Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 49
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ
نَبِّئْ : خبر دیدو عِبَادِيْٓ : میرے بندے اَنِّىْٓ : کہ بیشک اَنَا : میں الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : نہایت مہربان
میرے بندوں کو آگاہ کردو کہ بیشک میں بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہوں
آگے کا مضمون۔ آیات 49 تا 79: قریش کے مغروروں کو تنبیہ : آگے پہلے تو ایک مختصر تمہید ہے جس میں یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ خدا کی ڈھیل سے کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ وہ بڑا غفور و رحیم بھی ہے اور بڑا منتقم وقہار بھی۔ پھر قریش کے ان مغروروں کو جو پیغمبر ﷺ فرشتوں کو دکھانے کا مطالبہ کررہے تھے۔ متنبہ کیا گیا ہے کہ فرشتوں کا آنا کوئی آسان بازی نہیں ہے۔ وہ جب آتے ہیں تو کسی مہم ہی پر آتے ہیں۔ اس حقیقت کو تاریخ کی روشنی میں واضح کرنے کے لیے قوم لوط کی سرگزشت سنائی گئی ہے جن کی بستیوں پر سے قریش کو اپنے تجارتی سفروں میں آئے دن گزرنے کے مواقع ملتے تھے اس سرگزشت کو سنانے سے مقصود قریش کو آگاہ کرنا ہے کہ اگر فرشتوں کو دیکھنے کا ارمان رکھتے ہو تو اس انجام سے دوچار ہونے کے لیے بھی تیار رہو جو قوم لوط کا ہوا۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت کیجیے۔ تفسیر آیت 49 تا 50۔ نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (49) وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الألِيمُ (50) اللہ تعالیٰ سے متعلق صحیح تصور : یہ آیت اللہ تعالیٰ سے متعلق صحیح تصور کی وضاحت کرتی ہیں کہ اس کی ڈھیل سے کسی کو اس مغالطے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ نیک اور بد دونوں اس کی نظر میں یکساں ہیں۔ وہ بڑا مہربان بھی ہے اور بڑا ہی منتقم اور قہار بھی۔ جو لوگ اس کی سیدھی راہ پر چلتے ہیں ان کے صبر کی آزمائش کے لیے ان کو امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے لیکن بالآخر وہی لوگ کامیاب وبامراد ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اس کی راہ سے انحراف اختیار کرتے ہیں اگرچہ کچھ عرصہ کے لیے ان کو ڈھیل ملتی ہے تاکہ ان پر حجت تمام ہوجائے لیکن بالآخر ان کو ان کے اس انحراف کی سزا مل کے رہتی ہے۔
Top