Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 187
اُحِلَّ لَكُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمْ١ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ١ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَیْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ١ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْهُنَّ وَ ابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ١۪ وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ١۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِ١ۚ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِی الْمَسٰجِدِ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ
اُحِلَّ : جائز کردیا گیا لَكُمْ : تمہارے لیے لَيْلَةَ : رات الصِّيَامِ : روزہ الرَّفَثُ : بےپردہ ہونا اِلٰى : طرف (سے) نِسَآئِكُمْ : اپنی عورتوں سے بےپردہ ہونا ھُنَّ : وہ لِبَاسٌ : لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاَنْتُمْ : اور تم لِبَاسٌ : لباس لَّهُنَّ : ان کے لیے عَلِمَ : جان لیا اللّٰهُ : اللہ اَنَّكُمْ : کہ تم كُنْتُمْ : تم تھے تَخْتَانُوْنَ : خیانت کرتے اَنْفُسَكُمْ : اپنے تئیں فَتَابَ : سو معاف کردیا عَلَيْكُمْ : تم کو وَعَفَا : اور در گزر کی عَنْكُمْ : تم سے فَالْئٰنَ : پس اب بَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَابْتَغُوْا : اور طلب کرو مَا كَتَبَ : جو لکھ دیا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَكُلُوْا : اور کھاؤ وَاشْرَبُوْا : اور پیو حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : واضح ہوجائے لَكُمُ : تمہارے لیے الْخَيْطُ : دھاری الْاَبْيَضُ : سفید مِنَ : سے لْخَيْطِ : دھاری الْاَسْوَدِ : سیاہ مِنَ : سے الْفَجْرِ : فجر ثُمَّ : پھر اَتِمُّوا : تم پورا کرو الصِّيَامَ : روزہ اِلَى : تک الَّيْلِ : رات وَلَا : اور نہ تُبَاشِرُوْھُنَّ : ان سے ملو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم عٰكِفُوْنَ : اعتکاف کرنیوالے فِي الْمَسٰجِدِ : مسجدوں میں تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ : حدیں اللّٰهِ : اللہ فَلَا : پس نہ تَقْرَبُوْھَا : اس کے قریب جاؤ كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اٰيٰتِهٖ : اپنے حکم لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجائیں
تمہارے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا جائز کیا گیا۔ وہ تمہارے لیے بمنزلہ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلہ لباس ہو۔ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اس نے تم پر عنایت کی اور تم سے درگزر فرمایا تو اب تم ان سے ملو اور اللہ نے تمہارے لیے جو مقدر کر رکھا ہے اس کے طالب بنو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری شب کی سیاہ دھاری سے نمایاں ہوجائے۔ پھر رات تک روزہ پورا کرو اور جب تم مسجد میں اعتکاف میں ہو تو بیویوں سے نہ ملو۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں تو ان کے پاس نہ پھٹکنا۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے لیے واضح کرتا ہے تاکہ وہ تقوی اختیار کریں۔
