Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 178
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰى١ؕ اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰى بِالْاُنْثٰى١ؕ فَمَنْ عُفِیَ لَهٗ مِنْ اَخِیْهِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْهِ بِاِحْسَانٍ١ؕ ذٰلِكَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ رَحْمَةٌ١ؕ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا
: اے
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اٰمَنُوْا
: ایمان لائے
كُتِب
: فرض کیا گیا
عَلَيْكُمُ
: تم پر
الْقِصَاصُ
: قصاص
فِي الْقَتْلٰي
: مقتولوں میں
اَلْحُرُّ
: آزاد
بِالْحُرِّ
: آزاد کے بدلے
وَالْعَبْدُ
: اور غلام
بِالْعَبْدِ
: غلام کے بدلے
وَالْاُنْثٰى
: اور عورت
بِالْاُنْثٰى
: عورت کے بدلے
فَمَنْ
: پس جسے
عُفِيَ
: معاف کیا جائے
لَهٗ
: اس کے لیے
مِنْ
: سے
اَخِيْهِ
: اس کا بھائی
شَيْءٌ
: کچھ
فَاتِّبَاعٌ
: تو پیروی کرنا
بِالْمَعْرُوْفِ
: مطابق دستور
وَاَدَآءٌ
: اور ادا کرنا
اِلَيْهِ
: اسے
بِاِحْسَانٍ
: اچھا طریقہ
ذٰلِكَ
: یہ
تَخْفِيْفٌ
: آسانی
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
وَرَحْمَةٌ
: اور رحمت
فَمَنِ
: پس جو
اعْتَدٰى
: زیادتی کی
بَعْدَ
: بعد
ذٰلِكَ
: اس
فَلَهٗ
: تو اس کے لیے
عَذَابٌ
: عذاب
اَلِيْمٌ
: دردناک
اے ایمان والوتم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض ٹھہرایا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ پس جس کسی کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی گئی تو اس کے لیے دستور کی پیروی کرنا اور خوبی کے ساتھ اس کو ادا کرنا ہے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی تخفیف اور مہربانی ہے۔ تو اس کے بعد جو زیادتی کرے گا اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔
آیت 178 تا 179 کا خلاصہ مضمون : قیام امن و عدل کی دو بنیادیں : برّ وتقویٰ کی اصلی حقیقت واضح کرنے کے بعد ان معاملات کی طرف توجہ فرمائی جو اسی برّ وتقوی پر مبنی ہیں اور جن کی اس اعتبار سے بڑی اہمیت ہے کہ انہی پر معاشرہ کے امن و عدل اور اس کے تحفظ و بقا کا انحصار ہے۔ اگر ایک متوسط درجہ کا ذہن رکھنے والا آدمی بھی غور کرے گا تو وہ نہایت آسانی سے اس حقیقت تک پہنچ سکتا ہے کہ انسانوں اور انسانوں کے تعلقات کی استواری کی بنیاد اصلاً دو چیزوں پر ہے۔ ایک اس چیز پر کہ ہر شخص دوسرے کی جان کا احترام کرے۔ دوسرے اس چیز پر کہ ہر شخص دوسرے کے مال کا احترام کرے۔ اسی وجہ سے حرمت جان اور حرمت مال کے قانون کو ہمیشہ سے دوسرے تمام قوانین پر فوقیت حاصل رہی ہے۔ اسی اصل کے تحت، جو تمام تر فطرت انسانی پر مبنی ہے، قرآن نے بھی برّ اور تقوی کی بنیاد استوار کرنے کے بعد سب سے پہلے احترام جان کے قانون کو لیا اور قصاص کو پورے معاشرے کی ذمہ داری قرار دیا۔ یعنی اگر کوئی شخص قتل ہوگیا ہے تو یہ صرف اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس کے قاتل کا کھوج لگائیں اور اس کو سزا دیں بلکہ پورے معاشرے کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا تعاقب کرے اور اس کو کیفر کردار کو پہنچائے۔ گویا ایک شخص کا قتل ہونا سب کا قتل ہونا اور اس کا زندہ ہونا سب کا زندہ ہونا ہے۔ قصاص کا یہ قانون موجود تو اہل کتاب کے ہاں بھی تھا اور اہل عرب کے ہاں بھی۔ مگر انہوں نے جس طرح یہ قانون کی روح کچل کے رکھ دی تھی اسی طرح اس قانون کی روح بھی ختم کردی تھی۔ اس قانون کی اصل روح بےلاگ انصاف اور کامل مساوات ہے۔ یعنی اس معاملے میں ادنی و اعلی، امیر و غریب، شریف ووضیع اور آقا و غلام سب ایک ہی سطح پر رکھے جائیں اور قانون اور عدالت، ہر ایک کے ساتھ بالکل یکساں معاملہ کریں۔ لیکن یہ بات نہ اہل کتاب کے یہاں باقی رہ گئی تھی نہ اہل عرب کے یہاں بلکہ یہ کہنا بھی شاید بےجا نہیں ہے کہ آج بھی تہذیب و تمدن کی اس ترقی کے باوجود، دنیا کے کسی ملک اور کسی قانون میں بھی احترام جان اور مساوات کا یہ تصور نہیں پایا جاتا جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ تفسیر : قصاص کا مفہوم : قصاص، قصص سے ہے جس کے اصل معنی کسی کے پیچھے، اس کے نقش قدم کے ساتھ ساتھ چلنے کے ہیں۔ مثلاً“ وَقَالَتْ لأخْتِهِ قُصِّيهِ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لا يَشْعُرُونَ : اور اس نے اس کی بہن سے کہا، اس کے پیچھے پیچھے جا، تو وہ دور سے اس کو دیکھتی رہی اور ان لوگوں کو اس کا علم نہیں ہوا ”(قصص :11)۔ قَالَ ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا : اس نے کہا یہی تو ہمیں مطلوب تھا، پس دونوں اپنے نقش قدم کا تعاقب کرتے ہوئے پیچھے پلٹے، (کہف :64)۔ پس وہ دونوں اپنے نقش قدم کا تعاقب کرتے ہوئے پیچھے پلٹے۔ اسی سے قصہ کو قصہ کہتے ہیں۔ کیونکہ جس کا قصہ بیان کیا جاتا ہے، قصہ بیان کرنے والا گویا اس کے قدم بقدم اس کے حالات کا تعاقب کرتا ہے۔ اسی سے قصاص نکلا اس لیے کہ قاتل کا بھی کھوج لگایا جاتا اور اس کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ پھر قصاص اس سزا کو کہنے لگے جس میں مجرم کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جائے جس کا مرتکب وہ خود ہوا ہے۔ اس قصاص کی دو صورتیں ہیں۔ ایک جانی، دوسری مالی جس کو دیت یا خونبہا کہتے ہیں۔ قصاص کا لفظ اپنے وسیع معنی میں ان دونوں ہی صورتوں پر حاوی ہوجاتا ہے اس لیے کہ دیت بھی درحقیقت قصاص ہی کی ایک شکل ہے۔ اصل قانون تو جان کے بدلے جان ہی کا ہے۔ لیکن اولیائے مقتول کی بہبود کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں اتنی رعایت فرما دی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو جان کے بدلے دیت بھی لے سکتے ہیں۔ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي میں کُتِبَ کے بعد علی کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں اس کے اندر فرضیت اور وجوب کا مضمون موجود ہے۔ قَتْلٰی، قتیل کی جمع ہے جس کے معنی مقتول کے ہیں یہ لفظ مذکر اور مونث دونوں کے لیے یکساں استعمال ہوتا ہے۔ ایک سوال اور اس کا جواب : یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوگا کہ اگر کُتِبَ عَلَیْکُمْ سے قصاص کی فرضیت ثابت ہوتی ہے تو اس حکم کا مخاطب کون ہے ؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ قصاص کا معاملہ قابل راضی نامہ ہے۔ اگر مقتول کے ورثا چاہیں تو قاتل کو قتل بھی کرسکتے ہیں، چاہیں تو دیت بھی لے سکتے ہیں، چاہیں تو کچھ معاف بھی کرسکتے ہیں، تو جب وہ یہ سب کچھ کرسکتے ہیں یہ کہنے کے کیا معنی کہ ”تم پر قصاص لینا فرض کیا گیا ہے ”۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس حکم کا مخاطب پورا اسلامی معاشرہ بحیثیت مجموعی یا بالفاظ دیگر اسلامی حکومت ہے۔ اس کے اوپر یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ اس کے علاقہ میں اگر کوئی قتل ہوجائے تو اس کے قاتلوں کا سراغ لگائے، ان کو گرفتار کرے اور قانون کے مطابق ان پر سزا نافذ کرے۔ یہ ذمہ داری معاشرہ یا حکومت پر اس اصول کے تحت ڈالی گئی ہے کہ جو شخص کسی شخص کو بغیر کسی حق کے قتل کردیتا ہے تو وہ صرف ایک شخص ہی کا قاتل نہیں ہے بلکہ سب کا قاتل ہے اس لیے کہ اس نے تحفظ جان کے اس قانون کو ہدم کردیا ہے جو سب کے لیے حرمت جان کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اس وجہ سے یہ پورے معاشرے اور پورے نظام اجتماعی کی ذمہ داری ٹھہری کہ سب اس کے قصاص کے درپے ہوں اور اس وقت تک دم نہ لیں جب تک حرمت جان کے اس قانون کو زندہ کر کے سب کی زندگی کی ضمانت کو بحال نہ کرلیں۔ اسی حقیقت کی طرف سورة مائدہ میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے“ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا : کہ جس نے کسی جان کو، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان ماری ہو یا زمین میں فساد مچایا ہو، قتل کردیا تو گیوا اس نے سارے ہی لوگوں کو قتل کردیا اور جس نے اس کو زندہ کیا تو گویا سب کو زندہ کیا ”(مائدہ :32)۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ قصاص کی اصل ذمہ داری حکومت ہی پر ہونی چاہیے نہ کہ قتول کے وارثوں پر۔ اس لیے کہ اس کا بھی امکان ہے کہ ایک شخص قتل ہوجائے اور اس کا کوئی والی وارچ نہ ہو، اس کا بھی اکان ہے کہ ایک شخص کے کچھ ورثا ہوں تو سہی لیکن کسی سبب سے ان کو مقتول کے قصاص کے معاملہ سے کچھ دلچسپی نہ ہو۔ بلکہ امکان تو خاصی حد تک اس بات کا بھی ہے کہ ورثا کی اصل ہمدردی اور دلچسپی کس سبب سے مقتول کے بجائے قاتل اور اس کے شرکائے کار ہی کے ساتھ ہوجائے۔ علاوہ ازیں کسی اس طرح کے معاملہ میں تحقیق و تفتیش کی ذمہ داریاں اور پھر حدود کی تنفیذ بڑے وسیع اختیارات کی مقتضی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اسلام نے جہاں تک قصاص لینے کے فرض کا تعلق ہے وہ تو اسلامی حکومت ہی پر عائد کیا ہے لیکن اس سلسلے میں اس نے حکومت پر یہ پابندی بھی عائد کردی ہے کہ وہ بجائے خود فیصلہ کرنے کے مقتول کے اولیاء کو یہ اختیار دے دے کہ وہ اسلامی قانون کے حدود کے اندر مجرم کے ساتھ جو معاملہ پسند کریں وہ کرلیں۔ خواہ اسے قتل کردیں، خواہ اس سے خونبہا قبول کرلیں۔ ورثا کو یہ اختیار دے دینا اور ان کے اختیار کو نافذ کردینا حکومت کو اس فرض سے سبکدوش کردے گا جو اس پر كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي کی رو سے عائد ہوتا ہے۔ قصاص میں اولیائے مقتول کی مرضی کے لحاط کی حکمت : قصاص کے معاملہ میں مقتول کے اولیاء کی مرضی کو اسلام نے یہ اہمیت جو دی ہے، یہ مختلف پہلوؤں سے نہایت حکیمانہ ہے۔ قاتل کی جان پر مقتول کے وارثوں کو براہ راست اختیار مل جانے سے ایک تو ان کے بہت بڑے زخم کے اندمال کی ایک شکل پیدا ہوتی ہے، دوسرے اگر اس صورت میں یہ کوئی نرم رویہ اختیار کریں تو قاتل اور اس کے خاندان پر یہ ان کا براہ راست احسان ہوتا ہے جس سے نہایت مفید نتائج کی توقع ہوسکتی ہے، تیسرے دیت کی شکل میں مقتول کے ورثا کی، بالخصوص جب کہ وہ غریب ہوں، ایسی مدد ہوجاتی ہے جس سے ان کو بڑا سہارا مل سکتا ہے۔ اگر ورثا کو اس میں کوئی دخل نہ رہا جائے، سارا اختیار پولیس اور عدالت ہی کو سونپ دیا جائے جیسا کہ موجودہ قوانین میں ہے تو وہ ان تمام فوائد سے یکسر محروم ہوجاتے ہیں جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا لیکن ان کے اس حق کے تسلیم کیے جانے باوجود قصاص کی اصل ذمہ دار اور اس کی نافذ کرنے والی ہے حکومت ہی۔ اس وجہ سے اگر وہ کسی خاص معاملہ میں محسوس کرے کہ وارثوں کی سرد مہری یا ان کی قاتلوں کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے قصاص کا حق ادا نہیں ہورہا ہے جس سے حرمت جان کا قانون متاچر ہورہا ہے تو وہ اس نقصان سے قانون کو بچانے کے لیے مناسب اقدام کرے گی۔ قصاص میں مساوات کا اہتمام :“ آزاد ”آزاد کے بدلے، غلام، غلام کے بدلے، عورت، عورت کے بدلے ”: یہ اس کامل مساوات کا بیان ہے جو قصاص میں لازماً ملحوط رکھنی ہے۔ یعنی اگر ایک آزاد نے دوسرے آزاد کو قتل کیا ہے تو النفس بالنفس کے قانون کے بموجب وہ آزاد ہی اس آزاد کے بدلے میں قتل کیا جائے گا اور بصورت خونبہا ایک آزاد ہی کی دیت اس کے بدلے میں واجب ہوگی۔ عرب جاہلیت کے طریقہ کے مطابق یہ نہیں ہوگا کہ مقتول کے ورثا اپنی شرافت و برتری کے زعم میں یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنے ایک مقتول کے بدلے میں قاتل کے خاندان کے دو یا اس سے زیادہ آزادوں کو قتل کریں گے، یا عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کریں گے یا غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کریں گے یا بصورت دیت عورت کی دیت مرد کی دیت کے برابر وصول کریں گے یا غلام کی دیت آزاد کی دیت کے معیار سے لیں گے۔ اسی طرح قاتل اور اس کے خاندان و قبیلہ والوں کو بھی اپنی شرافت و نجابت اور برتری کے زعم میں یہ دعوی کرنے کا حق نہیں ہے کہ ہمارا غلام دوسروں کے آزاد کا کفو یا ہماری ایک عورت دوسروں کے مرد کے برابر ہے اس وجہ سے ہم قصاص جانی یا مالی میں اسی نسبت کا لحاظ کرتے ہوئے مقتول کے ورثا سے معاملہ کریں گے۔ اسلام نے اس کامل مساوات کا اعلان کر کے زمانہ جاہلیت کی مذکورہ تمام برابریوں کا خاتمہ کردیا۔ یہود نے بھی اس معاملے میں شریک و رذیل اور اسرائیلی اور غیر اسرائیلی کے درمیان امتیاز قائم کر رکھا تھا۔ اس اعلان سے اس امتیاز کی بنیاد بھی ڈھے گئی۔ ایک طرف اسلام کے اس قانون کو ملاحظہ فرمائیے، جو چودہ سو سال سے اسلا کی کتاب تعزیرات میں موجود ہے، دوسری طرف عدل و مساوات کے علمبردار امریکہ میں کالوں اور گوروں کے اس امتیاز پر نظر ڈالیے جو زندگی کے ہر شعبہ میں آج اس بیسویں صدی میں بھی برتا جا رہا ہے۔ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ : یعنی اگر مقتول کے ورثا کی طرف سے قاتل کو کچھ جھوٹ دے دی جائے تو اس کو چاہیے وہ اس کی قدر کرے۔ اس چھوٹ کی شکل یہی ہوسکتی ہے کہ وہ قصاص جانی کے بجائے قصاص مالی پر راضی ہوجائیں تو قاتل اور اس کے خاندان والوں کا فرض ہے کہ وہ احسان مندی اور شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ معروف کے بموجب دیت ادا کریں اور ادائیگی نہایت حسن و خوبی کے ساتھ کریں۔ معروف سے مراد یہاں اہل عرب کا رواج اور دستور ہے جس کو دیت کے معاملے میں اسلام نے قانون کی حیثیت دے دی۔ حسن و خوبی کے ساتھ ادائیگی کی تاکید اس لیے فرمائی کہ عرب میں دیت کی ادائیگی بالعموم نقد کی صورت میں نہیں بلکہ جنس و مال کی شکل میں ہوتی تھی۔ اس وجہ سے اگر ادائیگی کرنے والوں کی نیت اچھی نہ ہوتی تو وہ اس میں بہت کچھ چالیں چل سکتے تھے۔ یہ بات بڑی آسانی سے ممکن ہے کہ اونٹوں یا بکریوں کی تعداد یا غلہ اور کھجور کی مقدار و کمیت کے لحاظ سے تو دیت کا مطالبہ پورا کردیا جائے لیکن باعتبار حقیقت و کیفیت اس کی حیثیت محض خانہ پری ہی کی ہو۔ اگر ایسا ہو تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ ان لوگوں کے احسان کی کوئی قدر نہیں کی گئی جنہوں نے ایک شخص کی جان پر شرعی اختیار پا کر اس کو معاف کردیا اور اس کی طرف سے مال قبول کرلینے پر راضی ہوگئے۔ ان کے احسان کا جواب تو احسان ہی ہونا چاہیے۔ یعنی دیت کی ادائیگی اس خوبی، فیاضی اور کشادہ دلی کے ساتھ کی جائے کہ ان کو یہ صدمہ نہ اٹھانا پڑے کہ انہوں نے اپنے ایک عزیز کے خون کے بدلے میں بھیڑ بکریاں قبول کر کے کوئی غلطی یا بےغیرتی کی۔ قصاص کے حکم کے تحت یہاں بغیر کسی سابق قرینہ کے جو خونبہا کا ذکر آگیا ہے تو اس کی بڑی وجہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے یعنی قصاص کا لفظ اپنے عام مفہوم میں قصاص جانی اور قصاص مالی دونوں ہی پر مشتمل ہے۔ اس میں کچھ چھوٹ ملنے کے معنی جیسا کہ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ کے الفاط سے واضح ہے، یہ ہے کہ اولیائے مقتول جان کے بدلے جان لینے کے بجائے رواج کے مطابق خونبہا لینے پر راضی ہوجائیں۔ یہ خونبہا کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رعایت و رحمت ہے۔ حرمت جان کا اصل حق تو یہی تھا کہ جان کے بدلے جان لی جاتی لیکن یہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی مہربانی سے اس میں رعایت فرما دی ہے تو اس رعایت کی قدر کرنی چاہیے اور اس سے کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔۔ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ : یعنی جو لوگ اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے بعد کسی ظلم و زیادتی کی راہ کھولیں گے تو وہ یاد رکھیں کہ پھر ان کے لیے آخرت کا عذاب دردناک ہی ہے جس سے چھڑانے والی کوئی چیز بھی نہیں ہوگی۔ اس میں قاتل اور اس کے خاندان والوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے بعد یہ انتہائی کفرانِ نعمت ہوگا کہ اس کے پردے میں مقتول کے خاندان پر کسی نئے ظلم کے لیے اسکیم بنائی جائے۔ مثلاً یہ کہ قاتل اور اس کے اعزا یہ منصوبہ بنائیں کہ اس وقت تو کسی طرح مقتول کے ورثا کو راضی کر کے اپنی جان بچا لو پھر موقع پیدا کر کے اس کو مزید نقصان پہنچائیں گے اسی طرح اس میں مقتول کے وارثوں کے لیے بھی تنبیہ ہے کہ انہیں اپنے دل میں یہ منصوبہ رکھ کے دیت کا راضی نامہ نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت تو قاتل سے دیت لے لیتے ہیں، بعد میں موقع ملنے پر اس کی جان بھی ٹھکانے لگا دیں گے۔ خدا کی بخشی ہوئی ایک رعایت کے تحت جو راضی نامہ ہوگیا ہے، دونوں فریقوں کو سچے دل سے اس کا احترام کرنا چاہیے، جو بھی یہ راضی نامہ ہوچکنے کے بعد کوئی زیادتی کرے گا وہ اللہ کے غضب کا مستحق ٹھہرے گا۔
Top