Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 186
وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ١ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ
وَاِذَا : اور جب سَاَلَكَ : آپ سے پوچھیں عِبَادِيْ : میرے بندے عَنِّىْ : میرے متعلق فَاِنِّىْ : تو میں قَرِيْبٌ : قریب اُجِيْبُ : میں قبول کرتا ہوں دَعْوَةَ : دعا الدَّاعِ : پکارنے والا اِذَا : جب دَعَانِ : مجھ سے مانگے ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا : پس چاہیے حکم مانیں لِيْ : میرا وَلْيُؤْمِنُوْا : اور ایمان لائیں بِيْ : مجھ پر لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَرْشُدُوْنَ : وہ ہدایت پائیں
اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے تو چاہیے کہ وہ میرے حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔
شبہات اور مشکلات میں خدا کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت : یہ آیت تمہید ہے ان سوالوں کے جوابات کی جو روزے کے حکم کے نزول کے بعد ماہ رمضان کے احترام اور روزے کے احکام و آداب سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں ابھرے یا ان کی زبانوں پر آئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی وضاحت فرمائی۔ ایسے لوگوں کو قرآن نے یہ ہدایت فرمائی کہ اپنے اس قسم کے شبہات و اعتراضات کو خدا اور اس کی شریعت کی مخالفت یا اس کی تنقید و تضحیک کا ذریعہ نہ بنا لیں بلکہ ان میں رہنمائی کی طلب کے لیے خدا ہی کی طرف رجوع کریں۔ جو آدمی اخلاص و صداقت کے ساتھ اپنی کسی حقیقی ضرورت کے لیے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے خدا اس کی طلب ضرور پوری کرتا ہے، عام اس سے کہ وہ ضرورت اس کی معاش سے متعلق ہو یا معاد سے، ذہنی و عقلی الجھنوں سے متعلق ہو یا شریعت اور اس کے احکام کے فوائد و مصالح سے۔۔ منافقین کا حال یہ تھا کہ جہاں کہیں ان کو دین کی کسی بات میں کوئی مشکل محسوس ہوئی وہ اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے بجائے اس بات کو اعتراض و استہزاء کا نشانہ بنا لیتے اور مسلمانوں کے اندر وسوسہ اندازی اور فتنہ انگیزی کی ایک مہم شروع کردیتے۔ قرآن میں ان کی اس خصلت کا ذکر جگہ جگہ ہوا ہے۔ خاص طور پر سورة مجادلہ میں اس کے بعض نہایت اہم پہلو واضح ہوئے ہیں۔ اہل ایمان کی پسندیدہ روش قرآن نے یہ بتائی کہ وہ اپنی مشکلات کے لیے خدا اور رسول کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور فرما دیتا ہے۔ یہ تمہید ایک جامع تمہید ہے جو مختلف مواقع کے ساتھ مناسبت رکھنے والی ہے لیکن یہاں اس کا تعلق، جیسا کہ ذکر کیا گیا، خاص طور پر ماہ رمضان اور اس کے روزوں کے باب میں چند سوالوں کے جواب سے ہے۔ یہ سوالات مسلمانوں کے اندر جب پیدا ہوئے تو قرآن نے اس کی وضاحت فرمائی اور ساتھ ہی ان کی حوصلہ افزائی کی کہ جب خدا اور اس کی شریعت سے متعلق کوئی سوال پیدا ہو تو اس کے لیے خدا ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے، خدا سب سے قریب ہے اور وہ سب کی مشکلات حل فرماتا ہے۔ وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ۔ " میرے متعلق سوال " سے مراد ضروری نہیں کہ خدا کی ذات وصفات ہی سے متعلق سوال ہو بلکہ یہ سوال اس کی ذات وصفات، اس کی پسند و ناپسند اور اس کے احکام و شرائع سب ہی پر مشتمل ہوسکتا ہے۔ یہاں موقع کلام دلیل ہے کہ سوال کا تعلق ان احکام سے ہے جو ماہ رمضان اور روزوں کے آداب و شرائط سے متعلق اصل حکم کے نزول کے بعد پیدا ہوئے۔ قرآن کے تدبر سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اس میں سائلوں کے سوالات نہایت اجمال کے ساتھ نقل ہوتے ہیں، سوال کی اصلی نوعیت اس جواب سے واضح ہوتی ہے جو اس کے بعد قرآن دیتا ہے۔ سوال کے اجمال کے ساتھ نقل کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کلام غیر ضروری طوالت سے محفوظ رہے، دوسری یہ کہ اکثر سوالوں کے جواب میں قرآن کی وضاحت صرف سوالوں ہی تک محدود نہیں رہی بلکہ جب اس کا ابر کرم برسا ہے تو اس نے خشک و تر سب ہی کو سیراب کردیا ہے۔ جواب کی اس وسعت و ہمہ گیری کا تقاضا یہ ہوا کہ سوال مبہم شکل میں نقل کیا جائے تاکہ سوال اور جواب میں عدم مطابقت نمایاں نہ ہو۔ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کے لیے موزوں مواقع آگے آئیں گے اس وجہ سے یہاں ہم صرف اشارہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ایک حقیقت کا اظہار ہے۔ اس لیے کہ خدا سے قرب و بعد کا انحصار بندے کے اپنے دل کی حالت پر ہے۔ اگر بندہ خدا سے غافل اور بےپروا رہے تو اس سے زیادہ دور کوئی چیز بھی نہیں لیکن اگر وہ خدا کی طرف متوجہ رہے، اس کی یاد سے اپنے دل کو معمور رکھے، اس کی نعمتوں پر اس کا شکر گزار رہے اور اس کی آزمائشوں میں طلب صبر و استقامت کے لیے اسی کے آگے روئے اور گر گڑائے تو خدا سے زیادہ قریب بندے سے کوئی چیز بھی نہیں۔ وہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ یہ قرابت بندوں کو یوں تو ہر حال اور ہر مقام میں حاصل ہے لیکن خاص کر نبی کی بعثت کا زمانہ تو، جس کی طرف یہاں اشارہ ہے، خدا سے قرب و اتصال کا خاص زمانہ ہوتا ہے۔ نبی خدا کا نائب اور بندوں کا وکیل ہوتا ہے، خدا کے فرشتے ہر وقت اس کے پاس آتے رہتے ہیں، وحی کا سلسلہ اس کے اور خدا کے درمیان قائم رہتا ہے، بندے اپنی جو مشکلات اور اپنے جو سوالات نبی کے سامنے پیش کرتے ہیں وہ گویا اس کے واسطے سے اپنے رب کے حضور ہی میں پیش کرتے ہیں اور وحی کا زمانہ ہونے کی وجہ سے ہر لمحہ توقع ہوتی ہے کہ جو سوال اس کے حضور میں پیش ہوا ہے اس کا جواب نازل ہوجائے۔ اسی حقیقت کی طرف سورة مائدہ کی یہ آیت اشارہ کر رہی ہے " وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ : اور اگر تم ان کی بابت اس زمانے میں سوال کروگے جب کہ قرآن نازل ہو رہا ہے تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی " (مائدہ :101)۔ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ، بھی ایک حقیقت کا بیان ہے۔ بندہ جب اپنے رب کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کا جواب دیتا ہے۔ جواب دینے سے مراد قبولیت کا جواب ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ بندہ اپنے رب کو پکارے اور وہ اس کی مدد، فریاد رسی اور داد رسی کو نہ پہنچے، شرط صرف یہ ہے کہ بندہ اخلاص و تضرع کے ساتھ پکارے اور اسی چیز کے لیے پکارے جس کے لیے پکارنا اس کو زیبا ہے۔ اگر بندہ اپنے رب سے وہ چیز مانگتا ہے جو مانگنے کی ہے اور اس طرح مانگتا ہے جس طرح مانگنا چاہیے تو وہ چیز اس کو ضرور عطا ہوتی ہے۔ اگر فورًا عطا نہیں ہوتی تو اس کے مستقبل کے لیے یا اس کی آخرت کے لیے خدا کے ہاں محفوط ہوجاتی ہے اور اگر اس شکل میں نہیں ملتی جس شکل میں اس نے مانگی ہے تو اس سے بہتر شکل میں وہ اس کو مل جاتی ہے یا اس کے لیے محفوظ کردی جاتی ہے۔ قبولیت دعا کے باب میں اللہ تعالیٰ کی ایک مخصوص سنت ہے جس کے مختلف اجزا اپنے اپنے مقامات میں بیان ہوں گے۔ یہاں زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ ، اوپر اللہ تعالیٰ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں یہ ان کا لازمی تقاضا یا نتیجہ بیان ہوا ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ بندوں سے قریب تر بھی ہے اور وہ ان کی پکار سنتا اور اس کا جواب بھی دیتا ہے تو پھر اسی کا حق ہے کہ سب اس کی دعوت پر لبیک کہیں اور اس پر ایمان لائیں، پھر اس سے منحرف ہو کر کسی اور کی طرف رخ کرنے کے لیے کوئی ادنی وجہ جواز بھی نہیں ہے۔ خاص کر یہ تو اپنی جان پر بہت بڑا ظلم ہے کہ جو پروردگار اپنی شریعت کے اجمالات کی توضیح خود فرمانے کے لیے سراپا رحمت و کرم ہے اس کے کسی حکم کو کوئی اعتراضات و شبہات کا ہدف ٹھہرا لے یا اس کے سبب سے کسی خیانت یا تنگی میں مبتلا ہو۔ ایک شبہ کا ازالہ : اس آیت کے سیاق سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اہل ایمان کی اس بات کے لیے حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے کہ اگر ان کو خدا اور اس کی شریعت کے باب میں کوئی کھٹک پیدا ہو تو وہ خدا اور اس کے رسول ہی کی طرف رجوع کریں، اللہ تعالیٰ ان کی کھٹک دور فرمائے گا۔ بظاہر یہ بات اس ہدایت کے خلاف معلوم ہوتی ہے جو لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ اور اس کی ہم معنی دوسری آیات میں دی گئی ہے۔ لیکن یہ شبہ صحیح نہیں ہے۔ جہاں سوالات کرنے کی ممانعت ہے وہاں اس سے مراد اس طرح کے غیر ضروری سوالات ہیں جو یہود اپنے پیغمبر سے محض اس کو زچ کرنے اور شریعت سے فرار اختیار کرنے کے یلے کرتے تھے۔ وہ سوالات اس کے تحت نہیں آتے جو شریعت کی توضیح و تبیین کے لیے ضروری ہیں۔ اللہ اور رسول نے ایسے سوالات کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے اور ان کے جوابات سے دین کی دولت میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ اللہ اور رسول نے ایسے سوالات کے مواقع فراہم کیے ہیں تاکہ لوگوں پر دین کی حکمتیں اور مصلحتیں اور بندوں کی ضروریات کے ساتھ شریعت کی مناسبتیں واضح ہوں۔
Top