Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 106
وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا
وَقُرْاٰنًا : اور قرآن فَرَقْنٰهُ : ہم نے جدا جدا کیا لِتَقْرَاَهٗ : تاکہ تم اسے پڑھو عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ عَلٰي مُكْثٍ : ٹھہر ٹھہر کر وَّنَزَّلْنٰهُ : اور ہم نے اسے نازل کیا تَنْزِيْلًا : آہستہ آہستہ
اور قرآن کو تو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے اتارا کہ تم اس کو لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سناؤ اور ہم نے اس کو نہایت اہتمام سے اتار ہے
قرآن کے تدریج کے ساتھ اترنے کی حکمت : وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنْزِيلا، یعنی یہ قرآن جو جستہ جستہ اتر رہا ہے تو اس وجہ سے نہیں، جیسا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ تم حالات کے مطابق سوچتے ہو اور جتنا تیار کرپاتے ہو اتنا سنا دیتے ہو، بلکہ یہ ہم ہی جستہ جستہ کرکے اس کو تم پر اتار رہے ہیں تاکہ تم اس کو بالتدریج لوگوں کو سناؤ کہ یہ لوگوں کے فکر و عمل کا جزو بنا جائے۔ اگر ان کا یہ گمان ہے کہ یہ خدائی کتاب ہوتی تو لازماً پوری کی پوری بیک دفعہ نازل ہوجاتی اس لیے کہ خدا کو کسی تیار کی ضرورت نہیں تھی تو یہ گمان بھی صحیح نہیں ہے۔ خدا کو تو بلاشبہ کسی اہتمام و تیاری کی حاجت نہیں ہے۔ وہ چاہتا تو پوری کتاب ایک ہی وقت میں نازل کردیتا لیکن اس نے بندوں کی ضرورت اور ان کے حالات کا لحاظ فرمایا اور اس کو نہایت تدریج و اہتمام کے ساتھ اتار ہے۔ " تنزیل " کا مفہوم، جیسا کہ ہم دوسرے مقامات میں واضح کرچکے ہیں، تدریج و اہتمام کے ساتھ اتارنا ہے۔
Top