Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 32
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً١ؕ وَ سَآءَ سَبِیْلًا
وَلَا تَقْرَبُوا : اور نہ قریب جاؤ الزِّنٰٓى : زنا اِنَّهٗ : بیشک یہ كَانَ : ہے فَاحِشَةً : بےحیائی وَسَآءَ : اور برا سَبِيْلًا : راستہ
اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو۔ کیونکہ یہ کھلی ہوئی بےحیائی اور نہایت بری راہ ہے
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا۔ منہیات کا بیان : آیت 31 پر قرآنی اوامر، عدل، احسان، ایتائے ذی القربی، سے متعلق بنیادی مسائل ختم ہوئے اب آگے قرآنی منہیات۔ فحشاء، منکر، بغی کے تحت جو چیزیں آتی ہیں ان کا بیان شروع ہورہا ہے۔ زنا اور اس کے محرکات کی ممانعت : منہیات کے باب میں سب سے پہلے زنا کو لیا ہے اس لیے کہ یہ برائی صالح معاشرہ کی جڑ پر کلہاڑا مارنے والی برائی ہے۔ صالح معاشرہ کی بنیاد صالح خاندان پر ہے۔ صالح خاندان صحیح فطری جذبات کے ساتھ صرف اسی صورت میں وجود پذیر ہوسکتا ہے جب والدین کے ساتھ اولاد کا تعلق صحیح خون، صحیح نسب اور پاکیزہ رحمی رشتہ پر استوار ہو اگر یہ چیز مفقود ہوجائے تو خاندان خاندان نہیں بلکہ فطری و روحانی جذبات و عوطف سے بالکل محروم نا آشنا حیوانات کا ایک گلہ ہے۔ حیوانات کا کوئی گلہ نہ کسی صالح معاشرہ کی بنیاد رکھ سکتا نہ کسی صالح تمدن کا مقدمۃ الجیش بن سکتا۔ قرآن نے زنا کے اس مفسدے کے باعث اس کو اپنی منہہیات کے باب میں سب سے پہلے لیا ہے اور ایسے لفظوں میں اس سے روکا ہے جو زنا اور زنا کے تمام دواعی و محرکات کا سدباب کرنے والے ہیں۔ فرمایا لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى، جس کے معنی ہیں زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو۔ " زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو " یعنی ان تمام باتوں سے بھی دور دور رہو جو زنا کی محرک، اس پر اکسانے والی اور اس کے قریب لے جانے والی ہیں۔ یہاں بات صرف اصولی حیثیت سے فرمائی گئی ہے۔ اس وجہ سے اس کی کوئی تفصیل نہیں آئی ہے۔ اس کی تفصیل سورة نور میں آئے گی جو اس گروپ کی آخری سورة ہے۔ اس کی تفسیر میں انشاء اللہ ہم واضح کریں گے کہ قرآن نے کن کن باتوں سے محض اس بنیاد پر روکا ہے کہ وہ زنا کے مقدمات و محرکات میں سے ہیں۔ اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً ۭ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا، یہ زنا کی ممانعت کی دلیل بیان ہوئی ہے کہ یہ کھلی ہوئی بےحیائی اور نہایت ہی بری راہ ہے، کھلی ہوئی بےحیائی، یعنی اس کے برائی اور بےحیائی ہونے پر کسی منطقی بحث و حجت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ فطرت انسانی کی قدیم ترین جانی پہچانی ہوئی حقیقتوں میں سے ایک واضح ترین حقیقت ہے۔ انسان جب سے دنیا میں موجود ہے اس نے مرد اور عورت کے آزادانہ تعلق کو کبھی گوارا نہیں کیا بلکہ اس پر ہمیشہ نہایت سخت پابندیاں رہی ہیں اور وہ لوگ کبھی خوش دلی کے ساتھ معاشرے میں گوارا نہیں کیے گئے ہیں جنہوں نے ان پابندیوں کو توڑا ہے۔ وَسَاۗءَ سَبِيْلًا، یعنی اس طریق اقوم سے یہ بالکل منحرف راہ ہے جس کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔ جو لوگ اس راستہ پر چل پڑتے ہیں وہ صالح خاندان، صالح معاشرہ اور بالآخر صالح حکومت سب کی جڑیں اکھاڑ کے رکھ دیتے ہیں۔
Top