Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 177
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ١ۚ وَ اٰتَى الْمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ١ۙ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ١ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ١ۚ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰهَدُوْا١ۚ وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ١ؕ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ
لَيْسَ
: نہیں
الْبِرَّ
: نیکی
اَنْ
: کہ
تُوَلُّوْا
: تم کرلو
وُجُوْھَكُمْ
: اپنے منہ
قِبَلَ
: طرف
الْمَشْرِقِ
: مشرق
وَالْمَغْرِبِ
: اور مغرب
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
الْبِرَّ
: نیکی
مَنْ
: جو
اٰمَنَ
: ایمان لائے
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَالْيَوْمِ
: اور دن
الْاٰخِرِ
: آخرت
وَالْمَلٰٓئِكَةِ
: اور فرشتے
وَالْكِتٰبِ
: اور کتاب
وَالنَّبِيّٖنَ
: اور نبی (جمع)
وَاٰتَى
: اور دے
الْمَالَ
: مال
عَلٰي حُبِّهٖ
: اس کی محبت پر
ذَوِي الْقُرْبٰى
: رشتہ دار
وَالْيَتٰمٰى
: اور یتیم (جمع)
وَالْمَسٰكِيْنَ
: اور مسکین (جمع)
وَابْنَ السَّبِيْلِ
: اور مسافر
وَالسَّآئِلِيْنَ
: اور سوال کرنے والے
وَفِي الرِّقَابِ
: اور گردنوں میں
وَاَقَامَ
: اور قائم کرے
الصَّلٰوةَ
: نماز
وَاٰتَى
: اور ادا کرے
الزَّكٰوةَ
: زکوۃ
وَالْمُوْفُوْنَ
: اور پورا کرنے والے
بِعَهْدِهِمْ
: اپنے وعدے
اِذَا
: جب
عٰھَدُوْا
: وہ وعدہ کریں
وَالصّٰبِرِيْنَ
: اور صبر کرنے والے
فِي
: میں
الْبَاْسَآءِ
: سختی
وَالضَّرَّآءِ
: اور تکلیف
وَحِيْنَ
: اور وقت
الْبَاْسِ
: جنگ
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
الَّذِيْنَ
: وہ جو کہ
صَدَقُوْا
: انہوں نے سچ کہا
وَاُولٰٓئِكَ
: اور یہی لوگ
ھُمُ
: وہ
الْمُتَّقُوْنَ
: پرہیزگار
خدا کے ساتھ وفاداری محض یہ نہیں ہے کہ تم مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرلو بلکہ وفاداری ان کی وفاداری ہے جو اللہ پر، یوم آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور نبیوں پر صدق دل سے ایمان لائیں، اور اپنے مال، اس کی محبت کے باوجود، قرابت مندوں، یتیموں، مسکینوں مسافروں، سائلوں اور گردنیں چھڑانے پر خرچ کریں۔ اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں۔ جب معاہدہ کر بیٹھیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ خاص کر وہ لوگ جو فق و فاقہ، تکالیفِ جسمانی اور جنگ کے اوقات میں ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے راست بازی دکھائی اور یہی لوگ ہیں جو سچے متقی ہیں۔
آیت 177 کا مضمون : دین محض چند رسوم و ظواہر کا نام نہیں : اوپر والے مجموعہ آیات میں جیسا کہ واضح ہوا، توحید کا بیان تھا، اب مذکورہ آیات میں اس کے لوازم وثمرات یعنی ایمان، انفاق، اقامت صلوۃ، ادائے زکوۃ، ایفائے عہد اور ہر طرح کے حالات میں حق پر استقامت کا بیان ہورہا ہے۔ اس مضمون کی تمہید اس طرح ہے کہ خدا کے ساتھ وفاداری کا حق مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلینے سے ادا نہیں ہوگا جیسا کہ یہود و نصاری نے سمجھ رکھا ہے، چناچہ اسی مسئلہ پر ان کے ہاں ایک مدت سے معرکہ جدال و قتال گرم ہے۔ گویا ان کے خیال میں اصل دین یہی ہے۔ بلکہ اس کے لیے فلاں فلاں چیزوں کی ضرورت ہے۔ اس تمہید سے مقصود مسلمانوں کو یہ آگاہی دینا ہے کہ دین محض چند رسوم و ظواہر کا نام نہیں ہے بلکہ وہ زندگی سے نہایت گہرے تعلق رکھنے والے اعمال و اخلاق کا مجموعہ ہے اس وجہ سے وہ اگلی امتوں کی طرح صرف رسوم کے بندے بن کر نہ رہ جائیں بلکہ دین کی اصلی حقیقتوں کو اپنائی جو یہ ہیں۔ انہی کو اپنا کر وہ خدا کے ساتھ اپنی وفا داری کا حق ادا کرسکیں گے۔ ان کے بغیر محبت و وفاداری کے دعوے بالکل بےبنیاد ہیں۔ اس روشنی میں آیت کا ترجمہ و تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔ ‘ بر ’ کا اصل مفہوم عربی لغت میں کسی کے حق کو پورا کرنا ہے عام اس سے کہ خدا کا حق ہو، ماں باپ کا حق ہو، یا اللہ کے بندوں کا حق ہو۔ ان بنیادی حقوق کے علاوہ ان حقوق کا ایفا بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے جو معاہدات، قول وقرار، حلف و ولا، عقود اور قسموں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لفظ کی اس وسعت کی وجہ سے وہ ساری نیکیاں اس کے تحت جمع ہوجاتی ہیں جو عدل یا احسان کے تحت آسکتی ہیں۔ بَر اور بار اس سے صفت کے صیغے ہیں۔ بَر بوالدیہ اس سعادت مند بیٹے کو کہیں گے جو اپنے ماں باپ کا فرمانبردار اور ان کے حقوق پورے پورے ادا کرنے والا ہو۔ بر بالقسم کے معنی ہیں اس نے اپنی قسم پوری کردی۔ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی بَر کی صفت استعمال ہوئی ہے اس لیے کہ اس نے بندوں کے جو حقوق اپنے اوپر لیے ہیں یا جو وعدے ان سے کیے ہیں وہ ان کو ایک ایک کر کے دنیا اور آخرت دونوں جگہ پورے کرنے والا ہے۔ اس تفصیل سے واضح ہوا کہ حقوق و واجبات ہوں یا نیکیاں اور بھلائیاں سب اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ اس لفظ کی اس وسعت کی وجہ سے ہمیں ترجمہ کے لیے اردو میں کوئی ایسا لفط نہیں مل سکا جو اس کے پورے مفہوم کو ادا کردے۔ ہم نے جو لفظ اختیار کیا ہے وہ ہمارے نزدیک ایک حد تک لفظ کی اصل روح کو ادا کرتا ہے۔ لفظ بر کی یہ تحقیق زیادہ تر مولانا فراہی کی مفردات القرآن سے ماخوذ ہے۔ یہاں اصل بیان تو ایمان و انفاق اور نماز و زکوۃ وغیرہ کا ہے لیکن جیسا کہ اس باب کی تمہید میں ہم بیان کر آئے ہیں، ان احکام و شرائع کے پہلو بہ پہلو تجدید دین کے تقاضوں کے تحت ان بدعات کی تردید بھی ہے جو اہل کتاب یا مشرکین نے شریعت الٰہی میں داخل کردی تھیں اور جن کے سبب سے پوری شریعت یا تو مسخ ہو کر رہ گئی تھی یا صرف چند ظواہر اور رسوم کا مجموعہ بن گئی تھی۔ یہاں اسی تجدید دین کے تقاضے کے تحت اصل احکام کے بیان کی تمہید اس طرح اٹھائی کہ خدا کی بندگی اور اطاعت کا حق صرف مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرلینے سے ادا نہیں ہوجاتا بلکہ اصل شے وہ اعمال و اخلاق ہیں جن کی شریعت نے تعلیم دی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ یہود و نصاری پر تعریض ہے جن کے ہاں تورات و انجیل کی اصل تعلیمات تو طاق نسیاں پر رکھ دی گئی تھیں۔ لیکن قبلہ کے معاملہ میں مشرق و مغرب کا جھگڑا، جیسا کہ آیات 115، 142 کے تحت ہم بیان کر آئے ہیں، ان کے درمیان اس طرح اٹھ کھڑا ہوا تھا گویا سارے دین کا انحصار بس اسی چیز پر ہے۔ امت کے لیے ایک تنبیہ : یہ تمہید جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا ہے اس امت کے لیے تنبیہ ہے کہ اس طرح کی فروعی باتوں میں الجھ کر اصل دین سے دستبردار نہ ہوجانا ورنہ یہود و نصاری ہی کی طرح تم بھی مچھر کو چھاننے والے اور اونٹ کے نگلنے والے بن کر رہ جاؤگے اور جس طرح ان کا دعوائے خدا پرستی بےمعنی ثابت ہوا اسی طرح تمہاری خدا پرستی بھی بےمعنی ہو کر رہا جائے گی۔ ٹھیک اسی مفہوم کی تنبیہ آگے حج کے بیان کے سلسلہ میں بھی فرمائی ہے“ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى : یہ کوئی تقوی نہیں ہے کہ گھروں میں ان کے پچھواڑوں سے داخل ہو، تقوی تو اس کا ہے جو حدود الٰہی کا احترام ملحوظ رکھے ”(بقرہ : 189)۔ ان تمام تنبیہات سے مقصود، جیسا کہ عرض کیا گیا، اس امت کو یہود و نصاری اور مشرکین کی بدعات اور ظاہر پرستیوں سے بچا کر دین کی اصل حقیقتوں کی طرف متوجہ کرنا تھا لیکن افسوس ہے کہ یہ امت بھی انہیں وادیوں میں بھٹک کر رہ گئی جن میں پچھلی امتیں ہلاک ہوئیں تھیں۔۔ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ میں ایک مضاف عربی زبان کے عام قاعدے کے مطابق محذوف ہے گویا پوری عبارت یوں ہوگی وَلٰكِنَّ الْبِرَّ بِرُّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ۔ مضاف کے حذف کی مثال خود اسی زیر بحث آیت میں موجود ہے۔ فرمایا ہے وَفِي الرِّقَابِ ، ظاہر ہے کہ یہ وَفِي فَکِّ الرِّقَابِ ہے۔۔ ایمان سے یہاں، سیاق وسباق دلیل ہے کہ حقیقی ایمان مراد ہے۔ اس لیے کہ حقیقی ایمان ہی وہ چیز ہے جس سے آدمی خدا کی وفا داری کا حق ادا کرسکتا ہے۔ حقیقی ایمان اللہ پر یہ ہے کہ آدمی بلا کسی شائبہ شرک کے اپنے کو پورا پورا اپنے رب کے ھوالہ کردے۔ آخرت پر حقیق ایمان یہ ہے کہ آدمی مرنے کے بعد اٹھائے جانے کو تسلیم کرے، اپنے ہر قول و فعل کا خدا کے سامنے اپنے کو جواب دہ سمجھے اور جھوٹی شفاعتوں کے وہم میں مبتلا نہ ہو۔ فرشتوں پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ ان کی ہستی کو تسلیم کرے، ان کو معصوم اور قدسی صفت جانے، ان کو اللہ کی ہدایت لانے والا، امین اور معتمد مانے اور ان کو قضا و قدر کے فیصلوں کی تنفیذ کا ذریعہ سمجھے۔ ایمان بالکتاب کے معنی یہ ہیں کہ اس کو اللہ کا اتارا ہوا صحیفہ ہدایت مانے، اس کو حق و باطل کی کسوٹی سمجھے اور زندگی کے ہر پہلو میں اس کی رہنمائی پر پورا پورا اعتماد کرے۔ نبیوں پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ ان کو خدا کی طرف سے مامور اور واجب الاطاعت ہادی مانے، ان کے علم کو بےخطا سجھے، ان کے عمل کو زندگی کے لیے اسوہ قرار دے اور ان کی اطاعت، اتباع اور محبت کو لازم جانے۔ ایمان بالملائکہ : یہاں ایک بات ممکن ہے بعض ذہنوں میں کچھ کھٹکے، وہ یہ کہ ایمان کے اجزاء میں فرشتوں پر ایمان کو کیوں داخل کردیا ہے۔ جب کہ ان کا تجربہ صرف نبیوں ہی کو ہوا ہے اور ان پر ایمان لانے کا کوئی خاص علمی یا عملی فائدہ ایک عام آدمی پر واضح نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ایمان باللہ کا حق آخرت، کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے بغیر ادا نہیں ہوتا، انہی چیزوں پر ایمان لانے سے ایمان باللہ ہماری زندگی کی ایک محسوس، موثر اور فعال حقیقت بنتا ہے، اسی طرح ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسل کا ایک غیر منفک جزو ایمان بالملائکہ ہے۔ ملائکہ کو مانے بغیر خدا اور اس کے نبیوں کے درمیان کا واسطہ غیر واضح اور غیر معین رہ جاتا ہے، جس کے غیر واضح رہنے سے نہ صرف سلسلہ علم و ہدایت کی ایک نہایت اہم کڑی گم شدہ رہ جاتی ہے بلکہ ہدایت آسمانی کے باب میں عقل انسانی کو گمراہی کی بہت سی راہیں بھی مل جاتی ہیں۔ یہ بات تو دنیا ہمیشہ سے مانتی آئی ہے کہ خدا ہے اور یہ بات بھی اس نے ہمیشہ محسوس کی ہے کہ جب وہ ہے تو اسے اپنی مرضیات سے اپنے بندوں کو آگاہ بھی کرنا چاہیے لیکن جب وہ کبھی بےنقاب اور رو در رو ہو کر ہمارے سامنے نہیں آتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ذریعہ اور واسطہ کیا ہے جس سے وہ خلق کو اپنے احکام و ہدایات سے آگاہ کرتا ہے۔ اگر اس مقصد کے لیے اس نے اپنے خاص خاص بندوں کو منتخب کیا ہے، جن کو انبیاء و رسل کہتے ہیں تو بعینہ یہی سوال ان کے بارے میں بھی اٹھتا ہے کہ ان نبیوں اور رسولوں کو وہ اپنے علم وہدایت سے آگاہ کرنے کا کیا ذریعہ اختیار کرتا ہے۔ کیا رو در رو ہو کر خود ان سے بات کرتا ہے یا کوئی اور ذریعہ اختیار فرماتا ہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبیوں کے درمیان علم کا واسطہ وحی ہے جو وہ اپنے فرشتوں بالخصوص اپنے مقرب فرشتے جبریل کے ذریعہ سے بھیجتا ہے۔ یہ فرشتے خدا کی سب سے زیادہ پاکیزہ اور برتر مخلوق ہیں۔ ان کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ یہ براہ راست خدا سے وحی اخذ کرسکتے ہیں۔ یہ ہر وقت اپنے رب کی حمدو تسبیح میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ خدا کے احکام کی بےچون و چرا تعمیل کرتے ہیں اور چونکہ خدا کے حکم و اختیار کے تحت اور اس کی نگرانی میں کرتے ہیں اس وجہ سے نہ تو کوئی اور مخلوق ان کے کسی کام میں رکاوٹ ڈال سکتی اور نہ وہ خود ہی اس میں کبھی بھول چوک یا کسی غلطی کے مرتکب ہو سکتے انہی کے زمرہ کی ایک مقرب ہستی حضرت جبریل ؑ ہیں جو خدا کے ہاں سب سے زیادہ بلند مرتبہ اور مقرب ہیں۔ قرآن میں ان کی صفت ذی قوت، مطاع اور امین بھی آئی ہے، جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے وہ اس کے لیے تمام صلاحیتوں اور قوتوں سے بھرپور ہیں، دوسری قوتیں یا ارواح خبیثہ ان کو متاثر یا مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ان کے دائرہ کار میں سب بےچون و چرا ان کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں، مجال نہیں ہے کہ کوئی ان کے حکم سے سرتابی کرسکے، وحی الٰہی کی جو امانت نبیوں اور رسولوں تک پہنچانے کے لیے ان کے سپرد کی جاتی ہے وہ اس کو بےکم وکاست پہنچاتے ہیں، ممکن نہیں کہ اس میں کسی زیر زبر کا بھی فرق ہوسکے۔ وحی و رسالت کے ساتھ فرشتوں کے اس گہرے تعلق کی وجہ سے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانے کے لیے ان پر ایمان لانا بھی ضروری ہوا۔ یہ خدا اور اس کے نبیوں اور رسولوں کے درمیان رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور اس اعتبار سے یہ ناگزیر ہیں کہ یہی ایک ایسی مخلوق ہیں جو عالم لاہور اور عالم ناسوت دونوں کے ساتھ یکساں ربط رکھ سکتے ہیں، یہ اپنی نورانیت کی وجہ سے خدا کے انوار و تجلیات کے بھی متحمل ہو سکتے ہیں اور اپنی مخلوقیت کے پہلے سے انسانوں سے بھی اتصال پیدا کرسکتے ہیں۔ ان کے سوا کوئی اور مخلوق خدا تک رسائی کا یہ درجہ اور مقام نہیں رکھتی اس وجہ سے ضروری ہوا کہ نبیوں اور رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ ان رسولوں پر بھی ایمان لایا جائے جو خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان رسالت کا واسطہ ہیں۔ یہ حقیقت بھی یہاں پیش نطر رہے کہ عقل انسانی عالم لاہوت سے تعلق رکھنے والی ارواح کے تجسس میں ہمیشہ سے رہی ہے اور اس ضرورت کو اس نے اس شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے کہ اس تلاش میں اگر اس کو کوئی صحیح چیز نہیں مل سکی ہے تو جو غلط سے غلط چیز بھی اس کے ہاتھ آگئی ہے اسی کا دامن اس نے پکڑ لیا ہے۔ عرب کے کاہن و ساحر جانت، شیاطین اور ہاتف غیبی کو عال لاہوت سے تعلق کا ذریعہ سمجھتے تھے، ہندوستان کے جوتشی اور منجم ستاروں کی گردشوں کے اندر غیب کے اسرار ڈھونڈھتے تھے۔ چین کے مندروں کے پجاری اپنے باپ دادا کی ارواح کے توسط سے عالم غیب سے توسل پیدا کرتے تھے۔ قرآن نے ان تمام غلط وسائل اور واسطوں کی نفی کردی اور ان کے ذریعہ سے حاصل شدہ علم کو رطب و یابس کا مجموعہ ٹھہرایا اور ساتھ ہی یہ حقیقت واضح فرمائی کہ علم الٰہی کا قابل اعتماد ذریعہ صرف ملائکہ ہیں جو انبیاء کے پاس آتے ہیں اور جتنا کچھ خدا ان کو دیتا ہے وہ بےکم وکاست ان کو پہنچا دیتے ہیں۔۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ ایمان بالملائکہ، ایمان بالکتاب، اور ایمان بالانبیاء سب ایک دوسرے سے اتصال رکھنے والی کڑیاں ہیں اور جس طرح ایمان بالکتاب اور ایمان بالانبیاء ہماری زندگی کی نہایت محسوس حقیقتیں ہیں اسی طرح ایمان بالملائکہ بھی ہماری زندگی کی ایک نہایت اہم علمی و عملی حقیقت ہے۔ عَلٰي حُبِّهٖ میں ضمیر کا مرجع : وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ میں ضمیر مجرور یوں تو خد کی طرف بھی لوٹ سکتی ہے یعنی آدمی اپنا مال خدا کی محبت کی راہ میں خرچ کرے لیکن ہمارے نزدیک مختلف وجوہ سے ان لوگوں کا قول قابل ترجیح ہے جو اس کا مرجع مال کو قرار دیتے ہیں۔ یعنی آدمی مال کی محبت کے باوجود اس کو خدا کی راہ میں خرچ کرے۔۔ مال کی محبت کے مختلف پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ مال بجائے خود قیتی اور دل پسند ہو، دوسرا یہ کہ آدمی خود اس کا ایسا ضرورت مند ہو کہ دوسرے کے لیے ایثار کرنا نفس پر شاق ہو رہا ہو۔ تیسرا یہ کہ زمانہ قحط اور گرانی کا ہو جس میں کشادہ دست آدمی بھی محتاط اور کفایت پسند بن جایا کرتا ہے۔ عَلٰي حُبِّهٖ کا لفظ ان تینوں ہی صورتوں پر حاوی ہے۔ اس مفہوم کو ترجیح دینے کی ہمارے نزدیک کئی وجہیں ہیں۔۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ قرآن کے نظایر سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے، یہ بات واضح ہے کہ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ برّ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و وفاداری کا اعلی مرتبہ حاصل کرنے کے لیے انسان کو کس قسم کا انفاق کرنا چاہیے۔ یہ مضمون دوسرے مقامات میں جہاں جہاں بیان ہوا ہے وہاں صراحت کے ساتھ یہ بات بتائی گئی ہے کہ یہ مرتبہ اس مال کے خرچ کرنے سے حاصل ہوتا ہے جو محبوب ہو۔ مثلاً“ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ : تم کامل وفاداری کا درجہ نہیں حاصل کرسکتے جب تک اس مال سے خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہے ”(اٰل عمران : 92)۔ اسی طرح دوسرے مقام میں سچے اہل ایمان کی تعریف فرمائی گئی ہے کہ“ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ : اور وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود احتیاج ہو ”(حشر :9)۔ دوسری یہ کہ نبی ﷺ کے ارشادات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ آپ سے سوال کیا گیا کہ سب سے افضل صدقہ کون سا ہے۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ جو ایک بےمایہ اپنی محنت کی کمائی میں سے اپنے کسی ایسے عزیز پر خرچ کرتا ہے جو اس کے خلاف اپنے دل میں عداوت رکھتا ہے۔ تیسری یہ کہ اہل عرب کے ہاں بھی سب سے زیادہ قابل تعریف فیاضی انہی لوگوں کی سمجھی جاتی تھی جو زمانہ قحط و گرانی میں فیاضی کرتے تھے جب کہ مال، مالداروں کی نظر میں بھی بڑی محبوب چیز بن جاتا ہے۔ عرب شعرا نے اس صفت کی بالاتفاق تعریف کی ہے۔ دوسری قوموں میں بھی یہ صفت بلا اختلاف ممدوح ہے۔۔ چوتھی یہ کہ اس طرح کا انفاق اغلب یہی ہے کہ خدا کی محبت میں ہو، اس لیے کہ بغیر اس قوی محرک کے نفس کا اس قسم کے ایثار پر آمادہ ہونا بڑا شمکل ہے۔ اس پہلو سے یہ مفہوم پہلے مفہوم پر خود بخود حاوی ہوجاتا ہے۔ انفاق کے مصارف : انفاق کے مصارف میں سب سے پہلے قرابت مندوں کو رکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے اعزاء و اقربا اگر وہ ضرورت مند ہیں، اس کی اعانت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ دل میں عداوت بھی چھپائے ہوئے ہوں جب بھی سب سے افضل انفاق، جیسا کہ اوپر والی حدیث سے واضح ہوا، وہی ہے جو ان کے لیے کیا جائے۔۔ قرابت مندوں کے بعد معاً یتامی کا ذکر اسلامی معاشرہ میں ان کے درجہ و مرتبہ کو واضح کرتا ہے کہ اپنے عزیزوں کے بعد پہلی نظر آدمی کی ان بچوں پر پڑنی چاہیے جو سایہ پدری سے محروم ہوچکے ہیں اور جن کی کفالت و تربیت کی ساری ذمہ داری معاشرہ پر منتقل ہوچکی ہے۔۔ ابْنَ السَّبِيْلِ سے مرادمسافر ہے۔ مسافر مجرد اپنی مسافرت کی حالت کی بنا پر مستحق اعانت ہوتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ صاحب استطاعت ہے یا غیر صاحب استطاعت اگر مستحق اعانت ہونے کے لیے غیر صاحب استطاعت ہونے کی شرط ہوتی تو مسکین کے بعد اس کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ سائلین سے وہ لوگ مراد ہیں جو اعانت کے لیے سوال کر بیٹھیں۔ مساکین کے بعد ان کے مستقل ذکر کرنے سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو شخص سوال کر بیٹھے اس کے متعلق زیادہ کھوج کرید کی ضرورت نہیں ہے کہ واقعی وہ محتاج ہے یا نہیں۔ اگر وہ بےضرورت سوال کر رہا ہے تو اس کی جواب دہی خود اس کے اوپر اللہ کے ہاں ہے۔ ہمارا حق صرف یہ ہے کہ اگر ہم امداد کرسکتے ہوں تو ایسے شخص کی امداد کریں اور اگر معذور ہوں تو، جیسا کہ قرآن اور حدیث میں ہدایت ہے، شائستہ انداز سے اس کے سامنے اپنی معذرت پیش کردیں۔ وَفِي الرِّقَابِ میں رقاب رقبہ کی جمع ہے جس کے معنی گردن کے ہیں۔ اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں کہ یہاں مضاف محذوف ہے یعنی فِي فَکِّ الرِّقَابِ ، گردنوں سے مراد یہاں غلاموں کی گردنیں ہیں۔ ان کو طوق غلامی سے چھڑانا اور آزاد انسانوں کی سطح پر لانا انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہے اس وجہ سے اسلام نے اپنی مدات خیر میں ان کو بھی شامل کرلیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلامی کا معاملہ اسلام کے اپنے نظام کا کوئی جزو نہیں تھا، وقت کے بین الاقوامی قانونِ جنگ کے تحت اسلام نے اس کو محض وقتی طور پر اس لیے گوارا کیا تھا کہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر جنگ کے قیدیوں کے مسئلہ کا کوئی اور حل موجود نہیں تھا۔ لیکن اس کو گوارا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام نے اپنے ماحول میں غلاموں کی آزادی کی مختلف نوعیتوں سے حوصلہ افزائی کی۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کو خرید کر آزاد کردینے یا ان کی مکاتبت یعنی شرط آزادی کی رقم ادا کرنے کو ایک ثواب کا کام ٹھہرا دیا۔ اب اس زمانہ میں غلامی اگرچہ قانوناً ختم ہوچکی ہے اور یہ بات عین منشائے اسلام کے مطابق ہوئی ہے لیکن عملاً آج بھی بیشمار انسان اپنی معاشی مجبوریوں اور کا ص طور پر سودی قرضوں کی لعنت کے سبب سے ایسے بندھنوں میں گرفتار یا جیلوں میں بند ہیں کہ ان کو اگر غلام نہیں تو غلاموں سے مشابہ ضرور قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگوں کی گلو خلاصی اور ان کے رہن شدہ مکانوں اور کھیتوں کو چھڑانا بھی انشاء اللہ فَکُّ رَقَبَةٍ ہی کے درجے کی نیکی ہے۔ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ پر مفصل بحث اس کتاب کے شروع میں ہوچکی ہے۔ یہاں ایمان و انفاق کے ذکر کے بعد نماز اور زکوۃ کا ذکر ان دونوں کے قانونی و عملی مظاہر کی حیثیت سے ہوا ہے۔ ایمان کی عظیم حقیقت کا مظہر عملی نماز ہے اور انفاق کی وسیع حقیقت کا مظہر عملی نماز ہے اور انفاق کی وسیع حقیقت کا مظہر قانونی زکوۃ۔ مطلب ان دونوں کے ذکر سے یہ ہے کہ ایمان اور انفاق کی شہادت دینے کے لیے کم سے کم جو چیز مطلوب ہے وہ نماز اور زکوۃ کا اہتمام ہے۔ اگر یہ دونوں چیزیں غائب ہوجائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نہ ایمان باق رہا نہ انفاق در آنحالیکہ یہی وہ چیزیں ہیں جن سے بندہ خالق اور خلق کے ساتھ انے تعلق کو صحت مندانہ بنیاد پر قائم کرتا ہے۔ یہاں زکوۃ کا علیحدہ ذکر کرنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ اوپر جس انفاق کا ذکر ہے وہ اس قانونی مطالبہ سے الگ چیز ہے۔ برّ وتقوی کا درجہ صرف ادائے زکوۃ سے نہیں بلکہ سرّاً و علانیۃً فیاضانہ خرچ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔۔ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ (اور اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہیں) میں دفعۃً اسلوب کلام بدل گیا ہے۔ اوپر ایمان، انفاق، نماز اور زکوۃ کا ذکر فعل کی شکل میں آیا تھا۔ الْمُوْفُوْنَ کا عطف تو انہی پر ہے لیکن یہ اسم فاعل اور صفت کی صورت میں ہے۔ پھر آگے وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاء (اور ثابت قدم رہنے والے) آ رہا ہے جو ہے تو صفت کی صورت میں لیکن موفون پر معطوف ہونے کے باوجود صابرون کے بجائے صابرین یعنی حالت نصب میں ہوگیا ہے۔ اسلوب کا یہ رد و بدل صرف تنوع کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے کچھ معنوی فوائد بھی ہیں جن میں سے بعض کی طرف ہم اشارہ کریں گے۔ عربی زبان کے طلبہ اس بات سے واقف ہیں کہ عربی میں فعل کے صیغے تو صرف کسی فعل کے وقوع کو ظاہر کرتے ہیں لیکن صفت کے صیغے کسی مستقبل صفت، کسی خصلت اور کسی کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔ بلکہ ان کے اندر ایک عزم و جزم کی روح بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ سلسلہ کلام میں اگر کسی صفت کا ذکر بغیر کسی ظاہری سبب کے حالت نصب میں ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ متکلم اس پر خاص طور پر زور دینا چاہتا ہے۔ ہمارے اہل نحو اس بات کو علی سبیل المدح یا علی سبیل الاختصاص کی اصطلاح میں تعبیر کرتے ہیں۔ مثلا یہاں موفون کے بعد دفعۃ اس سے بالکل مختلف اسلوب میں، الصابرین، جو آگیا تو اس سے معنی میں یہ اضافہ ہوجائے گا کہ گویا متکلم یہ کہنا چاہتا ہے کہ انا اخص بالذکر الصابرین میں صابرین کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہتا ہوں۔ اسلوب کی اس وضاحت کے بعد اب یہ سوال ذہن میں پیدا ہوگا کہ اوپر عقائد اور عبادات کا ذکر تو سیدھے سادے فعل کے صیغوں سے کیا، پھر یہ ایفائے عہد اور صبر کی کیا خصوصیت تھی کہ ان کا ذکر اسلوب بدل بدل کر اس اہتمام و اختصاص اور اس تاکید و تنبیہ کے ساتھ فرمایا ؟ اس کے جواب میں چند باتیں پیش نظر رکھیے۔ دین میں سیرت و کردار کی اہمیت : ایک تو یہ کہ ان دونوں چیزوں کا تعلق سیرت و کردار سے ہے۔ سیرت و کردار کا معاملہ بڑے عزم و جزم اور ریاضت و تربیت کا محتاج ہوتا ہے۔ جہاں تک ظاہری عقائد و عبادات کا تعلق ہے ان کو نبھانے والے تو دین کے زوال انحطاط کے بعد بھی بہت سے نکل آتے ہیں لیکن کردار جو مغز دین اور روح دین ہے اس کا اہتمام بڑے بڑوں کے اندر بھی نہیں پایا جاتا۔ اہل مذاہب میں یہ کمزوری بہت نمایاں رہی ہے کہ انہوں نے عقائد و عبادات کے ظواہر پر تو بڑے بڑے معرکے اٹھائے ہیں لیکن کردار کی تعمیر پر انہوں نے بہت کم توجہ کی ہے۔ یہاں چونکہ اس آخری امت کی رہنمائی مقام بر و اطاعت کی طرف کی جا رہی ہے اس وجہ سے کردار کے پہلو پر خاص طور پر زور دیا گیا کہ یہ مقام بغیر اعلی کردار کے جن میں ایفائے عہد اور صبر کو اولین اہمیت ہے، حاصل نہیں ہوسکتا۔ دوسری یہ کہ غور کیجیے تو معلو ہوگا کہ تمام عقائد و عبادات سے اصل مقصود صرف چند باتوں کو مان لینا یا چند رسموں کو بجا لانا ہی تو نہیں ہے۔ ان کا اصل مقصود تو یہ ہے کہ اللہ و رسول پر ایمان لانے سے انسان کے اندر جو روشنی پیدا ہوتی ہے اس سے ہمارے دل جگمگا اٹھیں اور نماز روزے سے جو مضبوط انفرادی و اجتماعی کردار پیدا ہوتا ہے وہ ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کی خصوصیت بن جائے۔ یہ نہ ہو تو تمام عقائد و عبادات سمجھیے کہ بالکل بےجان و بےروح ہیں۔ یہی نکتہ ہے کہ قرآن نے ہر جگہ عقائد و عبادات کے پہلو بہ پہلو ان کے عملی اثرات کی طرف ضرور توجہ دلائی ہے تاکہ ان سے غفلت نہ ہونے پائے۔ تیسری یہ کہ امتحان و آزمائش کا اصلی میدان سیرت و کردار ہی کا میدان ہے۔ انسان کا اصلی خزانہ جو وہ دین کی مدد سے فراہم کرتا ہے یا کرسکتا ہے مضبوط اور پاکیزہ سیرت ہی ہے۔ یہی چیز اس کو انفرادی زندگی میں بھی مقام برّ وتقوی پر سرفراز کرتی ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی اس کے لیے ابرار و صالحین اور شہداء و صدیقین کی معیت کی ضامن بنتی ہے۔ اس وجہ سے ضروری ہوا کہ اس پر خاص طور پر زور دیا جائے کہ مسلمان ہر قسم کی آزمائشوں اور ہر طرح کے فتنوں میں اپنے اس خزانہ کی حفاظت کے لیے چوکنا رہے۔ عہد اور ایفائے عہد : ایک سوال یہاں اور بھی پیدا ہوسکتا ہے وہ یہ کہ یہاں سیرت و کردار سے متعلق صرف دو ہی چیزوں کا ذکر فرمایا۔ ایک ایفائے عہد کا، دوسری صبر کا۔ اس فہرست میں اور بھی چیزیں شامل ہوسکتی تھیں، آخر ان کا ذکر کیوں نہیں فرمایا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں در حقیقت سیرت و اخلاق سے متعلق تمام اجزا کے لیے بمنزلہ شیرازہ ہیں۔ ایفائے عہد کے اندر تمام چھوٹے بڑے حقوق و فرائض آجاتے ہیں خواہ وہ خلق سے متعلق ہوں یا خالق سے، خواہ وہ کسی تحریری معاہدہ سے وجود میں آتے ہوں یا کسی نسبت، تعلق، رشتہ داری اور قرابت سے، خواہ ان کا اظہار و اعلان ہوتا ہو یا وہ ہر اچھی سو سائٹی میں بغیر کہے ہوئے سمجھے اور مانے جاتے ہوں۔ اللہ اور رسول، ماں اور باپ، بیوی اور بچے، خویش و اقارب، کنبیہ اور خاندان، پڑوسی اور اہل محلہ، استاذ اور شاگرد، نوکر اور آقا، ملک اور قوم، یہ ایک کے ساتھ ہم کسی نہ کسی ظاہری یا مخفی معاہدہ کے تحت بندھے ہوئے ہیں اور یہ برّ وتقوی کا ایک لازمی تقاضا ہے کہ ان تمام معاہدوں کے حقوق ادا کرنے والے بنیں۔ گویا ایفائے عہد کی اصل روح ایفائے حقوق ہے اور ایفائے حقوق انسان کے تمام چھوٹے بڑے فرائض کو محیط ہے۔ اس کے ساتھ صبر کی صفت کو جمع کر کے یہ واضح فرما دیا کہ ہر وہ مزاحمت جو ایفائے حقوق کی اس راہ میں حائل ہو مومن عزیمت و استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے اور کسی حال میں بھی طمع، پست ہمتی یا خوف سے مغلوب نہ ہو۔ صبر کے تین مواقع کا حوالہ دیا ہے۔ ایک بَاْسَاءَ کا جس سے فقر و فاقہ کی تکالیف مراد ہیں۔ دوسرے ضَرَّاءَ کا جس سے تکالیف جسمانی کی طرف اشارہ ہے۔ تیسرے بَاس کا جس سے جنگ کے حالات مراد ہیں۔ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ انسان کا عزم انہی تین راہوں سے آزمائش میں پڑ سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان تینوں حالتوں کے اندر موقف حق پر ثابت قدم رہنے میں کامیاب ہوجائے تو اس کے بر وتقوی کے اعلی سے اعلی مقام پر فائز ہونے میں کسے کلام ہوسکتا ہے۔ چناچہ فرمایا کہ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ : یہی لوگ ہیں جو اپنے دعائے وفا داری میں سچے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو حقیقت میں متقی ہیں۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکل آئی کہ جو لوگ محض چند خالی خولی ظاہر داریوں سے خدا کی وفاداری کا حق ادا کرتے ہیں وہ نہ تو اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں، نہ متقی ہیں۔ ایک نکتہ یہاں اور بھی ملحوظ رہے وہ یہ کہ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ کے ساتھ اذا عاھدوا کی جو قید لگی ہوئی ہے اس سے بھی اس عزم و استقلال کا اظہار ہو رہا ہے جو ان وفا پرستوں کے اندر پایا جاتا ہے۔ اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب یہ ہے کہ جب وہ کوئی عہد کر بیٹھتے ہیں تو خواہ کچھ ہی ہو، اس کے سبب سے انہیں کیسے ہی نقصانات و آلام سے دو چار کیوں نہ ہونا پڑے لیکن وہ پیٹھ نہیں دکھاتے بلکہ جان کی بازی لگا کر اس کو پورا کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا اس معاملہ میں جو رویہ رہا ہے وہ پوری تاریخ انسانی میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ خاص کر صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے ابوجندل کے معاملہ میں معاہدہ کا جو احترام کیا وہ تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔
Top