روزے سے متعلق سوالات کے جوابات : اوپر کی تمہید کے بعد اب یہ ان سوالات کا جواب ہے جو روزے کے احکام و آداب سے متعلق اس وقت لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوئے۔ اس کے آخر میں كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ کے الفاظ اس بات کے شاہد ہیں کہ یہ آیت اصل حکم کے نزول کے کچھ عرصہ بعد توضیح و تبیین کے طور پر نازل ہوئی۔ جو لوگ قرآن مجید کے انداز بیان سے آشنا ہیں وہ جان سکتے ہیں کہ قرآن میں جب کسی حکم کے بعد اس کی کوئی مزید توضیح و تفصیل نازل ہوئی ہے تو اس کے ساتھ بالعموم یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں جن سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حکم بعد میں بطور وضاحت نازل ہوا ہے۔ یہ قرآن سے متعلق اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی تکمیل ہے جس کا ذکر سورة قیامہ میں ہوا ہے کہ " ثم ان علینا بیانہ " پھر ہمارے ذمہ ہے اس کی وضاحت کرنا۔ اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ : رَفَثَ کے اصل معنی تو شہوانی باتوں کے ہیں لیکن یہاں اس کے بعد اِلیٰ کا صلہ اس کے اندر بیویوں سے اختلاط و ملاقات کا مضمون پیدا کردیتا ہے۔ اس کے جائز کردینے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلے یہ چیز حرام ٹھہرائی گئی تھی بعد میں یہ جائز کردی تئی۔ یہ بات نہیں ہے۔ بلکہ ابتدائی حکم میں اس قسم کی کوئی وضاحت چونکہ موجود نہیں تھی اس وجہ سے بہت سے مسلمانوں نے بنظر احتیاط وتقوی یہ سمجھا کہ جس طرح روزے کی حالت میں، دن میں زن و شو کے تعلقات کی اجازت نہیں ہے اسی طرح شب میں بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت پہنچی ہوگی کہ یہود کے ہاں روزہ افطار کے بعد معاً پھر شروع ہوجاتا تھا جس کے سبب سے انہیں شب میں بھی وہ پابندیاں نباہنی پڑتی تھیں جو دن میں تھیں۔ چونکہ مسلمانوں کے سامنے عملی مثال کی حیثیت سے اہل کتاب ہی کا روزہ تھا اور قرآن میں اس کا حوالہ بھی دیا گیا تھا اس وجہ سے انہوں نے از خود اپنے اوپر یہ پابندی عائد کرلی کہ دن کی طرح شب میں بھی ازدواجی تعلقات سے احتراز کرتے تھے لیکن اس معاملہ میں چونکہ اب تک کوئی واضح ہدایت نہیں تھی اس وجہ سے اس کی نوعیت ایک مشتبہ معاملہ کی تھی۔ اس اشتباہ کے سبب سے بعض لوگ نفس کی اکساہٹ کے باعث کبھی کبھی اس چیز کے مرتکب بھی ہوجاتے جو خود ان کے ضمیر کے نزدیک مشتبہ ہوتی۔ مشتبہ معاملات میں شریعت کی ہدایت، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے، یہ ہے کہ " دع ما یریبک الی ما لا یریبک " مشتبہ کو چھوڑ کر آدمی اس پہلو کو اختیار کرے جو غیر مشتبہ ہو، اگر اس کے برعکس آدمی مشتبہ پہلو کو اختیار کرے تو یہ خود اپنے نفس کے ساتھ ایک قسم کی خیانت ہوتی ہے اس وجہ سے قرآن نے اس اس کو اپنے نفس کے ساتھ خیانت سے تعبیر فرمایا لیکن چونکہ یہ احتیاط شریعت کے منشا کے خلاف تھی محتاط مسلمانوں نے ازخود اپنے اوپر عائد کرلی تھی، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس خیانت سے درگزر فرمایا اور واضح الفاظ میں شب میں بیویوں سے ازداوجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ : وہ تمہارے یے بمنزلہ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلہ لباس ہو۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ جس نوعیت کی وابستگی رکھتے ہیں، یہ اس کی طرف اشارہ ہے اور مقصود اس اشارے سے یہ بتانا ہے کہ ان دونوں میں ایسا چولی دامن کا رشتہ ہے اور یہ باہم دگر ایسے فطری تقاضوں کے بندھن میں میں بندھے ہوئے ہیں کہ ان کو کسی حالت میں بھی ایک دوسرے سے الگ الگ رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس وجہ سے دین فطرت نے ان کے باہمی تعلق پر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی ہے جو فطری داعیات کے درمیان کوئی دیوار کھڑی کردے۔ اگر کوئی محدود قسم کی پابندی خاص خاص حالات میں عائد بھی کی گئی ہے تو وہ صرف تربیت نفس کی ضرورت کی حد تک ہے، ذرا بھی اس سے متجاوز نہیں ہے۔۔ میاں اور بیوی کے لیے لباس کا استعارہ ایک نہایت بلیغ استعارہ ہے۔ اس کے بعض پہلوٓں کی طرف ہم یہاں اشارہ کریں گے۔۔ لباس کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کے جسم کے لیے ساتر ہوتا ہے۔ اس سے اس کے عیوب برہنگی کو پردہ پوشی نصیب ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو تو آدمی ننگا ہو کر حیوانات کے درجے میں آجائے۔ ٹھیک اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے جسنی جذبات و داعیات کے لیے پردہ فراہم کرتے ہیں۔ ان کے اندر جو صنفی میلانات ابھرتے ہیں وہ ان کی تسکین اور آسودگی کے لیے خود اپنے اندر سامان رکھتے ہیں اس وجہ سے کبھی ان کے عریاں اور بےنقاب ہونے کی نوبت نہیں آتی۔ اگر یہ نہ ہو تو جذبات کا ہیجان جنسی انارکی کا ایک ایسا طوفان برپا کردے کہ کوئی چیز بھی ڈھکی چھپی نہ رہ جائے۔ جسم کے جو حصے اپنے اندر جنسی کشش رکھتے ہیں وہ عریاں ہونے کے لیے زور لگائیں، زبان اور قلم پر فحاشی کا بخار و ہذیان طاری ہوجائے، دل ہرزہ گرد اور نگاہ بالکل آوارہ ہو کر رہ جائے۔ ہمارے نفس کے ان سارے عیوب کی پردہ پوشی اگر ہوسکتی ہے تو صرف بیوی کے لیے شوہر کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے اور شوہر کے لیے بیوی کے ذریعہ سے۔ اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے نگاہ کو باحیا بنانے کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز نکاح کو قرار دیا ہے۔ حیا کے متعلق معلوم ہے کہ وہ خود ایک باطنی لباس ہے بلکہ سچ پوچھیے تو اصلی لباس یہی ہے، باطن کا یہی لباس ہے جس کے سبب سے ہم ظاہر کے لباس کو اختیار کرتے ہیں اور حیا قائم رکھنے میں جو مدد شوہر کو بیوی سے اور بیوی کو شوہر سے ملتی ہے وہ کسی چیز سے بھی نہیں ملتی۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ زینت ہے۔ یہ درجہ ستر پوشی کے بعد کا ہے۔ انسان لباس کے ذریعہ سے آرائش، حسن و جمال اور تہذیب و سلیقہ سے اپنے آپ کو آراستہ کرتا ہے اور تمدن و ترقی کے میدان میں قدم رکھتا ہے۔ غور کیجیے تو یہی چیز اس سے بلند تر درجے میں عورت کو مرد سے اور مرد کو عورت سے حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے علمائے عمرانیات کہتے ہیں کہ انسان نے تہذیب و تمدن کا پہلا قدم اسی دن اٹھایا جس دن پہلے مرد نے پہلی عورت سے اپنا تعلق استوار کیا۔ یہ بات اپنے اندر ایک بہت بڑی حقیقت رکھتی ہے۔۔ یہ واقعہ ہے کہ مرد کے اندر گھر کی خواہش، تجمل و تزین کا جذبہ، حصولِ مال و جائداد کا ولولہ اصلاً عورت کے تعلق ہی سے پیدا ہوا، بعد میں دوسرے عوامل کی شرکت سے اس میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح عورت کی زینت و آرائش، اس کے سگھڑ پن اور سلیقہ اور اس کی گھرداری کے جوش و انہماک میں اصلی دخل مرد کی تسخیر کی خواہش کو ہے۔ عورت اور مرد میں سے کوئی بھی اگر اپنے اس فطری محرک سے محروم ہوجائے تو ان کے تمام مذکورہ جذبات سرد پڑجاتے ہیں۔ مرد اگر بیوی سے محروم ہو تو ایک مسافر بلکہ کچھ خانہ بدوش سا بن کے رہ جاتا ہے، اسی طرح عورت اگر شوہر سے جدا یا اس سے مھروم ہو تو اس کے سارے احساسات مردہ اور اس کے سارے اسلحہ زنگ آلود اور کند ہو کے رہ جاتے ہیں۔ یہ مرد اور عورت کا باہمی ارتباط وتعلق ہی ہے جس کے صدقے میں گھریلو زندگی کی وہ تمام رونقیں اور بہاریں ہمیں نصیب ہوتی ہیں جن سے دنیا میں تہذیب و تمدن پروان چڑھے ہیں۔ لباس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ وہ سردی اور گرمی کی سختیوں اور دشمن کے بہت سے خطرات سے آدمی کو محفوظ رکھتا ہے۔ چناچہ قرآن میں ارشاد ہے " وعلمناہ صنعۃ لبوس لکم لتحصنکم من باسکم : اور ہم نے اس کو ایسے لباسوں کی صنعت سکھائی جو تمہیں حملہ سے محفوظ رکھے "۔ اخلاق پہلو سے ٹھیک یہی حال عورت کا مرد کے لیے اور مرد کا عورت کے لیے ہے۔ عورت مرد کے لیے زرہ اور بکتر ہے اور مرد عورت کے لیے زرہ اور بکتر ہے۔ جب یہ دونوں اپنے اپنے زرہ اور بکتر سے آراستہ اور مسلح ہوں تو شیطان کے حملے ان میں سے کسی پر بھی کارگر نہیں ہوتے اور اگر وہ اس لباس سے عاری ہو توں دونوں ہی کے لیے شیطان سے مار کھاجانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ایک عارف کا قول ہے کہ بیوی کو سفر و حضر میں گلے کا تعویذ بنآ تاکہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رہو۔۔ لباس کے یہ تینوں مقصد قرآن پاک میں مذکور ہوئے ہیں اور ان تینوں ہی اعتبارات سے عورت مرد کے لیے اور مرد عورت کے لیے لباس کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وجہ سے اسلام نے، جو دین فطرت ہے، ان کے تعلق کی اس فطری اہمیت کو ملحوظ رکھا ہے اور اس کو نہ صرف یہ کہ تقوی کے خلاف نہیں قرار دیا بلکہ، جیسا کہ اوپر کی تفصیل سے معلوم ہوا ہے، اس کو مختلف اعتبارات سے تقوی کا معاون قرار دیا ہے۔ چناچہ شروع شروع میں مسلمانوں نے غلط فہمی کے سبب سے، یا اہل کتاب کے طریقہ سے متاثر ہو کر، اپنے اوپر اس سلسلہ میں جو پابندی عائد کرلی تھی اس آیت کے ذریعہ سے وہ دور فرما دی گئی۔ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ : یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بعض لوگوں نے یہ گمان رکھتے ہوئے کہ رمضان میں دن کی طرح راتوں میں بھی ازدواجی تعلقات جائز نہیں ہیں، اس کی خلاف ورزی کی، اس چیز کو قرآن نے اپنے نفس کے ساتھ خیانت سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے کہ مشتبہ معاملات میں آدمی کو ہو پہلو اختیار کرنا چاہیے جس میں احتیاط ہو اور پھر اسی کا التزام کرنا چاہیے۔ اگر وہ اس کی خلاف ورزی کرے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو چیز اس کے اجتہاد یا گمان میں حکم شریعت ہے (اگرچہ وہ فی الواقع شریعت کا حکم نہ ہو) اس نے اس کی خلاف ورزی کی اور یہ چیز واضح طور پر اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت ہے۔ ہمارے نزدیک یہیں سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ مجتہد کو اپنے اجتہاد پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر ایک چیز اس کے اجتہاد کی رو سے صحیح ہے تو پھر اس کی خلاف ورزی اس کے لیے درست نہیں ہے الا آنکہ دین ہی اس کے لیے متقاضی ہو۔ مگر یہ پابندی چونکہ منشائے الٰہی کے خلاف تھی اس وجہ سے اس خیانت پر اللہ تعالیٰ نے گرفت تو فرمائی لیکن ساتھ ہی معاف بھی فرما دی اور آئندہ کے لیے واضح الفاظ میں بیویوں سے ملاقات کی اجازت دے دی۔ " وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ : اور اللہ نے جو کچھ تمہارے لیے مقدر کر رکھا ہے اس کے طالب بنو " یعنی اولاد جو ازدواجی زندگی کا اصل مقصد ہے اس کے طالب بنو۔ اور یہ یاد رکھو کہ اس چیز کا تمام تر انحصار تقیدر الٰہی پر ہے نہ کہ تمہارے اختیار یا اللہ کے سوا کسی اور کے تصرف پر۔ اس چیز کا حوالہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی اصل غایت صرف لذت نہیں ہے بلکہ بقائے نسل ہے جو عین منشائے الٰہی ہے۔ اگر آدمی صرف لذت کے درپے ہو تب تو اس کا چھاپ انسان پر برا پڑ سکتا ہے لیکن اگر نگاہ اصلی غایت پر ہو تو یہ بھی عبادت ہی میں داخل ہے۔ اس زمانے میں ضبط ولادت کی تحریف اس کے بالکل برعکس ازدواجی زندگی کے اصل مقصد کی بیخ کنی کر رہی ہے اور لذت کو اصل مقصد کی اہمیت دے رہی ہے۔۔ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ : کھاؤ پیو یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی سیاہ دھاری سے نمایاں ہوجائے۔ یہ چیز ہمارے روزوں کو اہل کتاب کے روزوں سے بالکل الگ کردیتی ہے۔ ان کے ہاں رات کو اٹھ کر کھانے پینے یا ازداوجی تعلقات کی اجازت نہیں تھی۔ اسلام نے نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت دی بلکہ اس کی تاکید کی ہے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ کھانے پینے کی یہ اجازت صبح صادق کے اچھی طرح نمایاں ہوجانے تک ہے، اسی بات کی تائید احادیث اور صحابہ کے عمل سے بھی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے محض احتیاط میں غلو کے سبب سے اپنے یا دوسروں کے روزے محض معمولی تقدیم و تاخیر پر مشتبہ قرار دے بیٹھنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ قرآن کے یہ الفاظ اس قدر واضح ہیں کہ تعجب ہوتا ہے کہ صحابہ کے دور میں ان کا مفہوم سمجھنے میں بعض لوگوں کو زحمت کیوں پیش آئی ؟ عدی بن حاتم ؓ کی روایت، جو تفسیر کی کتابوں میں نقل ہے کہ انہوں نے فجر کو پہچاننے کے لیے دو سیاہ وسفید دھاگے باندھ لیے اگر پوری طرح قابل اعتماد ہے تو اس کو محض ان کی اس شدت احتیاط پر محمول کرنا چاہیے جو نئے نئے اسلام لانے والوں میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ اس طرح کی باتوں کو صحابہ کی فہم و بصیرت پر طعن کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے۔ وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ۭ۔ عَکَفَ کے اصل معنی اپنے آپ کو کسی چیز سے روک لینے یا کسی چیز پر جما دینے کے ہیں۔ اصطلاح دین میں اس سے مراد ہر چیز سے الگ ہو کر یاد الٰہی کے لیے گوشہ نشین ہوجانا ہے۔ اسی چیز کو اعتکاف کہتے ہیں۔ قرآن کے الفاط سے واضح ہے کہ رمضان کے مہینے اور مسجد سے اس عبادت کو خاص مناسبتے ہے۔ چناچہ نبی ﷺ کے عمل اور آپ کے ارشادات سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ اعتکاف سے مقصود چونکہ تبتل الی اللہ ہے اور اس میں دل کی کامل یکسوئی مطلوب ہے، نیز مسجد کا قیام اس کے لوازم میں سے ہے اس وجہ سے اس کے دوران میں بیویوں سے زن و شو کا تعلق قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا سے مراد یہ ہے کہ اللہ نفس کی آزادی کے یے جو حدیں مقرر کردیں ہیں ان کی پوری احتیاط سے نگرانی کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ اپنے آپ کو ان سے بچائے رکھنے کے لیے ذرا ان سے دور ہی دور رہنا چاہیے۔ اس لیے کہ جو جانور کسی چراگاہ کے بالکل پاس پاس چرتا ہے اس کے متعلق بڑا اندیشہ ہے کہ وہ چراگاہ کے اندر جا بڑھے۔ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ۔ ہم اوپر یہ اشارہ کرچکے ہیں کہ جب کسی حکم کے نزول کے بعد لوگوں کے سوال پر یا محض حالات کے اقتضا کے تحت اس حکم ہی کے متعلق کچھ مزید تفصیل نازل ہوئی ہے تو اس کے بعد بالعموم یہ آیت آئی ہے۔ اسی سورة میں اس کی بعض مثالیں آگے آرہی ہیں اس وجہ سے ہم یہاں اس کے نظائر پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتے۔ اس قسم کی تفصیلات سے چونکہ تقوی کے طالبوں کے لیے تقوی کی مزید راہیں کھلتی ہیں اس وجہ سے فرمایا کہ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ ، تاکہ وہ تقوی اختیار کریں۔ روزے کا اثر انسان کی صلاحیت کار پر : اس زمانہ میں جو لوگ مغرب کے مادہ پرسانہ فلسلفہ زندگی کے سے متاثر ہیں وہ روزے کے خلاف یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اس سے انسان کی صلاحیت کار اور اس کی قوت کارکردگی بہت کم ہوجاتی ہے جس سے فرد اور معاشرہ دونوں کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اعتراض کرنے والے دو بنیادی حقیقتیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان لوگوں کی نظر میں انسان کی جو کچھ قدر و قیمت ہے وہ محض اس کے ادی وجود کی ہے۔ اس کے روحانی وجود کی ان کی نگاہوں میں کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ ان کے نزدیک جس طرح ایک فربہ بیل زیادہ ہل چلا سکتا ہے اسی طرح ایک آسودہ اور پیٹ بھرا آدمی زیادہ کام کرسکتا ہے۔ یہ لوگ سیدنا مسیح کی اس حکمت سے بالکل نا آشنا ہیں کہ " آدمی صرف روٹی سے نہیں جیتا بلکہ اس کلمہ سے جیتا جو خداوند کی طرف سے آتا ہے " اسی طرح یہ لوگ اس حقیقت سے بھی بالکل بےبہرہ ہیں جس کی طرف ہمارے نبی کریم ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے انی ابیت، لی مطعم یطعمنی وساق یسقینی، میں اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا مجھے پلاتا ہے۔ انسان اگر صرف گوشت پوست کا مجموعہ ہے تب تو بلاشبہ ان معترضین کے اعتراض کے اندر کچھ وزن ہے لیکن اگر انسان کے اندر روح نامی کوئی شے بھی ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کی تازگی و توانائی کے لیے بھی کوئی غذا اور تدبیر ضروری ہے یا نہیں ؟ اگر ضروری ہے تو کیا یہی دود مکھن، جن سے ہمارے جسم کی پرورش ہوتی ہے، اس کے لیے بھی کافی ہیں یا اس کے لیے کسی اور تدبیر و غذا کی ضرورت ہے ؟ مذہب اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ انسان کے اندر روح کا جوہر ارضی نہیں بلکہ آسمانی اور خدائی ہے اس وجہ سے اس کی غذا اس زمین سے نہیں بلکہ خدا کے تعلق وتوصل اور اس کے کلام والہام سے حاصل ہوتی ہے اور اس کا تعلق خدا سے قریب تر اور قوی تر اس وقت ہوتا ہے جب یہ جسم کے (جو اس کے لیے صرف ایک مرکب کی حیثیت رکھتا ہے) تقاضوں، اس کی خواہشات اور اس کے جذبات و میلانات سے فی الجملہ آزاد ہوتی ہے۔ جب تک یہ انہی سفلی پابندیوں میں گرفتار رہتی ہے اس وقت تک یہ ان بلندیوں میں پرواز نہیں کرسکتی جو اس کی فطرت کے لحاظ سے اس کی اصلی جو لانگاہ ہیں اور جن میں پرواز کرنے ہی سے اس کے وہ شاہینی کارنامے ظہور میں آتے ہیں جو اس کی فطرت کے اندر و دیعت ہیں۔ روزہ روح کو یہ آزادی دلانے کا سب سے زیادہ مٓثر ذریعہ ہے۔ اس سے انسان کے نفس کی جو تربیت ہوتی ہے اس کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو یہ ہے کہ روح پر خواہشات و شہوات کا غلبہ کمزور ہوجاتا ہے، انسان کی قوت ضبط اور اس کی قوت ارادی مضبوط ہوجاتی ہے اور اس طرح اس کے اندر یہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ ایک فرمانبردار غلام کی طرح ہاتھ باندھے ہوئے اپنی خواہشوں کے پیچھے پیچھے چلے وہ ایک صاحب عزم و ایمان کی طرح اپنی خواہشات جذبات کو اپنے رب کی رضا اور اس کے احکام کے پیچھے لگا دیتا ہے۔ غور کیجیے تو یہیں سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگی کہ انان کے اندر قوت اور طاقت کا اصلی خزانہ اس کے جسم کے اندر نہیں بلکہ اس کے دل اور اس کی روح کے اندر ہے۔ اگر دل کمزور اور روح پراگندہ ہو تو نہایت راحت و تنعم میں پلے ہوئے جسموں کا حال یہ ہوتا ہے کہ گویا وہ لکڑی کے کندے ہیں جن کو خوب صورت پوشاک پہنا کر کھڑا کردیا گیا ہے۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو " خشب مسندۃ " کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور ان کے خوف و بزدلی کی تصویر اس طرح کھینچی ہے کہ " یحسبون کل صیحۃ علیہم " دنیا کے کسی گوشہ میں بھی کوئی خطرہ نمودار ہو، ان کے دل دھڑکنے لگتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ بجلی ہمارے ہی خرمن پر گرنے والی ہے۔ برعکس اس کے جن کی روح بیدار، جن کے دل پر عزم اور جن کے حوصلے بلند ہوتے ہیں وہ نان جویں پر گزارہ کر کے بھی بازوئے حیدر کے کارنامے دکھاتے ہیں۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن نے اشارہ فرمایا ہے " کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ " کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں۔ اور اسی چیز کی طرف شاعر نے بھی اشارہ کیا ہے۔ مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے۔ کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے۔۔ دوسری حقیقت جس سے یہ معترضین غفت برت رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کسی چیز کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ اس کے وقتی اثرات و نتائج سے نہیں لگایا جاتا ہے بلکہ اس مستقل اور پائیدار اثر سے اس کا اندازہ کیا جاتا ہے جو زندگی پر اس کا پڑتا ہے یا متوقع ہوتا ہے بشرطیکہ صحیح طور پر اس کو برتا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک دوا تقویتِ قلب و دماغ کے لیے نہایت مفید و مجرب ہو، اس کے اثرات نہایت پائیدار مترتب ہوتے ہوں، لیکن فوری طور پر اس کا رد عمل سستی یا اعضا شکنی یا خمار کی صورت میں نمایاں ہوتا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس دوا کے اس فوری اثر کو دلیل قرار دے کر اس کو ایک مضر یا بےقیمت دوا قرار دے دینا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔ ٹھیک یہی حال روزے کا ہے۔ اس کا فوری اثر، خاص طور پر خام اور نومشق لوگوں پر، تو ضرور کسل اور اضمحلال کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے جس سے وقتی طور پر ان کی صلاحیت کار بھی متاثر ہوتی ہے لیکن دیکھنے کی چیز اس کا یہ وقتی اثر نہیں ہے بلکہ وہ پائیدار اثر ہے جو انسان کے ظاہر و باطن پر (بشرطیکہ اس کو ٹھیک ٹھیک برتا جائے) ، اس کا مترتب ہوتا ہے۔۔ روزے کے لیے عربی میں، جیسا کہ آپ اوپر پڑھ آئے ہیں، صوم کا لفظ ہے۔ اس لفظ کی لغوی تحقیق کے سلسلہ میں ہم بیان کر آئے ہیں کہ ابتدا$ً یہ لفظ ان گھوڑوں کے لیے استعمال ہوا جن کو جوانی پر آنے کے بعد، جنگ کے لیے تیار کیا جاتا اور اس تیاری کے لیے بتدریج ان کا چارہ اور دانہ کم کیا جاتا تاکہ ان کا بدن بھاگ دوڑ کے لیے سبک نکل آئے اور وہ میدانِ جنگ کی سختیوں اور بھوک پیاس کی مشقتوں کو برداشت کرنے کے لیے اچھی طرح قابل ہوجائیں۔ ظاہر ہے کہ گھوڑوں پر یہ عمل اس لیے نہیں کیا جاتا تھا کہ اس سے ان کی قوت کارکردگی کم ہوجائے بلکہ مقصود اس سے ان کی قوت کارکردگی کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا ہوتا تھا تاکہ وہ اپنے مقصد تخلیق کے لیے پوری طرح کار آمد ہوجائیں۔ ایک پلے ہوئے گھوڑے پر اگرچہ اس ٹریننگ کا فوری اثر اچھا نہیں پڑتا، وہ کمزور لاغر ہوجاتا ہے، لیکن ٹریننگ دینے والے اس کے اس پائیدار اثر کو نگاہ میں رکھتے ہیں جو گھوڑے کو ہر سختی و نرمی کے برداشت کے قابل بنا دیتا ہے اور جس سے وہ تھان پر بندھے ہوئے ایک پر خور جانور کے بجائے میدان جنگ کا ایک سخت کوش اور جاں باز سپاہی بن جاتا ہے۔ یہی صوم (روزہ) جو مذہب نے انسانوں کی ظاہری و باطنی تربیت کے لیے تجویز فرمایا ہے اور مقصود اس سے ان کی صلاحیت کار کو ضعیف کرنا نہیں ہے بلکہ اس صلاحیت کار کو صبر اور تقوی کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ مستحکم کردینا ہے تاکہ انسان حق کی مخالف طاقتوں کے مقابل میں، خواہ یہ طاقتیں شیطانی ہوں یا انسانی، جہاد کا اہل ہو سکے۔ قرآن اور حدیث پر نگاہ رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ روزے کے بنیادی مقصد دو بیان کیے گئے ہیں۔ تقوی اور صبر، تقوی یہ ہے کہ آدمی زندگی کے ہر مرحلہ میں اور ہر قسم کے حالات میں اپنے نفس کو حدود الٰہی کا پابند رکھے۔ صبر یہ ہے کہ اس راہ میں خارج سے یا اس کے اپنے باطن سے جو مشکلات و موانع بھی سر اٹھائیں ان کا پورے عزم و جزم کے ساتھ مقابلہ کرے اور ان کے آگے سپر انداز نہ ہو۔ یہ جہاد زندگی بھر کا جہاد ہے۔ رمضان کے مہینہ میں ہر مسلمان اسی جہاد کی ٹریننگ کا فوری اثر اضمحلال اور ضعف کی شکل میں ظاہر ہوتا ہو۔ لیکن دیکھنے کی چیز یہ فوری اثر نہیں بلکہ اس کا مستقل اثر ہے۔ اس کا مستقل اثر یقیناً ، اس کو صحیح طور پر برتنے کی شکل میں، یہی ہونا چاہیے کہ انسان کی بلادت کم ہو، اس کی روح قوی ہو، اس کا دل توانا ہو، اس کی قوت ارادی مضبوط ہو، اس کی قوت برداشت بڑھ جائے، وہ جہادِ زندگانی اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے پوری طرح تیار ہوجائے۔ غور کیجیے کہ یہ انسان کی صلاحیت کار کا گھٹنا ہے یا بڑھنا، ہمارے نزدیک تو جن کے اندر یہ صفات ہوں وہی درحقیقت انسانیت کے گل سرسبد ہیں۔ جن میں یہ صفات نہیں وہ آدمی نہیں بلکہ گاؤ پر داری ہیں۔ اگلی آیت 188 کا مضمون : اوپر ہم یہ اشارہ کر آئے ہیں کہ روزے کے حکم سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی عزیزوں اور رشتہ داروں کے حقوق اور دوسروں کے اموال و املاک غصب کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ اس سے شریعت کے نظام میں روزے کا مقام واضح ہوتا ہے کہ اس عبادت کا اصل مقصود حرص و طمع، بخل اور لالچ اور اس قبیل کی دوسری بیماریوں پر قابو پانا ہے۔ ان پر قابو پانے ہی سے انسان کے اندر وہ تقوی پیدا ہوتا ہے جو حقوق و معاملات میں اس کو عدل پسند اور محتاط بناتا ہے۔ گویا جن چیزوں سے بچتے رہنے کی ہدایت کی، ان سے نفس کو بچانے میں جو تدبیر سب سے زیادہ کار گر ہوسکتی ہے اس کی طرف بھی رہنمائی فرما دی۔ نیز غور کیجیے تو یہ حقیقت بھی واضح ہوگی کہ روزے کے بیان سے پہلے تو حق داروں کے لیے وصیت کرنے کی، اس وصیت میں عدل و انصاف اور پھر اس وصیت کے، ایمان داری کے ساتھ، اجراء و نفاذ کی ہدایت کی، اور روزے کے بیان کے بعد رشوت کے ذریعہ سے حکام کو خریدنے اور اس چیز کو دوسرے کے حقوق کے غصب کا ذریعہ بنانے کی ممانعت فرمائی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح ایمان باللہ کی ساری قدر و قیمت اسی وقت تک ہے جب تک وہ شرک کی ملاوٹ سے پاک ہے، جہاں اس میں شرک ملا زندگی کے لیے اس کی ساری افادیت ختم ہوئی۔ اسی طرح قانون کی ساری افادیت اسی وقت تک ہے جب تک قانون کے نفاذ کے لیے دیانت دار حکام موجود ہیں اور معاشرہ رشوت کی بیماری سے پاک ہے، جہاں رشوت معاشرے میں رواج پائی بس قانون کی افادیت کا جنازہ نکلا۔ اس وضاحت کی روشنی میں غور کیجیے تو نظر آئے گا کہ گویا ایک ہی حکم کے دو پہلو یہاں مذکور ہوئے۔ ایک کا ذکر روزے سے پہلے کیا، دوسرے کا بعد میں اور روزے کا ذکر دونوں کے بیچ میں رکھ دیا تاکہ نظم کلام ہی سے یہ بات واضح ہوجائے کہ جو شخص اپنے آپ کو ان مطامع اور ان خواہشات پر غالب کرنا چاہتا ہے وہ اپنے نفس کی تربیت روزے سے کر کے یہ چڑھائی چڑھ سکتا ہے۔ اس روشنی میں اب آگے کی آیت تلاوت فرمائیے۔
Top