Tadabbur-e-Quran - Al-Faatiha : 2
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰہِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعَالَمِينَ : تمام جہان
شکر کا سزا وار حقیقی اللہ ہے کائنات کا رب
حمد: حمد کا ترجمہ عام طور پر قرآن مجید کے مترجموں نے تعریف کیا ہے۔ لیکن میں نے اس کا ترجمہ شکر کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں بھی یہ لفظ اس ترکیب کے ساتھ استعمال ہوا ہے اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے جس مفہوم کو ہم شکر کے لفظ سے ادا کرتے ہیں مثلاً وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا۔۔۴۳ : اعراف۔ انہوں نے کہا شکر کا سزا وار ہے اللہ جس نے ہمیں اس کی ہدایت بخشی۔ وَاٰخِرُ دَعْوَاہُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔۔۱۰ : یونس۔ اور ان کی آخری صدا یہ ہو گی کہ شکر ہے اللہ کے لئے جو عالم کا رب ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ۔۔۳۹ : ابراھیم۔ شکر ہے اللہ کے لئے جس نے مجھے بڑھاپے میں اسمٰعیل اور اسحٰق عطا فرمائے۔ استعمالات کے لحاظ سے اگرچہ حمد کا لفظ شکر کے مقابل میں زیادہ وسیع ہے، شکر کا لفظ کسی کی صرف انہی خوبیوں اور انہی کمالات کے اعتراف کے موقع پر بولا جاتا ہے جن کا فیض آدمی کو خود پہنچ رہا ہو۔ برعکس اس کے حمد ہر قسم کی خوبیوں اور ہر قسم کے کمالات کے اعتراف کے لئے عام ہے، خواہ ان کا کوئی فیض خود حمد کرنے والے کی ذات کو پہنچ رہا ہو یا نہ پہنچ رہا ہو۔ تاہم شکر کا مفہوم اس لفظ کا جزو غالب ہے۔ اس وجہ سے اس کے ترجمہ کا پورا پورا حق ادا کرنے کے لئے یا تو تعریف کے لفظ کے ساتھ شکر کا لفظ بھی ملانا ہو گا یا پھر شکر ہی کے لفظ سے اس کو تعبیر کرنا زیادہ مناسب رہے گا تاکہ یہ سورہ جس احساس شکر اور جس جذبۂ سپاس کی تعبیر ہے اس کا پورا پورا اظہار ہو سکے۔ یہ اظہار صرف تعریف کے لفظ سے اچھی طرح نہیں ہوتا۔ آدمی تعریف کسی بھی اچھی چیز کی کر سکتا ہے اگرچہ اس کی اپنی ذات سے اس کا کوئی دور کا بھی واسطہ نہ ہو، لیکن یہ سورہ ہماری فطرت کے جس جوش کا مظہر ہے وہ جوش ابھرا ہی ہے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ورحمانیت کے ان مشاہدات سے جن کا تعلق براہ راست ہمارے ذات سے ہے۔ اگر یہ اچھی طرح واضح نہ ہوسکے تو اس سور ہ کی جو اصل روح ہے وہ واضح نہ ہو سکے گی۔ شکر کے لفظ سے سورہ کا یہ پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ اللہ: اس کی وضاحت آیت بسم اللہ کے تحت ہو چکی ہے۔ رب: رب کے معنی پرورش کرنے والے اور مالک و آقا کے آتے ہیں۔ یہ دوسرا مفہوم اگرچہ پہلے مفہوم ہی سے اس کے ایک لازمی نتیجہ کے طور پر پیدا ہوا ہے کیونکہ جو ذات پرورش کرنے والی ہے اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مالک اور آقا بنے۔ لیکن یہ مفہوم اس لفظ پر ایسا غالب ہوچکا ہے کہ اس سے الگ ہو کر محض پرورش کرنے کے لئے اس کا استعمال باقی نہیں رہا۔ قرآن مجید کے مخاطب اول کائنات کا خالق تو، جیسا کہ آیت بسم اللہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے، تنہا اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں لیکن رب انہوں نے اور بھی بنا رکھے تھے جن کی نسبت ان کا گمان تھا کہ خدا نے کائنات کے انتظام میں ان کو اپنا شریک بنا رکھا ہے، اس وجہ سے یہ عبادت واطاعت کے حق دار ہیں۔ یہاں اللہ کے بعد اس کی پہلی ہی صفت رب العالمین بیان ہوئی جس سے مقصود اس حقیقت کو ظاہر کرنا ہے کہ جو اللہ کائنات کا خالق ہے، وہی اس کا مالک بھی ہے کیونکہ وہی سب کی پرورش کرنے والا ہے۔
Top