Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 107
قُلْ اٰمِنُوْا بِهٖۤ اَوْ لَا تُؤْمِنُوْا١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖۤ اِذَا یُتْلٰى عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًاۙ
قُلْ : آپ کہ دیں اٰمِنُوْا : تم ایمان لاؤ بِهٖٓ : اس پر اَوْ : یا لَا تُؤْمِنُوْا : تم ایمان نہ لاؤ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ : علم دیا گیا مِنْ قَبْلِهٖٓ : اس سے قبل اِذَا : جب يُتْلٰى : وہ پڑھاجاتا ہے عَلَيْهِمْ : ان کے سامنے يَخِرُّوْنَ : وہ گرپڑتے ہیں لِلْاَذْقَانِ : ٹھوڑیوں کے بل سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے
ان سے کہہ دو کہ تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ وہ لوگ جن کو اس کے پہلے سے علم ملا ہوا ہے جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں
صالحین اہل کتاب کا طرز عمل : قُلْ آمِنُوا بِهِ أَوْ لا تُؤْمِنُوا إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَى عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلأذْقَانِ سُجَّدًا (107) وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولا (108) وَيَخِرُّونَ لِلأذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (109)۔ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهِ سے یہاں مراد، قرینہ دلیل ہے کہ اچھے اہل کتاب ہیں۔ اہل کتاب میں جس طرح اشرار و مفسدین تھے جو اپنا ایڑی چوٹی کا زور قرآن کی مخالفت میں صرف کررہے تھے اسی طرح ایک گروہ ایسے صالحین کا بھی تھا جو اپنے نبیوں اور صحیفوں کی پیشین گوئیوں کی روشنی میں ایک رسول اور ایک کتاب موعود کا منتظر تھا۔ اس گروہ نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے صحیفہ کے اندر ان پیشین گوئیوں کی جھلک دیگھی جن کے ظہور کے لیے وہ چشم براہ تھا۔ چناچہ ان کا حال یہ تھا کہ ان کو جب قرآن سنایا جاتا تو بےتحاشا سجدے میں گر پڑتے اور اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کے پورے ہونے پر دل و جان سے اس کا شکر بجا لاتے۔ یہ اسی مبارک گروہ کی طرف اشارہ ہے۔ پیغمبر ﷺ کو یہ ہدایت ہوئی ہے کہ تم قریش اور بنی اسرائیل کے مکذبین کو سنا دو کہ تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ میرے اطمینان کے لیے یہ کافی ہے کہ اہل علم کا ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو اس قرآن کو سن کر بےتحاشا سجدے میں گر پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس ایفائے وعدہ کو دیکھ کر اس پر گریہ مسرت و شکر اور گریہ خشوع کی دوگونہ کیفیت و حالت طاری ہوجاتی ہے گریۂ شکر و مشرت کا پہلو تو اس میں ظاہر ہی ہے، زیادت خشوع کا اس میں یہ پہلو ہے کہ اس سے آخرت کے وعدے کی از سر نو یاد دہانی ہوئی ہے کہ جس رب نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا لازماً وہ اپنا آخرت کا وعدہ بھی پورا کرکے رہے گا۔
Top