Tadabbur-e-Quran - Al-Waaqia : 28
فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍۙ
فِيْ سِدْرٍ : بیریوں میں مَّخْضُوْدٍ : بغیر کانٹوں کے
بےخار بیریوں ،
(فی سدر محضود و طلح منضود وظل ممدود وما مسکوب وفا کھۃ کثیرۃ لا مقطوعۃ ولا ممنوعۃ) (28، 33)۔ یہ ان کی جنت پھلوں، اس کے سایہ اور اس کی طرادت کا ذکر ہے۔ (فی سدرمخضود، سدر) بیری کو کہتے ہیں۔ ہمارے علاقوں میں بیری کی کچھ زیادہ وقعت نہیں ہے اس وجہ سے ممکن ہے بعض لوگوں کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ یہ کیا ایسا پھل ہے جس کا قرآن نے ذکر فرمایا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اول تو ہر علاقے کی بیری یکساں نہیں ہوتی بعض علاقوں میں اس کے پھل نہایت لذیز، خوشبو دار اور خوش رنگ ہوتے ہیں۔ ثانیاً یہ جنت کی بیری ہے، جس کا ذکر اس دنیا میں صرف تمثیل ہی کے پیرا یہ میں ہوسکتا ہے۔ اس کی اصل حقیقت جاننے کا یہاں کوئی ذریعہ نہیں ہے، صرف وہی لوگ اس حقیقت سے آشنا ہوں گے جن کو اصحاب الیمین میں شمولیت کا شرف حاصل ہوگا۔ ویسے قرآن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس درخت کو ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔ سورة نجم میں فرمایا ہے۔ (۔۔۔۔ النجم 53۔ 13۔ 16) (اور پیغمبر نے جبریل کو دوبارہ بھی اترتے دیکھا آخری سرے کی بیری کے پاس، اسی کے پاس جنت ماویٰ بھی ہے، جب کہ بیری کو چھپائے ہوئے تھی جو چیز چھائے ہوئے تھی !) سورة نجم کی ان آیات کے تحت، اشارات قرآن کی رہنمائی میں، ہم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ اس بیری کا ذکر ہے جو عالم ناسوت اور عالم لا ہوت کے نقطہ اتصال پر ہے، اسی کے پاس جنت الماوی ہے جہاں سے عالم لاہوت کی حدود شروع ہوتے ہیں۔ اس بیری پر نبی ﷺ نے ان انوار و تجلیات کا مشاہدہ فرمایا جس کا ذکر (اذ یغثنی السدرۃ ما ینثی ما زاع البصر وما طغی) (النجم : 53، 16، 17) کے شاندار الفاظ میں ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کے ابتدائی مشاہدات نبوت، جو تورات اور قرآن میں بیان ہوئے ہیں، میں بھی ذکر آتا ہے کہ انہوں نے ایک درخت سے اللہ تعالیٰ کی آواز سنی اور اسی پر انوار و تجلیات الٰہی کا مشاہدہ کیا۔ اگرچہ قرآن میں کوئی اشارہ اس طرح کا نہیں ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ وہ درخت کس چیز کا تھا لیکن دونوں واقعات میں یکسانی واضح ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ درخت بھی بیری ہی کا ہو۔ (سدر) کے ساتھ (مخضود) کی صفت اس حقیقت کے اظہار کے لیے ہے کہ یہ بیری دنیا کی بیریوں کی طرح آزاد پہنچانے والی نہیں ہوگی کہ کوئی ایک بیر لینے کی کوشش کرے تو اپنے ہاتھوں کو اس کے کانٹوں سے زخمی بھی کرائے۔ یہ بےخار اور بالکل بےآزاد ہوں گی۔ اہل جنت جب چاہیں اور جہاں سے چاہیں گے ان کے پھل توڑ لیں گے۔ لفظ خضد کسی کانٹوں والی چیز کے کانٹوں کو کاٹ دینے کے لیے آتا ہے۔ یہاں مقصود یہ بتانا ہے کہ ان کے پھلوں کی طرح ان کے درخت بھی دنیا کی بیریوں سے مختلف مزاج کے ہوں گے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ اس دنیا میں بھی بیریوں کی جو قسمیں جتنی ہی اچھی ہوتی ہیں اتنے ہی ان میں کانٹے کم ہوتے ہیں۔ کانٹے زیادہ جھڑبیریوں میں ہوتے ہیں۔ قرآن میں اہل سبا کے جس جنت نشان باغ کی تباہی کا ذکر ہے اس میں بیریوں کی تباہی کا بھی ذکر ہے کہ وہ جھاڑ بن کے رہ گئیں۔ اس سے معلومہوتا ہے کہ یہ پھل ان کے پسندیدہ پھلوں میں تھا، اور اس کے درخت ان کے باغوں کی زینت بنتے تھے۔ اپنے خاندان کے اعتبار سے بھی بیر سیب کے خانوادہ سے نسبت رکھنے والا پھیل ہے۔ (وطلع منضود۔ طلح) کے لئے کو کہتے ہیں۔ (منضود) اس کے پھلوں کی تصویر ہے کہ وہ تہ بہ تہ ایک دوسرے سے پیوستہ ہوں گے۔ ان کی تربیت اور انکے چنائو کا حسن گواہی دے گا کہ خالق نے خاص اہتمام سے اپنے بندوں کی ضیافت کے لیے ان کو چنا ہے۔ (وظل ممود وما مسکوب) یہ اس باغ کی شادابی اور اس کی طراوت کا بیان ہے کہ اس کے درخت اپنے زور اور شادابی کے سبب سے اس طرح ایک دوسرے کے متصل ہوں گے کہ ان کے اندر دھوپ کا گزر نہیں ہونے پائے گا اس وجہ سے ہر طرف سایہ ہی سایہ ہوگا اور اس میں دواما ً پانی بھی بہایا جاتا رہے گا تاکہ اس کی رونق میں کوئی کمی نہ ہونے پائے۔ (وفاکھۃ کثیرۃ لا مقطوعۃ ولا ممنوعۃ) یعنی اوپر جن پھلوں کا ذکر ہوا ہے محض مثال کے طور پر ہوا ہے۔ دوسرے بہت سے پھل بھی ہوں گے اور ان کا حال بھی اس دنیا کے پھلوں سے بالکل مختلف ہوگا۔ اس دنیا کا حال تو یہ ہے کہ ایک خاص وقت پر درخت کے پھل توڑ لیے جاتے ہیں یا از خود ختم ہوجاتے ہیں لیکن وہاں کے درخت سدا بہار ہوں گے ان کے پھل کبھی منقطع نہیں ہوں گے۔ اسی طرح اس دنیا کے باغوں کو یہ افتاد بھی پیش آتی ہے کہ ایک سال پھل آئے، دوسرے سال نہیں آئے یا بہت کم آئے۔ وہاں کے درختوں کو یہ آفت بھی کبھی پیش نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کو بار آوری سے کبھی محروم نہیں فرمائے گا۔
Top