Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 184
اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
اَيَّامًا
: چند دن
مَّعْدُوْدٰتٍ
: گنتی کے
فَمَنْ
: پس جو
كَانَ
: ہو
مِنْكُمْ
: تم میں سے
مَّرِيْضًا
: بیمار
اَوْ
: یا
عَلٰي
: پر
سَفَرٍ
: سفر
فَعِدَّةٌ
: تو گنتی
مِّنْ
: سے
اَ يَّامٍ اُخَرَ
: دوسرے (بعد کے) دن
وَعَلَي
: اور پر
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يُطِيْقُوْنَهٗ
: طاقت رکھتے ہیں
فِدْيَةٌ
: بدلہ
طَعَامُ
: کھانا
مِسْكِيْنٍ
: نادار
فَمَنْ
: پس جو
تَطَوَّعَ
: خوشی سے کرے
خَيْرًا
: کوئی نیکی
فَهُوَ
: تو وہ
خَيْرٌ لَّهٗ
: بہتر اس کے لیے
وَاَنْ
: اور اگر
تَصُوْمُوْا
: تم روزہ رکھو
خَيْرٌ لَّكُمْ
: بہتر تمہارے لیے
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
تَعْلَمُوْنَ
: جانتے ہو
گنتی کے چند دن۔ اس پر بھی جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کردے۔ اور جو لوگ ایک مسکین کو کھانا کھلا سکیں ان پر ایک روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔ جو کوئی مزید نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہت رہے۔ اور یہ کہ تم روزہ رکھو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔
“ گنتی کے چند دن ”: یعنی روزے کی یہ مشقت تم پر کچھ زیادہ مدت کے لیے نہیں ڈالی گئی ہے بلکہ سال میں صرف گنتی کے چند دن اس کے لیے خاص کیے گئے ہیں جس طرح اوپر والی آیت میں کما کتب علی الذین من قبلکم کے الفاظ تالیف قلوب کے طور پر آئے ہیں۔ اسی طرح، ایاما معدودات، کے الفاظ بھی بطور تالیف قلب وارد ہیں کہ تربیت تقوی اور تزکیہ نفس کا یہ کورس چند روزہ ہے، اس سے پست ہمت اور دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے، نفس پر شاق ہونے والی عبادت کے بیان میں قرآن مجید نے تالیف قلب کا یہ انداز اکثر مقامات میں ملحوظ رکھا ہے۔ انفاق اور زکوۃ کے سلسلہ میں بعض چیزوں کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ آگے زیادہ واضح مثالیں اس کی آئیں گی۔ ‘ ایام معدودات ’ سے مراد :“ گنتی کے چند دنوں ”سے یہاں کیا مراد ہے ؟ اہل تاویل کے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ اس سے مراد ہر مہینے میں تین کے روزے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے ہر ماہ میں یہی تین دنوں کے روزے فرض ہوئے تھے۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مراد رمضان کے روزے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اسلام میں فرض روزوں کی حیثیت سے صرف رمضان ہی کے روزوں کا علم ہے۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے آنحضرت ﷺ ہر ماہ میں جو تین دن کے روزے رکھتے تھے ان کی حیثیت فرض روزوں کی نہیں بلکہ نفلی روزوں کی تھی۔ امام ابن جریر ان دونوں گروہوں کے اقوال نقل کر کے اپنی رائے دوسرے گروہ کے حق میں دیتے ہیں، ہمیں چونکہ ان کی اس رائے سے اتفاق ہے اس وجہ سے ہم اس کو یہاں نقل کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں۔“ ہمارے نزدیک حق سے قریب تر بات ان لوگوں کی ہے جو کہتے ہیں کہ ایاما معدودات سے مراد ماہ رمضان ہی کے ایام ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی قابل اعتماد روایت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مسلمانوں پر رمضان کے روزوں کے سوا کوئی اور روزہ فرض کیا گیا ہو جو رمضان کے روزوں سے منسوخ ہواہو۔ آیت کا سیاق خود اس بات پر دلیل ہے کہ جو روزے ہم پر فرض ٹھہرائے گئے وہ رمضان ہہی کے روزے ہیں۔ کوئی اور روزے نہیں ہیں۔ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ القرآن کے الفاظ خود ان ایام کی بلا کسی اشتباہ کے تعین کیے دیتے ہیں۔ اس وجہ سے جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ رمضان کے سوا کوئی اور روزے مسلمانوں پر فرض تھے، جو رمضان کے روزوں سے منسوخ ہوئے ان سے یہ مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی ایسی روایت پیش کریں جو حجت بن سکے ”۔۔ بارہ مہینوں میں سے صرف 30 یا 29 دن کے روزے، روزوں کی روحانی برکات کو سامنے رکھ کر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ یہ کوئی بڑی مدت نہیں ہے بلکہ گنتی کے چند دن ہی ہیں، اس وجہ سے خدا کی رضا جوئی اور اصلاح نف کے طالب اس مدت کو کوئی طویل مدت نہیں سمجھتے بلکہ نہایت قلیل اور چند روزہ سمجھتے ہیں۔ قرآن نے اس کی اس قدر و قیمت نیز تالیف قلب کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کو اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک غلط تاویل : وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ کا مطلب عام طور پر لوگوں نے یہ لیا ہے کہ شروع شروع میں جب روزوں کا حکم ناز ہوا تو چونکہ اہل عرب اس سخت عبادت کے عادی نہیں تھے۔ اس وجہ سے ان کی آسانی کے لیے یہ گنجائش رکھی گئی کہ جو شخص روزہ رکھنے کی قدرت کے باوجود روزہ نہ رکھنا چاہے وہ ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ بعد میں یہ اجازت منسوخ کردی گئی۔ لیکن یہ تاویل کسی طرح بھی صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اول تو روزے کی فرضیت کیا ہوئی جب کہ اس بات کی کھلی اجازت موجود تھی کہ کوئی شخص چاہے تو روزہ رکھے، نہ چاہے تو نہ رکھے، اس کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ اگر روزے کے ابتدائی حکم کی نوعیت یہ تھی تو كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (تم پر روزے فرض کیے گئے) کا ٹکڑا بالکل غیر ضروری سا ہوجاتا ہے کیونکہ اس صورت میں اس کی فرضیت بالکل بےاثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ کس قدر عجیب و غریب بات ہے کہ ایک طرف تو مریض اور مسافر دونوں کے لیے دوسرے دنوں میں اپنے قضا کیے ہوئے روزوں کی تعداد روزے رکھ کر پورے کرنے کا حکم ہو، جیسا کہ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخر کے الفاظ سے واضح ہے اور دوسری طرف یہ آزادی ہو کہ جو شخص چاہے روزے رکھے اور جو شخص چاہے مقدرت کے باوجود، نہ رکھے، صرف ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ مریض اور مسافر پر تو یہ پابندی ہے کہ وہ روزے ضرور رکھیں، یہاں تک کہ اگر سفر یا مرض کے سبب سے معین دنوں میں نہ رکھ سکیں تو دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کریں در آنحالیکہ دوسروں پر کسی حالات میں بھی روزے رکھنا ضروری نہیں، ایک تندرست اور مقیم بھی چاہے تو روزے کا بدل ایک مسکین کو کھانا کھلا کر پورا کرسکتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس مشکل سے بچنے کے لیے يُطِيْقُوْنَهٗ کے معنی یہ لیے ہیں کہ“ جو لوگ مشکل سے طاقت رکھتے ہیں ”یہ معنی لے لینے سے اوپر کے اعتراضات تو رفع ہوجاتے ہیں اور كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ الایۃ کے ٹکڑے کا ایک محمل نکل آتا ہے لیکن اس صورت میں مذکورہ بالا اعتراضات سے بھی بڑا اعتراض اس پر یہ وارد ہوتا ہے کہ يُطِيْقُوْنَ کے یہ معنی لغت میں ہیں بھی یا محض اپنے جی سے گھڑ لیے گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک عربی لغت اس لفظ کے اس معنی سے بالکل خالی ہے۔ بعض لوگ یہ دعوے کرتے ہیں کہ باب افعال کا ایک خاصہ سلب ماخذ بھی ہے اس وجہ سے“ اطاقت ”کے معنی طاقت نہ رکھنے کے بھی آسکتے ہیں۔ ہمیں اس بات سے تو انکار نہیں ہے کہ باب افعال کے خواص میں سے سلب ماخذ بھی ہے لیکن خاصیات ابواب کا معاملہ، جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں، قیاسی نہیں بلکہ سماعی ہے اس وجہ سے اصل شے لفظ کا استعمال ہے۔ اگر اہل زبان نے اس لفظ کو مذکورہ معنی میں استعمال کیا ہو اور اس کی مثالیں موجود ہو تب تو بلاشبہ اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر اس معنی میں اس لفظ کے استعمال کی کوئی نظیر کلام عرب اور قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہے تو محض اس مفروضہ پر کہ باب افعال کے خواص میں ایک خاصہ سلب ماخذ نامی بھی ہے، لفظ کو اثبات کے بجائے نفی کے معنی میں لے لینا عربی زبان پر بھی بہت بڑا ظلم ہے اور یہ چیز دین میں بھی ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ اگر کوئی صاحب اس اصول کو بےدھڑک استعمال کرنے لگ جائیں تو وہ دین کے ایک بہت بڑے حصہ کو بڑی آسانی سے امر و حکم کے بجائے نفی و نہی سے بدل سکتے ہیں۔ بعض کم سواد یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ“ فلاں شخص فلاں چیز کی طاقت رکھتا ہے ”اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ اس چیز کی مشکل سے طاقت رکھتا ہے۔ یہ بات بالکل طفلانہ ہے اس وجہ سے اس کی تردید کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ طاقت رکھنے کے مفہوم میں مشکل کا یہ مضمون موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ طاقت آدمی کو تکالیف شرعیہ اور احکام دینیہ کے اٹھانے کا ذمہ دار بناتی ہے یا اس کو شریعت کی ذمہ داریوں سے بری قرار دیتی ہے۔ جہاں تک اسلامی شریعت کا تعلق ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ یہ طاقت آدمی کو مکلف بناتی ہے نہ کہ اس کو بری قرار دیتی ہے۔ جب آپ یہ کہیں کہ میں فلاں چیز کی طاقت رکھتا ہوں تو اس کے واضح معنی یہی ہیں کہ آپ اس کے لیے مکلف ہونے کے درجہ میں ہیں نہ کہ اس سے استثنا کے درجہ میں، قطع نظر اس سے کہ آپ اس کی طاقت آسانی سے رکھتے ہیں یا مشکل سے۔ پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اگر کہنا یہ تھا کہ“ جو لوگ روزہ رکھنے کی مشکل سے طاقت رکھتے ہیں ”تو اس کے لیے عربی زبان میں بیسیوں اسلوب اور الفاظ نہایت معلوم و مشہور موجود ہیں جو اہل زبان استعمال کرتے ہیں آخر ان کو چھوڑ کر قرآن نے ایک ایسا لفظ کیوں استعمال کیا جس کا استعمال اس معنی کے لیے کسی کو معلوم نہیں۔ اگر ایک شخص کہتا ہے کہ ان اطیق حمل السلاح، تو ہر شخص اس کا مطلب یہی سمجھے گا کہ وہ ہتھیار اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے۔ یہ مطلب کوئی بھی نہیں سمجھے گا کہ وہ ہتھیار اٹھانے کی مشکل سے طاقت رکھتا ہے، اس وجہ سے مستحق ہے کہ اسے جہاد کی ذمہ داریوں سے بری رکھا جائے۔ اسی طرح فرض کیجیے کہ کہا جائے کہ ‘ لنا طاقۃ بجالوت و جنودہ ’ تو اس کا واضح مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ہمیں جالوت اور اس کی فوجوں سے مقابلہ کی طاقت ہے۔ اگر اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا کہ“ ہمیں طاقت نہیں ہے، یا ہم مشکل سے طاقت رکھتے ہیں ’ تب تو قرآن میں بنی اسرائیل کا جو قول نقل ہوا ہے کہ ‘ لا طاقۃ لنا الیوم بجالوت و جنودہ ’ اس میں لائے نفی کی مطلق ضرورت نہیں تھی بلکہ اثبات کی صورت میں ان کا مطلب صحیح طور پر ادا ہوجاتا۔ بہر حال جن لوگوں نے ‘ یطیقون ’ کے یہ معنی لیے ہیں انہوں نے بالکل غلط معنی لیے ہیں لیکن یہ معنی اگر غلط ہیں تو اس کے معروف معنی لینے کی صورت میں آیت کی تاویل کیا ہوگی ؟ اصل اشکال اور اس کا حل : اس کا جواب یہ ہے کہ اس ٹکڑے میں جو اشکال ہے وہ یطیقون کے لفظ میں نہیں ہے، اس کے معنی تو وہی ہیں جو معروف و مشہور ہیں۔ اس کے سوا کسی اور معنی کے لیے اس لفظ میں کوئی ادنی گنجائش بھی نہیں ہے، در اصل اس میں اگر اشکال ہے تو یطیقونہ کی ضمیر مفعول میں ہے کہ اس کا مرجع کیا ہے ؟ عام طور پر لوگ اس کا مرجع صوم کو مانتے ہیں اس وجہ سے وہ سارے اشکالات پیدا ہوتے ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔ لیکن اس کا مرجع صوم نہیں بلکہ طعام ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ یہ تایل ہمارے پچھلے اہل تاویل میں سے بھی بعض لوگوں نے لی ہے اور یاد پڑتا ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب ؒ وسلم کی تاویل بھی یہی ہے۔ یہ تاویل ہمارے نزدیک بالکل واضح ہے لیکن ممکن ہے بعض لوگوں کو یہ بات کھٹکے کہ طعام کا لفظ چونکہ اوپر کہیں مذکور نہیں ہوا ہے اس وجہ سے اس کے ذکر سے پہلے اس کے لیے ضإیر لانا اضمار قبل الذکر ہے، جو کلام کا ایک عیب ہے جس سے قرآن کو پاک ہونا چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اضمار قبل الذکر کلام کا ایک عیب ہے لیکن یہ عیب اس شکل میں ہے جب ضمیر کا مرجع متکلم کی نیت میں مقدم نہ ہو اور وہ اس کے لیے ضمیر لائے لیکن اگر مرجع متکلم کی نیت میں مقدسم ہو اور محض تکرار سے بچنے کے لیے یا بلاغت کے کسی اور تقاضے کے تحت وہ مرجع کو موخر کرنے پر مجبور ہو تو اس صورت میں اضمار قبل الذکر نہ صرف یہ کہ عیب نہیں ہے بلکہ کلام کی ایک خوبی ہے اور اس کی نہایت عمدہ مثالیں کلام عرب میں موجود ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ضمیر بھی جس کو ہمارے اہل نحو ضمیر شان کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں اسی نوعیت کی چیز ہے۔ اس میں بھی متکلم ضمیر در حقیقت اس مرجع کے لیے لاتا ہے جو اس کے مافی الضمیر میں مضمر ہوتا ہے۔ یہاں پوری بات یوں تھی کہ وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَ طَعَامَ مِسکِین فَفِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ (اور جو لوگ ایک مسکین کو کھانا کھلا سکتے ہیں تو ان کے لیے بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلادینا ہے)۔ لیکن اس صورت میں جملہ نہایت ثقیل ہوجاتا تھا اس وجہ سے کلما کی روانی، ایجاز اور بلاغت کا تقاضا یہ ہوا کہ ایک جگہ طعام مسکین کو حذف کر کے اس کی جگہ ضمیر لادی جائے اور دوسری جگہ جہاں اس کا اظہار ناگزیر ہے اس کو ظاہر کردیا جائے تاکہ کلام غیر ضروری تکرار کے عیب سے پاک رہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس سے اضمار قبل الذکر کی صورت تو ضروری پیدا ہوئی لیکن دیکھ لیجئے ضمیر اصلاً جس چیز کے لیے لائی گئی ہے وہ صرف عبارت میں موخر ہے متکلم کی نیت میں موخر نہیں ہے۔ اس تاویل کو قبول کرلینے کے بعد مسئلہ کی جو شکل سامنے آتی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ پہلے جو روزے فرض ہوئے تھے اس میں اس بات کی بھی گنجائش تھی کہ اگر لوگ روزے نہ رکھنا چاہیں تو اس کا بدل مسکین کو کھانا کھلا کر پورا کردیاکریں بلکہ قرآن کے الفاظ سے اس کی اصلی شکل یہ سامنے آتی ہے کہ جو لوگ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان کے روزے پورے نہیں کرسکتے تھے ان کو اس بات کی اجازت ہے کہ دوسروں دنوں میں یا تو روزے رکھ کر ان چھوڑے ہوئے روزوں کی تلافی کردیں یا ایک روزے کی جگہ ایک مسکین کھانا کھلا کر اس کا بدل پورا کردیں، گویا اس وقت تک قضا روزوں کی تلافی مسکین کو کھانا کھلا کر بھی ہوسکتی تھی، بعد میں یہ اجازت، جیسا کہ آگے والی آیت سے واضح ہوگا، منسوخ ہوگئی، یعنی قضا شدہ روزوں کی جگہ بھی روزے رکھنا ہی ضرور قرار دے دیا گیا۔ “ جو کوئی از خود کچھ مزید نیکی کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور یہ کہ تم روزہ رکھو تو یہ زیادہ بہتر ہے ”کا مطلب یہ ہے کہ قضا روزے کا یہ فدیہ جو مذکور ہوا یہ ایک مستطیع سے کم سے کم مطالبہ ہے جس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ مسکینوں کو کھانا کھلائے یا ان کے ساتھ کوئی اور نیکی کرے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ نیز یہ کہ اس فدیہ کی نوعیت صرف ایک رخصت اور رعایت کی ہے، اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر یہی ہے کہ آدمی فدیہ کے بجائے دوسرے دنوں میں یہ روزے ہی پورے کردے۔ یہ گویا اس رخصت کے ساتھ ساتھ ایک اشارہ اس بات کی طرف بھی کردیا گیا تھا کہ یہ اجازت عارضی اور وقتی ہے جو منسوخ ہونے والی ہے اللہ تعالیٰ کو پسند یہی ہے کہ روزوں کی تعداد پوری کی جائے چنانچہ، جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا اور آگے آ رہا ہے، کچھ عرصے کے بعد یہ فدیہ کی اجازت منسوخ ہوگئی اور فَعِدَّةٌ مِّنْ اَ يَّامٍ اُخَرَ کا اصل حکم باقی رہ گیا۔
Top