Tadabbur-e-Quran - Al-Hijr : 50
وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ
وَاَنَّ : اور یہ کہ عَذَابِيْ : میرا عذاب هُوَ : وہ (ہی) الْعَذَابُ : عذاب الْاَلِيْمُ : دردناک
اور بیشک میرا عذاب بھی بڑا ہی دردناک ہے
تفسیر آیات 51 تا 53: وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ (51)إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلامًا قَالَ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ (52) قَالُوا لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ (53) تاریخ کی ایک شہادت : مذکورہ بالا حقیقت کی تائید میں یہ تاریخ کی ایک شہادت پیش کی گئی ہے کہ جو فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس ایک ذی علم فرزند کی بشارت لے کر آئے وہی فرشتے قوم لوط کے لیے صاعقہ عذاب لے کر آئے۔ قَالَ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ ، فرشتوں سے حضرت ابراہیم کا یہ ارشاد اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اس حقیقت سے باخبر تھے کہ فرشتوں کا یوں علانیہ آنا کسی مہم ہی کے لیے ہوسکتا ہے اس وجہ سے ان کی اس آمد سے ان کو اندیشہ ہو اور انہوں نے اپنے اندیشے کا ان کے سامنے اظہار بھی کردیا۔ قریب ہی قوم لوط موجود تھی اور اس کا اخلاقی فساد اپنی آخری حد کو پہنچ چکا تھا اس وجہ سے فرشتوں کو دیکھ کر حضرت ابراہیم نے یہ محسوس فرمالیا ہوگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم لوط کی شامت اب آگئی ہے اور یہ فرشتے ان کی اسی شامت کا پیش خیمہ ہیں۔ فرشتوں نے حضرت ابراہیم کو اطمینان دلایا کہ آپ اپنے باپ میں کسی بات کا اندیشہ نہ کریں، جہاں تک آپ کا تعلق ہے ہم آپ کے لیے تو ایک ذی علم فرزند کی بشارت لے کر آئے ہیں۔ فرزند کے لیے " علیم " کی صفت کا حوالہ دے کر فرشتوں نے گویا ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف بھی کردیا کہ وہ فرزند صرف فرزند ہی نہیں ہوگا بلکہ علم نبوت سے بھی سرفراز ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس چیز نے اس بشارت کی قدروقیمت بہت بڑھا دی۔ بیٹے کے لیے بڑی سے بڑی چیز جس کی حضرت ابراہیم تمنا کرسکتے تھے وہ یہی ہوسکتی تھی کہ وہ نبی ہو۔
Top