Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 155
وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ : اور ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں بِشَيْءٍ : کچھ مِّنَ : سے الْخَوْفِ : خوف وَالْجُوْعِ : اور بھوک وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے الْاَمْوَالِ : مال (جمع) وَالْاَنْفُسِ : اور جان (جمع) وَالثَّمَرٰتِ : اور پھل (جمع) وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دیں آپ الصّٰبِرِيْن : صبر کرنے والے
بیشک ہم تمہارا امتحان کریں گے کسی قدر خوف، بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوش خبری سنا دو
آگے کی مشکلات کی طرف اجمالی اشارہ : یہ ان آزمائشوں کی طرف اجمالی اشارہ ہے جو آگے کے مراحل میں پیش آنے والی ہیں۔ یہ آزمائشیں اگرچہ پیش تو آئیں گی دشنوں کی شرارتوں اور سازشوں کے باعث لیکن چونکہ یہ اس سنت اللہ کے تحت ہیں جو ازل سے اللہ تعالیٰ نے اہل حق اور اہل باطل میں امتیاز کے لیے مقرر کر رکھی ہے اس وجہ سے ان کو منسوب اپنی طرف فرمایا ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے، اور بات بصیغہ تاکید فرمائی ہے۔ اس لیے کہ اہل حق کے لیے یہ امتحان و آزمائش قانون الٰہی میں ناگزیر ہے۔ اس قسم کے امتحانوں سے گزر کر ہی بندوں کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں اور ان کے کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوتا ہے۔ اس امتحان کے بغیر کوئی گروہ اللہ تعالیٰ کی اخروی نعمتوں کا سزا وار قرار نہیں پاتا۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے خوف کا ذکر فرمایا ہے۔ خوف سے مراد دشمنوں کے حملہ و ہجوم کا اندیشہ ہے۔ اوپر اشارہ گزر چکا ہے کہ ایک مستقل امت کی حیثیت سے نمایاں ہوتے ہیں قریش نے بھی مسلمانوں پر حملے کے لیے بہانے پیدا کرنے شروع کردئیے اور یہود نے بھی ریشہ دوانیاں شروع کردیں، پھر آہستہ آہستہ ان کی طرف سے حملوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہاں تک کہ باہر کی قوموں نے بھی اس میں دلچسپی لینی شروع کردی اور یہ سلسلہ اس وقت جا کر ختم ہوا جب مسلمانوں نے اپنی عزیمت و استقامت سے اپنے تمام حریفوں کا زور اچھی طرح توڑ دیا۔ اس خوف کا ذکر " بشیء " یعنی " کسی قدر " کی قید کے ساتھ کیا ہے جس سے مقصود مسلمانوں کی ہمت افزائی ہے کہ یہ حالت پیش تو ائے گی لیکن یہ اس مقدار سے زیادہ نہ ہوگی جو تمہاری عزیمت و اسقامت کی جانچ کے لیے ضروری ہے، اس وجہ سے اس سے دل شکستہ اور پست ہمت ہونے کے بجائے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ جوع سے مراد وہ معاشی مشکلات ہیں جو قریش اور یہود کی مشترکہ مخالفت، خوف و خطرے کی حالت اور ان کی طرف سے غذائی ناکہ بندیوں کے سبب سے پیش آسکتی ہیں۔ اس وقت ملک کی تمام تجارت اور دوسرے معاشی وسائل و ذرائع سے پر عملاً یہود اور قریش ہی قابض تھے۔ اس وجہ سے ان کے ساتھ جھگڑا مول لینا، دریا میں رہتے ہوئے مگرمچھوں سے بیر مول لینے کے ہم معنی تھا۔ لیکن حق کی رفاقت مقتضی تھی کہ مسلمان یہ خطرہ بھی مول لیں۔ چناچہ انہوں نے یہ خطرہ بھی مول لیا اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ خطرہ ظاہر تو ہوا بعض حالات میں بہت ہی بھیانک شکل میں لیکن عزم و ایمان کے مقابل میں یہ بھی ٹھہرا پرکاہ (بشیء) ہی کے برابر۔۔ اس کے بعد اموال وانفس یعنی مال اور جان کی کمی کی آزمائش کی طرف اشارہ فرمایا اس لیے کہ جنگ و جہاد میں یہی دونوں چیزیں وسیلہ کار بنتی ہیں جس کے سبب سے سب سے زیادہ قربانی انہی کی دینی پڑتی ہے۔ نیز امن و اطمینان کے فقدان کے سبب سے یہ اس نگہداشت سے بھی محروم ہوجاتی ہیں جو ان کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔۔ ثمرات کا ذکر اگرچہ اموال کے ذکر کے بعد بظاہر کچھ زائد سا معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ یہ بھی اموال میں شامل ہے۔ لیکن اس کے ذکر میں موقع کلام کی رعایت ملحوظ ہے۔ اہل عرب کی دولت یا تو اونٹ اور بھیڑ بکریاں تھیں جن کے لیے اموال کا لفظ اتعمال ہوتا تھا یا پھر پھل خصوصاً کھجور۔ ملک کی اس مخصوص حالت کی وجہ سے اموال کے ساتھ ثمرات کا ذکر بھی ہوا۔۔ آخر میں ان لوگوں کو خوش خبری دی گئی ہے جو ان تمام آزمائشوں کے باوجود حق پر جمے رہیں، اور اپنے عزم و ایمان میں کوئی ضعف پیدا نہ ہونے دیں۔ یہ خوش خبری قرآن کی دوسری جگہ کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی پر مشتمل ہے، مثلاً فرمایا ہے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ۔ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ۔ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهَارُ وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ۔ وَأُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ (صف :10-13) ، اے ایمان والو، کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کا پتہ نہ دوں جو تمہیں ایک دردناک عذاب سے نجات دینے والی ہے ؟ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرو، یہ تمہارے لیے کہیں بہتر ہے، اگر تم اس بات کو سمجھو، اللہ تمہارے گناہوں کو بخشے گا اور تمہیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور ایسے اچھے مکانوں میں اتارے گا جو ابد کے باغوں میں ہیں، یہ در اصل سب سے بڑی کامیابی ہے۔ مزید برآن ایک دوسری چیز بھی تمہیں حاصل ہوگی جس کو تم عزیز رکھتے ہو، وہ ہے اللہ کی مدد اور عنقریب حاصل ہونے والی فتح اور اس بات کی ایمان والوں کو بشارت سنا دو۔
Top