Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 179
وَ لَكُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوةٌ یّٰۤاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے فِي : میں الْقِصَاصِ : قصاص حَيٰوةٌ : زندگی يّٰٓاُولِي الْاَلْبَابِ : اے عقل والو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَّقُوْنَ : پرہیزگار ہوجاؤ
اور تمہارے لیے قصاص میں، اے عقل والو، زندگی ہے، تاکہ تم حدود الٰہی کی پابندی کرو۔
قانون جذبات سے بالا تر ہے : یہ معاشرہ کو تلقین ہے کہ قصص کے معاملہ میں کسی سہل انگاری، کسی جانب داری، کسی چشم پوشی اور کسی بےجا رحم و مروت کو حائل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ جو کسی کو قتل کردیتا ہے وہ صرف ایک شخص ہی کو قتل نہیں کرتا بلکہ ایک قانون کو قتل کرتا ہے جو سب کی جان کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اس وجہ سے وہ گویا سب ہی کو قتل کردیتا ہے۔ اس وجہ سے یہ سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا قصاص لے کر اس ضمانت کو بحال کریں جس میں سب کی زندگی ہے۔ معاشرے کا جو شخص کسی قاتل کو پکڑتا ہے، یا اس کا سراغ لگاتا ہے یا اس کے جرم کے ثبوت فراہم کرتا ہے اور اس طرح مقتول سے قصاص کی راہ کھولتا ہے وہ گویا اس مقتول کو بھی زندہ کرتا ہے اور ساتھ ہی پورے معاشرے کو بھی زندگی بخشتا ہے کیونکہ وہ اپنی اس خدمت سے اس قانون کو زندہ کرتا ہے جو سب کے لیے زندگی ہے۔ قرآن نے اس حقیقت کی طرف سورة مائدہ میں یوں اشارہ فرمایا ہے جس کا حوالہ اوپر بھی گزر چکا ہے“ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا : یہ کہ جس نے قتل کردیا کسی جان کو بغیر اس کے کہ اس نے کسی جان کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سب کو قتل کردیا اور جس نے اس کو زندہ کیا تو گویا اس نے سب ہی کو زندہ کیا ”(مائدہ :32)۔ اس میں ان لوگوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہے جو بےجا قسم کی مروت و پاسداری یا ناروا قسم کے احترام شرافت و امارت کے جذبے کے تحت بسا اوقات مقتول کے بجائے قاتل ہی کی ہمدردی کو ثواب قرار دے بیٹھتے ہیں حالانکہ اصلی ہمدردی ہر ایک کے ساتھ، غریب ہو یا امیر، شریف ہو یا رذیل، قریب ہو یا بعید، جیسا کہ سورة نساء کی آیت 135 میں ہے، یہی ہے کہ اس کو خدا اور اس کے قانون کے حوالہ کیا جائے نہ کہ خدا کے قانون سے چھڑا کر شیطان کے حوالہ، لیکن اس حقیقت کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اہل عقل ہیں۔ اس وجہ سے آیت میں اہل عقل کو خاص طور پر خطاب فرمایا ہے۔ کیا تعزیرات خلاف عقل ہیں ؟ اہل عقل کو خاص طور پر توجہ دلانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح جذبات بعض اوقات قانون قصاص کے نفاذ میں مزاحم ہوتے ہیں اسی طرح جذبات سے مرعوب و مغلوب عقل میں بھی اس قانون کی اصلی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے۔ خاص طور پر اس زمانے میں تو تمام جسمانی سزاؤں کے خلاف ایک مستقل فلسفہ بن گیا ہے جس کو پیش تو کیا جاتا ہے عقلیت اور فلسفہ کے روپ میں لیکن تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے اندر بھی اصلی روح عقل کی نہیں بلکہ جذبات ہی کی ہے۔ ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ مجرموں سے جو جرم سرزد ہوتے ہیں وہ اصلاً جذباتی بےاعتدالی، عقلی عدم توازن اور ذہنی انتشار اور الجھاؤ کے نتیجہ میں صادر ہوتے ہیں اور یہ حالتیں آدمی کی بیماری کی حالتیں ہیں جن میں وہ مستحق اصلاح و تربیت اور علاج و دوا کا ہوتا ہے نہ کہ سزا کا۔ اس وجہ سے اس گروہ کے نزدیک کسی قاتل کو قتل کی سزا دینا ایسا ہی ہے جیسے کسی مریض کو بیمار ہونے پر اس کے علاج کے بجائے کوئی سزا دے دینا۔ اس گروہ کے نزدیک اس طرح کے مجرموں یا خود ان کے الفاظ میں اس طرح کے مریضوں کا علاج تعلیم و تربیت اور اصلاح نفسی و ذہنی کے ذریعہ سے ہونا چاہیے نہ کہ سولی اور پھانسی سے۔ یہ نظریہ موجود تو دنیا میں ایک خاص گروہ میں شروع سے رہا ہے لیکن اس کو عملی اعتبار سے کبھی اہمیت حاصل نہیں ہوسکی اور نہ شاید کبھی حاصل ہوسکے۔ تاہم اس دور آخر میں چونکہ ٹالسٹائی اور مہاتما گاندھی جیسے لوگوں نے اس کی وکالت کی ہے اس وجہ سے بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں کے ذہن اس سے متاثر ہیں۔ ایسے لوگوں کی الجھن دور کرنے کے لیے قانون قصاص کی اس حکمت کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے خاص طور پر اہل عقل کو مخاطب کر کے یہ فرمایا ہے کہ اس کے اندر زندگی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ زندگی فرد کے لحاظ سے نہیں بلکہ معاشرے کے لحاظ سے ہے۔ اگر ایک شخص قتل کے جرم میں قتل کردیا جاتا ہے تو بظاہر تو ایک جان کے بعد یہ دوسری جان بھی گویا تلف ہی ہوتی ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے اگر دیکھیے تو اس کے قتل سے پورے معاشرے کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہوتی ہے۔ اگر اس سے قصاص نہ لیا جائے، تو یہ جس ذہنی خرابی میں مبتلا ہو کر ایک بےگناہ کے قتل کا مرتکب ہوا ہے وہ خرابی پورے معاشرے میں متعدی ہوجائے بیماری اور بیماری میں فرق ہوتا ہے۔ جو بیماریاں قتل، ڈکیتی، چوری اور زنا وغیرہ جیسے خطرناک جرائم کا سبب بنتی ہیں ان کی مثال ان بیماریوں کی ہے جن میں پورے جسم کو بچانے کے لیے بسا اوقات جسم کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کردینا پڑتا ہے۔ اگرچہ کسی عضو کو کاٹ پھینکنا ایک سنگ دلی کا کام معلوم ہوتا ہے لیکن ایک ڈاکٹر کو یہ سنگ دلی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اگر وہ طبیعت پر جبر کر کے یہ سنگ دلی اختیار نہ کرے تو اس میں ایک عضو کی ہمدردی میں اسے مریض کے پورے جسم کو ہلاکت کے حوالہ کرنا پڑے گا۔ معاشرہ اپنی مجموعی حیثیت میں ایک جسم سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس جسم کے بعض اعضا میں بھی بسا اوقات اسی قسم کا فساد و اختلال پیدا ہوجاتا ہے جس کا علاج مرہم و ضماد سے ممکن نہیں ہوتا بلکہ عضو مریض پر آپریشن کر کے اس کو جسم کے مجموعے سے الگ کردینا ضروری ہوتا ہے۔ اگر یہ خیال کیا جائے کہ یہ عضو مریض ہے اس وجہ سے نری اور ہمدردی کا مستحق ہے تو اس نرمی کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ ایک دن یہ عضو سارے جسم کو سڑٓ اور گلا کر رکھ دے۔ یہی نکتہ ہے کہ قرآن مجید نے اس قسم کی سزاؤں کو، جو سخت نوعیت کی ہیں ، ‘ نکال ’ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ نکال، عربی میں اس سزا کو کہتے ہیں جو دوسرے کو عبرت دلانے والی ہو۔ جس کو دیکھ کر دوسرے نصیحت پکڑیں اور اس قسم کے جرم کے ارتکاب سے باز رہیں۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کی سزائیں نافذ کر کے گویا پورے معاشرہ کو ایسے ٹیکے لگا دئیے جاتے ہیں جس سے وہ متعدی جراثیم کے اثرات سے محفوظ ہوجائے۔ اسی حقیقت کی طرف یہاں بھی قرآن نے لعلکم تتقون کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے جس کے معنی ہیں تاکہ تم بچو یعنی اللہ کے حدود کی خلاف ورزی اور ایک دوسرے پر ظلم وتعدی سے بچو۔
Top