Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 74
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً١ۚ اِنِّیْۤ اَرٰىكَ وَ قَوْمَكَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا اِبْرٰهِيْمُ : ابراہیم لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو اٰزَرَ : آزر اَتَتَّخِذُ : کیا تو بناتا ہے اَصْنَامًا : بت (جمع) اٰلِهَةً : معبود اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكَ : تجھے دیکھتا ہوں وَقَوْمَكَ : اور تیری قوم فِيْ ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا، کیا تم بتوں کو معبود بنائے بیٹھے ہو ؟ میں تو تم کو اور تمہاری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں۔
فصل 11: آیات 74 تا 90 کا مضمون : سورة کے شروع سے جو بحث چلی آرہی تھی یہاں آ کر اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ اب آگے حضرت ابراہیم اور ان سے پہلے اور ان کے بعد پیدا ہونے والے تمام نبیوں کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ ان سب کی دعوت یہی تھی جو یہ پیغمبر دے رہے ہیں۔ پھر پیغمبر ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تم بہر شکل اسی ہدایت یافتہ گروہ کی ہدایت کی پیروی کرو۔ اگر تمہاری یہ قوم تمہاری بات نہیں سنتی تو اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو ، تمہاری ذہ داری صرف دعوت و تبلیغ کی ہے۔ ان کے دلوں میں ایمان و ہدایت اتار دینا تہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں خاص اہمیت کے ساتھ کے ساتھ حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعوت توحید کا ذکر فرمایا ہے جو بالکل ابتدا ہی میں انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کو دی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی دعوت کے خاص طور پر ذکر کی وجہ، جیسا کہ ہم تفسیر سورة بقرہ میں وضاحت کے ساتھ بیان کرچکے ہیں، یہ ہے کہ بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دونوں ہی ان کو مسلم طور پر اپنا خاندانی بزرگ اور روحانی پیشوا مانتے تھے اور مدعی تھے کہ جس دین پر وہ ہیں ان کو انہی سے وراثت میں ملا ہے اور اپنی تمام مشرکانہ بدعات میں انہی کے نام نامی کو بطور سند پیش کرتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت بھی چونکہ ملت ابراہیم پر ہوئی تھی اس وجہ سے ضروری ہوا کہ جس طرح بقرہ اور آل عمران میں بنی اسرائیل پر یہ واضح کردیا گیا کہ ان کی ایجاد کردہ یہودیت و نصرانیت کو ملت ابراہیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسی طرح بنی اسماعیل پر بھی یہ واضح کردیا جائے کہ انہوں نے جو دین شرک اختیار کر رکھا ہے یہ ان کی اپنی ایجاد ہے، حضرت ابراہیم سے اس کو کوئی دور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم کی دعوت اور ان کی زندگی کے ہر پہلو سے نبی ﷺ کو جو سبق حاصل ہوسکتے تھے وہ کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتے تھے۔ اس کی وجہ، جیسا کہ ہم نے اوپر اشارہ کیا، یہ ہے کہ آپ اسی ملت بیضا کی تجدید و تکمیل کے لیے آئے تھے جس کی دعوت حضرت ابراہیم نے دی تھی اور اسی قوم کے اندر آئے تھے جو حضرت ابراہیم کی نام لیوا تھی، اب اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے : آزر کے نام کے بارے میں روایات کا اختلاف : آزر، حضرت ابراہیم ؑ کے والد کا نام ہے۔ تورات کے عربی اور انگریزی ترجموں اور تالمود، سب میں اس کا تلفظ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ قرآن نے یہاں جس تصریح کے ساتھ اس نام کا ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں یہود کے ہاں روایات کا جو اختلاف ہے وہ اس کو رفع کرنا چاہتا ہے اور قرآن چونکہ قدیم صحیفوں کے لیے کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے اور براہ راست وحی الٰہی پر مبنی ہے اس وجہ سے ماننا چاہیے کہ یہی نام صحیح ہے۔ انبیاء کی دعوت کا ایک خاص اسلوب : یہود کے مذہبی لٹریچر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آزر صرف بت پرست ہی نہیں بلکہ بت گر اور بت فروش بھی تھے بلکہ عجب نہیں کہ بت خانے کے پروہت بھی رہے ہوں۔ ایسے حالات میں آزر کے گھر میں ابراہیم کا پیدا ہونا اور باپ کے سارے کاروبار بت پرستی و بت فروشی پر بیٹے ہی کے ہاتھوں یہ ضرب کاری لگنا قدرت الٰہی کا ایک کرشمہ ہے۔ حضرات انبیاء کی صداقت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ انہوں نے جس حق کی دعوت دنیا کو دی ہے اس کی اذا سب سے پہلے ان کے کانوں میں دی ہے جو ان کے سب سے زیادہ قریب بھی تھے اور ان کو سب سے زیادہ عزیز بھی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کو جو دعوت دی ہے اس کی طرف یہاں صرف اجمالی اشارہ ہے۔ قرآن میں دوسرے مقامات میں اس کی تصریح بھی ہے“إِذْ قَالَ لأبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ وَلا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا (42) يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا (43) يَا أَبَتِ لا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا (44) يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِنَ الرَّحْمَنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا (45) قَالَ أَرَاغِبٌ أَنْتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ لأرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا (46): یاد کرو جب اس نے اپنے باپ سے کہا، اے میرے باپ، آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ کچھ آپ کے کام آنے والی ہیں۔ اے میرے باپ، میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا تو میری پیروی کیجیے میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔ اے میرے باپ شیطان کی بندگی نہ کیجیے۔ شیطان خدائے رحمان کا بڑا نافرمان ہے۔ اے میرے باپ میں ڈرتا ہوں کہ آپ کو خدائے رحمان کی طرف سے کوئی عذاب نہ آپکڑے کہ آپ شیطان کے ساتھ بن کے رہ جائیں۔ اس نے جواب دیا، ابراہیم ! کیا تم میرے معبودوں سے منحرف ہو رہے ہو۔ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمہیں سنگسار کردوں گا۔ اب تم میرے پاس سے یک دم دفع ہوجاؤ ”(سورة مریم :42 تا 46)۔ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً ، یعنی اپنے ہی ہاتھوں کے گھڑے ہوئے بت اور ان کو معبود بنا ڈالا ہے، یہ تو ایک کھلی ہوئی گمراہی ہے جس میں آپ بھی مبتلا ہیں اور آپ کی قوم بھی ! دوسری جگہ فرمایا ہے“ اتعبدون ما تنحتون : کیا تم پوجتے ہو ان چیزوں کو جن کو خود اپنے ہی ہاتھوں گھڑتے ہو ”(صافات :95)
Top