Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 74
فَجَعَلْنَا عَالِیَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ سِجِّیْلٍؕ
فَجَعَلْنَا : پم ہم نے کردیا عَالِيَهَا : اس کے اوپر کا حصہ سَافِلَهَا : اس کے نیچے کا حصہ وَاَمْطَرْنَا : اور ہم نے برسائے عَلَيْهِمْ : ان پر حِجَارَةً : پتھر مِّنْ : سے سِجِّيْلٍ : سنگ گل (کھنگر)
اور ہم نے اس سرزمین کا اوپر کا تختہ نیچے کردیا اور ان پر سنگ گل کی بارش کردی
فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ۔ عذاب کی نوعیت : یہ اس عذاب کی طرف اجمالی اشارہ ہے جو قوم لوط پر آیا۔ اس عذاب کی نوعیت پر ہمارے استاذ مولانا فراہی نے اپنی تفسیر سورة ذاریات میں مفصل بحث فرمائی ہے۔ ہم اس کا ضروری حصہ یہاں نقل کرتے ہیں۔ مولانا کی تفسیر عربی میں ہے ہم اس کا اردو ترجمہ دے رہے ہیں۔ " قوم لوط پر اللہ تعالیٰ نے غبار انگیز ہوا بھیجی جو سخت ہو کر بالآخر حاصب (کنکر پتھر برسانے والی تند ہوا) بن گئی اس سے اول تو ان کے اوپر کنکروں اور پتھروں کی بارش ہوئی پھر اس نے اس قدر شدت اختیار کرلی کہ اس کے زور سے ان کے مکانات بھی الٹ گئے۔ چناچہ انہیں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ فمنہم من ارسلنا علیہ حاصبا (ان میں سے بعض قوموں پر ہم نے کنکر پتھر برسانے والی آندھی بھیجی) نیز فرمایا، فجعلنا علیہا سافلہا وامطرنا علیہم حجارۃ من سجیل منضود (پس ہم نے ان کی بستی کو تلپٹ کردیا اور ان کے اوپر تہ بہ تہ سنگ گل کے پتھروں کی بارش کی) یعنی ایسی تند ہوا چلی کہ ان کے مکانات اور ان کی چھتیں سب زمین کے برابر ہوگئیں اور اوپر سے کنکریں اور ریت نے ان کو ڈھانک لیا جیسا کہ فرمایا، والمؤتفکۃ اھوی، فغشاھا ما غشی (اور الٹی ہوئی بستیاں جن کو الٹ دیا اور پھر ان کو ڈھانک دیا جس چیز نے ڈھانک دیا) " (تفسیر سورة ذاریات فراہی) سجیل کی تحقیق : لفظ سِجِّيلٍ کی تحقیق مولانا فراہی نے سورة فیل کی تفسیر میں یہ بیان فرمائی ہے۔ ـسجیل دو فارسی لفظوں، سنگ (پتھر) اور گل (مٹی) سے معرب ہے۔ قرآن مجید نے دو طریقوں سے اس کی شرح کی ہے۔ ایک جگہ ہے " وامطرنا علیہم حجارۃ من سجیل، یعنی سجیل کے قسم کا کنکر، دوسری جگہ ہے بحجارۃ من طین، یہ لفظ چونکہ عربی زبان میں شامل ہوچکا تھا، اس وجہ سے قرآن نے اس کو استعمال کیا۔
Top