Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 66
رَبُّكُمُ الَّذِیْ یُزْجِیْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِی الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا
رَبُّكُمُ : تمہارا رب الَّذِيْ : وہ جو کہ يُزْجِيْ : چلاتا ہے لَكُمُ : تمہارے لیے الْفُلْكَ : کشتی فِي الْبَحْرِ : دریا میں لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اس کا فضل اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے بِكُمْ : تم پر رَحِيْمًا : نہایت مہربان
تمہارا رب وہی ہے جو تمہارے لیے سمندر میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کے فضل کے طالب بنو۔ بیشک وہ تمہارے حال پر بڑا مہربان ہے
آگے کا مضمون۔ آیات 66 تا 72:۔ سرکشوں اور غافلوں کی تمثیل : آگے انسان کی اس حالت کی تمثیل ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں پکڑا جاتا ہے تب وہ خدا خدا پکارتا اور اسی کے آگے روتا اور گڑگڑاتا ہے لیکن جوں ہی اس مصیبت سے نجات پا جاتا ہے پھر اکڑنے اور سرکشی کرنے لگتا ہے۔ اسے یہ بات بالکل فراموش ہوجاتی ہے کہ اگر خدا چاہے تو اس کو پھر اسی حالت میں گرفتار کرسکتا ہے اور اس طرح گرفتار کرسکتا ہے کہ پھر اس سے کبھی رہائی نصیب نہ ہو۔ اس کے بعد دو گروہوں کی تمثیل ہے ایک ان لوگوں کی جو دنیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اس سے صحیح سبق حاصل کرتے ہیں اور دوسری ان لوگوں کی جو ہمیشہ اندھے بنے رہتے ہیں۔ ان دونوں قسم کے لوگوں کا آخرت میں جو انجام ہوگا وہ بیان فرمایا۔ یہ ساری تصویر و تمثیل قریش کے کفار کی ہے جو قرآن کے مخاطب اول تھے لیکن یہی رویہ دوسرے سرکشوں کا بھی ہوتا ہے اس وجہ سے بات عام الفاظ میں فرمائی گئی ہے۔ آیات کی تلاوت کیجیے۔ تفسیر آیات 66 تا 67: رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـيْمًا۔ وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىكُمْ اِلَى الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ كَفُوْرًا۔ اللہ کی نعمتوں کی ناقدری : یہ تمثیل ہے اس بات کی کہ ہر نعمت جو انسان کو ملتی ہے اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے ل۔ اس کا حق یہ ہے کہ انسان اس نعمت سے متمتع اور اپنے رب کا شکر گزار ہو لیکن یہ انسان کی عجیب بدبختی ہے کہ جب اس کو نعمت ملتی ہے تو وہ خدا سے اکڑتا ہے اور ہر چیز کو اپنی سعی و تدبیر کا کرشمہ اور اپنے مزعومہ دیویوں دیوتاؤں کا فضل و کرم سمجھتا ہے لیکن جب کسی گردش میں آجاتا ہے تو خدا خدا پکارنے لگتا ہے، اس وقت سارے دیوی دیوتا اس کو بھول جاتے ہیں۔ پھر جب اللہ اس گردش سے اس کو نجات دے دیتا ہے تو وہ پچھلی خرمستی اس پر عود کر آتی ہے اور خدا کو وہ پھر طاق نسیاں پر رکھ دیتا ہے۔ کشتی اور دریا کی ایک مثال : اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کشتی اور دریا کے سفر کی مثال دی ہے کہ یہ خدا ہی کی قدرت ہے کہ ہزاروں ٹن کا وزنی جہاز سمندر کے سینے پر چلتا ہے۔ اللہ نے یہ انتظام اس لیے فرمایا ہے کہ انسان اپنے سفروں میں اس سے فائدہ اٹھائے اور خدا کے اس فضل و رحمت پر اس کا شکر گزار ہو لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب کشتی رواں دواں رہتی ہے اس وقت تک تو خدا کا اس کو کبھی خیال بھی نہیں آتا لیکن جب کشتی کسی طوفان میں گھر کر ہچکولے کھانے لگتی ہے تو اس وقت اس کو اپنی اکڑ بھی بھول جاتی ہے اور دوسرے دیوی دیوتا بھی بھول جاتے ہیں، اس وقت وہ صرف خدا ہی سے فریاد و استغاثہ کرتا ہے لیکن یہ حالت صرف اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کشتی گردابِ بلا میں رہتی ہے۔ جو ہی کشتی اس گرداب بلا سے نکلی اور انسان نے خشکی پر قدم رکھا پھر نہ اسے مصیبت کی وہ ساعت یاد رہتی ہے اور نہ اس کو خدا سے اپنا رونا اور گڑگڑانا یاد رہتا۔ اس تمثیل میں آنحضرت ﷺ کے لیے تسلی بھی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ قریش کے سرکش لوگ تم سے عذاب کی جو نشانی مانگ رہے ہیں اگر نشانی ان کو دکھا دی گئی تو یہ ایمان و ہدایت کی راہ اختیار کرلیں گے بلکہ جب مصیبت میں پھنسیں گے تو خدا خدا پکاریں گے لیکن اس سے چھوٹتے ہی پھر اپنی پچھلی بدمستیوں ہی میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ایمان و ہدایت کی راہ یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت کی صداؤں پر کان دھرے اور اپنی عقل کی رہنمائی کو قبول کرے۔ یہ لوگ اس کے لیے تیار نہیں ہیں تو عذاب کی کسی نشانی سے ان کو ہدایت کی راہ کس طرح مل جائے گی۔
Top