اس نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس سے گل قند یا اسی طرح کی کوئی اور چیز تیار ہوسکتی ہے جس سے فلاں فلاں فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اسچکر میں نہیں پڑتا کہ اس پھول کے حسن و جمال اس کی رعنائی و دل کشی، اس کی عطر بیزای و مشام نوازی میں اس کے صانع کی قدرت کاری گری، حکمت، رحمت اور ربوبیت کے جلوے دیکھنے کی کوشش کرے اور ان جلووں سے بےخود ہو کر پھول سے گزر کر پھول کے پیدا کرنے والے کے جمال و کمال کے مشاہدے میں غرق ہوجائے۔ اے گل بتوخر سندم تو بوئے کسے داری۔ حالانکہ ایک صاحب نظر کے لیے پھول کا یہی پہلو زیادہ جاذبِ نظر ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر پھول سے مقصود صرف گل قند ہی ہوتا تو صرف اس مقصد کے لیے اس کی ایک ایک پنکھڑی پر قدرت کو اس فیاضی کے ساتھ گل کاری کی کیا ضرورت تھی ؟ یہ گل کاری اور صنعت گری تو اسی لیے فرمائی گئی ہے کہ پھول کی ایک ایک پتی معرفتِ کردگار کے دفتر کا کام دے۔ نیوٹن نے سیب کے درخت سے ایک سیب زمین پر گرتے دیکھا۔ اس سے اس کا ذہن زمین کی کشش کے اصول کی طرف منتقل ہوگیا۔ پھر اس اصول سے بہت سے اصول دریافت ہوگئے جو علمی تحقیقات قور انکشافات میں بہت کار آمد ثابت ہوئے لیکن نگاہ ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اس اصول کی تمام کار فرمائیاں بس اسی دنیا کی تنگ نائے کے اندر محدود رہ گئیں۔ ورنہ یہیں سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے کائنات کی ایک ایک چیز کو، خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، جذب و کشش کے اس قانون سے باندھ رکھا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا ایماندارانہ جواب یہی ہوسکتا ہے کہ“ ذالک تقدیر العزیز العلیم ”یہ سارا کارخانہ ایک غالب و مقتدر اور ایک حکیم وعلیم کا بنایا ہوا ہے لیکن اس سوال اور اس کے جواب سے چونکہ بہت بھاری ذمہ داریاں انسان پر عائد ہوتی ہیں اس وجہ سے ہمارے سائنس دان اس سے بھاگتے ہیں۔ حضرات انبیاء کی بلند نگاہی : زیر بحث آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا کہ“ اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمان و زمین میں ملکوتِ الٰہی کا مشاہدہ کراتے تھے ”تو اس سے اسی بلند نگاہی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی ہدایت سے حضرات انبیاء کرام کو بالخصوص حاصل ہوتی ہے اور ابقدر استعداد اس توفیق میں سے وہ لوگ بھی حصہ پاتے ہیں جو ایمان دارانہ اس کائنات پر غور کرتے ہیں اور اپنے غور و فکر کے نتائج سے گریز کے بجائے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں“ و یتفکرون فی خلق السموات والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا ”میں اسی گروہ کے لوگوں کی طرف اشارہ ہے۔ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِيْنَ ، یہاں عربی زبان کے اس معروف قاعدے کے مطابق جس کی ایک سے زیادہ مثالیں پیچھے گزر چکی ہیں، معطوف علیہ محذوف ہے جس کا تعین قرینہ کرے گا، یہاں آگے وضاحت موجود ہے کہ اس مشاہدہ ملکوت سے اللہ نے حضرت ابراہیم ؑ کو اپنی وحدانیت کی اس دلیل کی طرف رہنمائی فرمائی جو انہوں نے اپنی قوم پر قائم فرمائی۔ چناچہ فرمایا ہے“ وَتِلْكَ حُجَّتُنَآ اٰتَيْنٰهَآ اِبْرٰهِيْمَ عَلٰي قَوْمِهٖ : اور یہ ہے ہماری وہ دلیل جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابل عطا فرمائی ”اس قرینہ کی روشنی میں اگر اس محذوف کو کھولا جائے تو پوری بات یوں ہوگی کہ“ اور اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین میں ملکوت الٰہی کا مشاہدہ کراتے تھے تاکہ وہ اس کے ذریعہ سے اپنی قوم پر حجت قائم کرے اور تاکہ وہ اہل یقین میں سے بنے ”۔ یقین کے ساتھ علاج : یہاں جس یقین کا ذکر ہے یہ وہ یقین ہے جو ایمان کے اوپر کا درجہ ہے جس کو حق الیقین سے تعبیر کرسکتے ہیں، ایمان ایک عام چیز ہے جس کے لیے اگر فطرت سلیم ہو تو اندر کا وجدان بھی کافی ہوتا ہے لیکن یقین، فکر و نظر، تفکر و تدبر اور ملکوت الٰہی کے علم و مشاہدے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے مراتب و مدارج کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔ چناچہ آگے نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاء میں اسی کے مراتب عالیہ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ یہی یقین جب ایمان کے اندر پیدا ہوتا ہے تب اس کا فیضان متعدی ہوتا ہے یہاں تک کہ بسا اوقات اس سے دشت و جبل گونج اٹھتے ہیں۔ حضرات انبیا چونکہ خلق کی ہدایت پر امور ہوتے ہیں اس وجہ سے وہ اس میں حصہ وافر پاتے ہیں اور پھر ان کے بعد ان لوگوں کا درجہ ہوتا ہے جو ان کے متبعین باحسان میں شامل ہوتے ہیں۔
Top