Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 183
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَيْكُمُ : تم پر الصِّيَامُ : روزے كَمَا : جیسے كُتِبَ : فرض کیے گئے عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جو لوگ مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار بن جاؤ
اے ایمان والو، تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تھا۔ تاکہ تم تقوی حاصل کرو۔
لفظ ‘ صوم ’ کی تحقیق : صوم اور صیام مصدر ہیں۔ صوم کے لغوی معنی کسی شے سے رک جانے اور اس کو ترک کرنے کے ہیں۔ صام الفرس صوماً کے معنی ہیں گھوڑے نے چارہ نہیں کھایا۔ نابغہ کا شعر ہے۔ حیل صیام و خیل غیر صائمۃ۔ تحت العجاج واخری تعلک اللجما۔ (بہت سے بھوکے اور بہت سے آسودہ گھوڑے میدان جنگ کے غبار میں کھڑے تھے اور دوسرے بہت سے اپنی لگامیں چبا رہے تھے)۔ مولانا فراہی ؒ لفظ صوم کی تحقیق کے سلسلے میں اپنی کتاب اصول الشرائع میں فرماتے ہیں۔“ اہل عرب اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو بھوک اور پیاس کا عادی بنانے کے لیے باقاعدہ ان کی تربیت کرتے تھے تاکہ مشکل اوقات میں وہ زیادہ سختی برداشت کرسکیں۔ اسی طرح وہ اپنے گھوروں کو تند ہوا کے مقابلے کی بھی تربیت دیتے تھے۔ یہ چیز سفر اور جنگ کے حالات میں، جب کہ ہوا کے تھپیڑوں سے سابقہ پیش آجائے، بڑی کام آنے والی ہے۔ جریر نے اپنے ایک شعر میں ان دونوں باتوں کا حوالہ دیا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ ظللنا بمستن الحرور کا ننا۔ لدی فرس مستقبل الریح صائم۔ (ہم لو کے تھپیڑوں کی جگہ جمے رہے گویا ہم ایک ایسے گھوڑے کے ساتھ کھڑے ہوں جو باد تند کا مقابلہ کر رہا ہو اور روزہ رکھے ہوئے ہو)۔ اس شعر میں اس نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے حال کی تشبیہ ایک ایسے شخص سے دی ہے جو اپنے گھوڑے کے ساتھ کھڑا ہو اور اس کو بھوک اور باد تند کے مقابلے کی تربیت دے رہا ہو۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ اہل عرب تشبیہ کے لیے انہی چیزوں کو استعمال کرتے ہیں جو ان کے عام تجربے میں آئی ہوں۔ ان کو نادر چیزوں کی تلاش زیادہ نہیں ہوتی۔ الغرض گھوڑوں کے صوم کے بارے میں اشعار بہت ہیں ”۔ اسی سے صائم ہے جس کے معنی ہیں وہ شخص جو کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جائے۔ اس کے لیے کچھ مخصوص شرعی حدود وقیود ہیں جن کی تفصیل قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ روزہ تربیت نفس کی قدیم ترین عبادت ہے : كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ : یعنی روزہ کی یہ عبادت صرف تمہارے ہی اوپر پہلی بار فرض نہیں ہوئی ہے بلکہ تم سے پہلے دوسری امتوں پر بھی فرض کی گئی تھی۔ آسمانی شریعتوں میں یہ ابتدا سے تربیت نفس کی خاص ریاضت رہی ہے۔ مقصود اس بات کا حوالہ دینے سے صرف عام طبیعتوں کو گھبراہٹ دور کرنا ہے کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، شرائع الٰہی کی یہ قدیم وراثت ہے جو تمہاری طرف منتقل ہو رہی ہے اور تم اس کو اختیار کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے سب سے زیادہ اہل اور حق دار ہو۔ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ : روزے کا مقصد : یہ روزے کی اصل غایت بیان ہوئی ہے۔ تمام شریعت کی بنیاد تقوی پر ہے، تقوی پیدا ہوتا ہے جذبات و خواہشات پر قابو پانے کی قوت و صلاحیت سے اور اس قوت و صلاحیت کی سب سے بہتر تربیت روزوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔
Top