Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 176
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ نَزَّلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْكِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍۭ بَعِیْدٍ۠   ۧ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ نَزَّلَ : نازل کی الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَاِنَّ : اور بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اخْتَلَفُوْا : اختلاف کیا فِي : میں الْكِتٰبِ : کتاب لَفِيْ : میں شِقَاقٍ : ضد بَعِيْدٍ : دور
یہ اس لیے ہوگا کہ اللہ نے اپنی کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے اور جن لوگوں نے اس کتاب کے معاملہ میں اختلاف کیا ہے وہ مخالفت میں بہت دور نکل گئے
یہ اس ناراضگی اور غضب کا سبب بیان ہو رہا ہے جس کا ذکر اوپر کی آیات میں ہوا ہے۔ یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس عتاب کے مستحق اس وجہ سے ٹھہریں گے کہ خدا نے ان کو راہ رست پر لانے کے لیے ایک ایسی کتاب اتاری جو تمام جھگڑوں اور سارے اختلافات کو چکا دینے والی ہے لیکن انہوں نے اس کے بعد بھی ہدایت کی جگہ ضلالت ہی کو اختیار کیا تو یہ اسی بات کے مستحق ہیں کہ یہ ہمیشہ کے لیے خدا کی نظر التفات سے محروم ہو کر اس عذاب میں پڑیں جس سے ان کو کبھی نکلنا نصیب نہ ہو۔ اس میں بِالْحَـقِّ کے لفظ سے مراد یہ ہے کہ خدا نے یہ کتاب قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے۔ یعنی اہل کتاب نے حق پوشی اور تحریف کر کے اللہ کے دین میں جو طرح طرح کے اختلافات پیدا کردئیے تھے اور جس کے سبب سے یہ معلوم کرنا سخت مشکل ہوگیا تھا کہ کیا حرام ہے، کیا حلال، کیا حق ہے اور کیا باطل، اللہ نے قرآن کے ذریعہ سے اس اختلاف و نزاع کو بالکل رفع کردیا، اب حق کی راہ ہر طالب حق کے لیے پھر کھل گئی ہے اور خدا کی شریعت اپنی صحیح اور مکمل شکل میں لوگوں کے سامنے آگئی ہے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ انہی جھگڑوں میں پڑے رہیں تو ان کی شامت اور بدبختی ہی ہے۔ شقاق کے معنی مخالفت اور عناد کے ہیں۔ چناچہ فرمایا ہے لفظ حق کے مختلف معانی کی تحقیق آیت 71 کے تحت ملاحظہ ہو۔ یہاں مراد قول فیصل ہے وَيَا قَوْمِ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ (ھود :89) ، اے میری قوم کے لوگو، میری مخالفت اور دشمنی تمہارے لیے اس بات کا باعث نہ بن جائے کہ تمہارے اوپر بھی اس طرح کا عذاب آدھمکے جس طرح کا عذاب قوم نوح پر آیا۔۔ شقاق کے ساتھ جب بعید کی صفت لگ جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ کسی شخص یا چیز کی مخالفت اور دشمنی میں کوئی شخص اس قدر آگے بڑھ جائے اور اتنی دور نکل جائے کہ اس کو اپنے نفع و نقصان کا بھی کچھ ہوش نہ رہا جائے، اور پھر اس کے لیے اتنی دور سے پلٹنے اور تلافی مافات کرنے کا کوئی امکان ہی باقی نہ رہے۔ ان اہل کتاب کے متعلق فرمایا کہ تورات کے بعد اب قرآن میں بھی انہوں نے یہ جو اختلاف کیا ہے یہ محض ان کی ضدم ضدا کا کرشمہ ہے اور یہ اب اس راہ میں اتنی دور تک نکل گئے ہیں کہ ان کے واپس لوٹنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا ہے۔
Top