Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 46
وَّ جَعَلْنَا عَلٰى قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ یَّفْقَهُوْهُ وَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا١ؕ وَ اِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِی الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰۤى اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا
وَّجَعَلْنَا : اور ہم نے ڈال دئیے عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل اَكِنَّةً : پردے اَنْ : کہ يَّفْقَهُوْهُ : وہ نہ سمجھیں اسے وَ : اور فِيْٓ : میں اٰذَانِهِمْ : ان کے کان وَقْرًا : گرانی وَاِذَا : اور جب ذَكَرْتَ : تم ذکر کرتے ہو رَبَّكَ : اپنا رب فِي الْقُرْاٰنِ : قرآن میں وَحْدَهٗ : یکتا وَلَّوْا : وہ بھاگتے ہیں عَلٰٓي : پر اَدْبَارِهِمْ : اپنی پیٹھ ٠ جمع) نُفُوْرًا : نفرت کرتے ہوئے
اور ان کے دلوں پر حجاب اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیتے ہیں کہ نہ اس کو سمجھیں نہ سنیں اور جب تم قرآن میں تنہا اپنے رب ہی کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت کے ساتھ پیٹھ پھیر لیتے ہیں
وَّجَعَلْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ اَكِنَّةً اَنْ يَّفْقَهُوْهُ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا ۭ وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا۔ " اکنۃ " " کنان " کی جمع ہے جس کے معنی پردہ ہے۔ ان یفقہوہ، یعنی کراھۃ ان یفقہوہ، " ان " سے پہلے مضاف حذف ہوگیا ہے۔ وَفِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرًا، کے بعد " ان یسمعوہ، حذف ہے قرینہ اس پر دلیل ہے۔ یہ اوپر والے مضمون ہی کی مزید وضاحت ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ قرآن کو نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیا ہے کہ وہ اس کو نہ سنیں، وَاِذَا ذَكَرْتَ رَبَّكَ فِي الْقُرْاٰنِ وَحْدَهٗ وَلَّوْا عَلٰٓي اَدْبَارِهِمْ نُفُوْرًا، یہ ان کی قرآن سے وحشت کا دوسرا بڑا سبب ہے کہ چونکہ تم قرآن میں صرف اللہ واحد ہی کا ذکر سناتے ہو ان کے مزعومہ معبودوں کو کوئی درجہ نہیں دیتے، اور یہ لوگ آخرت کی طرح توحید سے بھی بیزار ہیں اس وجہ سے قرآن کو سنتے ہی وحشت زدہ ہو کر پیٹھ پیچھے بھاگتے ہیں۔ ختم قلوب کی سنت الٰہی : آیت میں دلوں پر پردہ اور کانوں میں ثقل پیدا کرنے سے اشارہ اس سنت الٰہی کی طرف ہے جس کا ذکر سورة بقرہ میں ختم قلوب کے عنوان سے ہوا ہے۔ ہم سورة بقرہ کی تفسیر میں پوری تفصیل کے ساتھ اس سنت الٰہی کے ہر پہلو کی وضاحت کرچکے ہیں۔ تفصیل کے طالب اس کو پڑھیں۔ یہاں اس کے اعادے میں طوالت ہوگی۔
Top