Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 83
وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖ١ؕ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَتِلْكَ
: اور یہ
حُجَّتُنَآ
: ہماری دلیل
اٰتَيْنٰهَآ
: ہم نے یہ دی
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
عَلٰي
: پر
قَوْمِهٖ
: اس کی قوم
نَرْفَعُ
: ہم بلند کرتے ہیں
دَرَجٰتٍ
: درجے
مَّنْ
: جو۔ جس
نَّشَآءُ
: ہم چاہیں
اِنَّ
: بیشک
رَبَّكَ
: تمہارا رب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
یہ ہے ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم پر قائم کرنے کے لیے بخشی ہم جس کو چاہتے ہیں درجے پر درجے بلند کرتے ہیں بیشک تیرا رب حکیم اور علیم ہے
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعے ان کی قوم پر حجت قائم کر دی وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَا اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ ط نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآئُ ط اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ۔ (الانعام : 73) (یہ ہے ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم پر قائم کرنے کے لیے بخشی ہم جس کو چاہتے ہیں درجے پر درجے بلند کرتے ہیں بیشک تیرا رب حکیم اور علیم ہے ) یہ بات ہم ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ مکی سورتوں کا موضوع عقائد کی اصلاح ہے اور عقائد میں بھی سب سے زیادہ اور سب سے پہلے عقیدہ توحید پر زور دیا جاتا ہے۔ کیونکہ باقی دونوں عقیدے اسی عقیدے سے پھوٹتے ہیں۔ اگر یہ عقیدہ محفوظ نہ رہے تو دوسرے دونوں عقیدے خود بخود ختم ہوجاتے ہیں۔ چناچہ اب تک سورة انعام میں مختلف حوالوں سے اور مختلف اسالیب میں عقیدہ توحید پر بحث کی گئی ہے اور اس سلسلے میں مشرکین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات اور مطالبات کا مناسب جواب دیا گیا ہے اور بار بار انھیں کبھی تفہیم کے انداز میں اور کبھی تنبیہ کے انداز میں وارننگ دی گئی ہے کہ اگر تم نے اپنے عقائد کی اصلاح نہ کی اور تم شرک سے باز نہ آئے تو تم پر اللہ کا عذاب بھی آسکتا ہے۔ گزشتہ رکوع میں خاص طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالہ سے عقیدہ توحید کو ایک نئے اسلوب میں واضح فرمایا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم سے چونکہ قریش مکہ کا رشتہ دو گونہ تھا وہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نسبی وارث بھی سمجھتے تھے اور دینی وارث بھی۔ اس لحاط سے حضرت ابراہیم ان کے لیے سب سے بڑا سرمایہ افتخار تھے اور ہر بات پر وہ بار بار انہی کا حوالے دیتے تھے۔ چناچہ گزشتہ رکوع میں ان کو یہ بتایا گیا کہ دیکھو حضرت ابراہیم مشرک نہیں تھے بلکہ وہ تو توحید کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ البتہ ان کی قوم مشرک تھی اور اللہ کے ساتھ بہت سی چیزوں کو انھوں نے شریک بنا رکھا تھا اور ابراہیم کی ساری دعوت اپنی قوم کو انہی چیزوں سے ہٹا کر توحید کے راستے پر ڈالنے کے لیے تھی جس طرح تم آج محمد رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کر رہے ہو اسی طرح ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی بھی محض اس لیے مخالفت کی تھی کہ وہ شرک کی تردید کرتے اور توحید کی دعوت دیتے تھے۔ پھر شرک کی تردید میں اور اللہ کی وحدانیت پر جو انھوں نے دلیل پیش فرمائی اور جس دلیل کی بنیاد پر انھوں نے صاف صاف اللہ کی توحید کو پیش کیا اس کا ذکر فرمایا گیا ہے اور یہ وہ دلیل ہے جس نے ابراہیم کی قوم کو اگر ایک طرف لاجواب کیا تو دوسری طرف ان کو اتنا مشتعل کردیا کہ وہ ابراہیم کی دعوت کو ہر ممکن طریقے سے روکنے اور ختم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اب اس پیش نظر آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جو ان کے سامنے دلیل پیش کی تھی وہ ان کے اپنے زرخیر دماغ کی سوچ کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ وہ سراسر اللہ کی دین تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ رکوع سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) ایک تفکر اور تدبر کرنے والے دماغ کے مالک تھے وہ کائنات کی ایک ایک چیز پر غور کرتے اور اس سے اللہ کی وحدانیت پر استدلال کرتے یا استدلال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن یہ دلیل محض ان کے تفکر کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ تھی یعنی اس کا مفہوم یہ ہے کہ ابراہیم مسلسل کائنات پر غور کرتے رہے اور وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ یا اللہ یہ تو میں جانتا ہوں کہ تو اس کائنات کا خالق ومالک ہے اور تو نے ہی ہر چیز کو تخلیق فرمایا اور زندگی اور موت تیرے ہی قبضے میں ہے لیکن یہ میں نہیں جانتا کہ تو کیسا ہے ؟ تیری صفات کیا ہیں ؟ تیری رضا کا حصول کس طرح ممکن ہے ‘ میں تیری مخلوق تو ہوں لیکن میری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ میں کیا کروں ؟ جس کے نتیجے میں تجھے پا لوں اور تیری رضا حاصل کرلوں اس طرح کی باتیں ہیں جو نبوت سے پہلے مستقبل کے پیغمبر کے غور و فکر کا موضوع ہوتی ہیں۔ خود آنحضرت ﷺ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ نبوت ملنے سے چند سال پیشتر آپ میں تنہائی پسندی کا ذوق بڑھ گیا تھا اور آپ مسلسل غور و فکر میں ڈوبے رہتے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ غار حرا میں کئی کئی دنوں تک قیام فرماتے اعتکاف کی حالت میں رہتے اور آپ کی عبادت حدیث کی زبان میں تحنث کہی گئی ہے یعنی آپ مسلسل اللہ کی صفات کی معرفت اور اپنے مقصد زندگی کے حوالے سے غو رو فکر میں ڈوبے رہتے اور یہ غور و فکر انبیا میں بڑھتا جاتا ہے تاآنکہ اللہ کا فرشتہ آ کر ان کے سامنے حقیقت واشگاف کردیتا ہے اور پھر ان پر اللہ کی کتاب اترتی ہے انھیں ہدایت سے نوازا جاتا ہے اور جب انھیں حکم ملتا ہے کہ جاؤ اپنی قوم کو جا کر سمجھائو تو انھیں قوم کے پاس دعوت لے جانے سے پہلے دعوت کو پیش کرنے کا طریقہ اور اس کو موثر بنانے کے لیے دلائل عطا کیے جاتے ہیں تاکہ وہ قوم کو اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ کرسکیں۔ اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے غور و فکر کے تسلسل میں بالآخر جب نبوت سے سرفراز ہوئے اور پھر قوم کے سامنے انھیں دعوت پیش کرنے کا حکم دیا گیا تو اللہ نے یہ دلیل انھیں سکھائی جس کا ذکر گزشتہ رکوع میں ہوا اور یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ دلیل ہم نے ابراہیم کو عطا کی تھی تاکہ اس دلیل کو پڑھنے والا اس بات میں یکسو ہوجائے کہ اس دلیل میں جو کچھ کہا گیا ہے اور جو اس سے نتیجہ نکالا گیا ہے اس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں اس لیے کہ قلب و ذہن کی کاوشوں میں چاہے وہ ہزار اخلاص کا نتیجہ ہوں یہ کبھی نہیں کہا جاسکتا کہ ان میں غلطی کا امکان نہیں ہوسکتا کیونکہ کہ انسان کی کوئی کاوش غلطی سے مبرا نہیں۔ غلطی سے مبرا اور پاک اگر کوئی چیز ہے تو صرف وہ علم ہے جو اللہ کی طرف سے وحی الٰہی کے ذریعے رسولوں کو عطا ہوتا ہے تو جب کسی شعبہ علم یا کسی بات کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ اسے اللہ نے نازل فرمایا ہے تو پھر اس کے بارے میں بحث ختم ہوجاتی ہے۔ اب اسے یا ماننا ہے اور سرخرو ہونا ہے اور یا انکار کر کے برباد ہونا ہے۔ اس لیے یہاں ہماری یکسوئی اور ہمارے اطمینان کے لیے ارشاد فرمایا گیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) یقینا غور و فکر کرنے کے عادی تھے لیکن اس دلیل کو ان کے محض غور و فکر کا نتیجہ نہ سمجھنا بلکہ یہ اللہ کی جانب سے عطا کردہ علم ہے جو ہر طرح کی غلطی اور تسامح سے پاک ہے اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہاں یہ بھی فرمایا جا رہا ہے کہ ہم نے ابراہیم کو یہ حجت اور دلیل اس لیے عطا کی تھی تاکہ وہ اپنی قوم کے مقابل اسے پیش فرمائیں اور ان پر حجت تمام فرمائیں اور ان کے شرک اور کفر کی تردید میں اسے استعمال کریں۔ یہ کام وہ ہے جو پیغمبر نبوت ملنے کے بعد کرتا ہے ‘ اگرچہ وہ نبوت سے پہلے بھی اللہ کے علم میں نبی اور رسول ہوتا ہے لیکن خود اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ مجھ پر یہ ذمہ داری ڈالنے والا ہے اس لیے قوم کی اصلاح کے بارے میں وہ ذمہ دار بھی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی بھی رسول کو نبوت سے پہلے قوم کے عقائد کی اصلاح کے لیے کوشش کرتا ہوا کبھی نہیں دیکھتے وہ ایک سیرت و اخلاق کی نظافت و طہارت اور آب و تاب رکھنے والی شخصیت کا حامل تو ہوتا ہے اس کی اپنی ذات یقینا ہر طرح کے عیب سے پاک ہوتی ہے۔ وہ فکر اور عمل کی کسی کج روی کا شکار نہیں ہوتا اسے مسلسل اللہ کی صفات اور اپنے مقصد حیات کو جاننے کی فکر بھی ہوتی ہے لیکن قوم کی اصلاح کے بارے میں وہ فکر مند ہوتے ہوئے بھی کسی تبلیغ و دعوت سے کام کہیں نہیں لیتا یہ کام وہ اس وقت کرتا ہے جب اللہ کی طرف سے اس پر مامور کیا جاتا ہے۔ یہ دلیل جو آپ کو عطا کی گئی اور پھر کہا کہ اس سے قوم پر حجت تمام کرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس وقت ہوا جب آپ کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد پھر یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ اس دلیل میں اگر ہم تکرار کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ غیر خدا کو کہا گیا ہے کہ میرا رب ہے حالانکہ کوئی پیغمبر اپنے رب کے بارے میں کسی شک میں مبتلا نہیں ہوتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ محض اپنی قوم کو سمجھانے کے لیے ایک اسلوب بیان تھا ‘ عقیدے کا اظہار نہیں تھا۔ دلیل کا ایک انداز تھا جس کا مفہوم زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ جیسے تم کہتے ہو کہ یہ ہمارا رب ہے اسی طرح تم یہ بھی سمجھتے ہو کہ یہ میرا بھی رب ہے تو چلو تمہارا سمجھنا اپنی جگہ لیکن آگے بڑھ کر ہم یہ تو دیکھیں کہ جس کی چمک دمک سے تم نے خدائی اخذ کی ہے لیکن ڈوب جانے کے بعد اب اس کی لاش تمہارے قدموں میں پڑی ہے بتائو اب اس کی ربوبیت اور خدائی کے بارے میں کیا کہتے ہو ؟ اللہ تعالیٰ جس کے چاہتا ہے درجے بلند کردیتا ہے اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ ہم جس کے چاہتے ہیں۔ درجے بلند کردیتے ہیں بات چونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہو رہی ہے صاف مطلب یہ ہے کہ ہم نے ابراہیم کے درجات بلند کیے اور درجات کو یہاں جمع لایا گیا اور ساتھ تنوین بھی لائی گئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف درجے ہی بلند نہیں کیے گئے بلکہ درجوں پر درجے بلند کیے گئے یعنی مسلسل اللہ کی طرف سے نوازشات کی ایک بارش تھی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر برستی رہی۔ یوں تو پوری زندگی حضرت ابراہیم کی ذات اللہ کی نوازشات کا مورد رہی ہے لیکن جوانی ‘ آغازِ نبوت اور نبوت کے سفر میں مسلسل یہ انعامات خود بولتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ جب تک آپ کو نبوت نہیں ملی تو اللہ کا آپ پر سب سے بڑا انعام یہ تھا کہ آپ کو ایک غور و فکر کرنے والا دماغ عطا فرمایا گیا۔ جوانی دیوانی کہلاتی ہے جس میں غور و فکر تو دور کی بات ہے سرمستیاں اور بداعمالیاں اس کی پہچان سمجھی جاتی ہیں اور اگر کبھی دماغ سوچتا بھی ہے تو ہمیشہ انہی راہوں پر چلنے کے لیے لیکن ایسی سوچ جو بےسمت نہ ہو اور جس کی ایک متعین جہت ہو اور جو مسلسل اپنی منزل کی تلاش میں ہو یہ اللہ کی وہ عطا ہے جس سے اس کی خاص بندے یا اس کے نبی نوازے جاتے ہیں۔ بعض ایسے نوجوان بھی ہوتے ہیں جو جوانی کو عیاشیوں میں ڈبونے سے تو اجتناب کرتے ہیں لیکن یہ بات کہ انھیں اس کائنات میں غور و فکر کی ایک ایسی عادت ہو جس میں وہ صحیح سمت پر آگے بڑھنا چاہتے ہوں ایسے نوجوانوں کو ڈھونڈا جائے تو لاکھوں میں شائد چند مل سکیں۔ سائنسدانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ غور و فکر ہی انھیں سائنس میں آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے لیکن ان کا غور و فکر خاص حد سے کبھی آگے نہیں نکلتا۔ اور ایک خاص دائرے کی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کرتا۔ نیوٹن کو دیکھ لیجئے اس نے غور و فکر ہی کے نتیجے میں کیسے کیسے اصول دریافت کیے۔ لیکن اس کا یہ غور و فکر مخلوقات تک محدود رہا لیکن بالکل سامنے کی بات کہ آخر پوری کائنات کو اصول کشش کے ساتھ کس نے باندھ رکھا ہے اور وہ ذات کونسی ہے اس منزل تک کبھی اس کا دھیان نہیں پہنچا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر باقی انبیاء کی طرح اللہ کا پہلا انعام یہ ہے کہ اللہ نے انھیں نہ صرف غور و فکر کی عادت سے نوازا بلکہ ان کو صحیح سمت بھی عطا فرمائی اور بالآخر ان کو منزل آشنا بنایا یہ بات جو میں نے عرض کی ہے کہ کم خوش نصیب لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی مرحلے پر رک کر کبھی غور و فکر کرنے کے عادی ہوں۔ یہ بات صرف افراد ہی کی حد تک نہیں قومیں بھی اسی شناخت سے گزرتی ہیں جب کسی قوم پر اللہ کا کرم ہوتا ہے تو وہ قوم لا ابالی پن اور حد سے بڑھی ہوئی لاپرواہی سے بچ کر غور و فکر کرنے کی عادت بنا لیتی ہے جب کوئی حادثہ یا سانحہ ہوتا ہے تو اس کے سوچنے سمجھنے والے دماغ مسلسل اس پر غور و فکر کے بعد اپنے لیے صحیح نتائج اخذ کرتے اور اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جو قوم اس نعمت سے محروم ہوتی ہے ان کی پیٹھ پر حوادث کا بڑے سے بڑا کوڑا بھی برستا ہے تو وہ چیخنے چلانے کے بعد پھر اپنے ڈگر پر چل پڑتی ہے نہ رکنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ رک کر سوچنے کی عادت پیدا کرتی ہے اپنے آپ ہی کو دیکھ لیجئے سقوطِ ڈھا کہ کی صورت میں ہم کتنے بڑے سانحے سے دوچار ہوئے لیکن اس قوم کے سوچنے والے دماغوں نے اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا کوئی عدالتی کمیشن بٹھایا بھی تو اس کی رپورٹ کو روک لیا گیا۔ جہاں تک اجتماعی طرز عمل کا تعلق ہے حکمرانوں سے لے کر عوام تک دور دور تک کوئی تبدیلی تو کیا تبدیلی کے آثار تک بھی نظر نہ آئے کسی شاعر نے اسی کا ماتم کرتے ہوئے کہا تھا ؎ سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں سانحہ دیکھ کر روڈ ایکسیڈنٖٹ میں کسی کا زخمی ہوجانا پریشان کن تو ہے لیکن تعجب خیز نہیں لیکن یہ بات انتہائی تشویش اور تعجب کی ہے کہ سڑک پر زخمی تڑپ رہا ہو اور گزرنے والوں میں کوئی رک کر اس کو مدد دینے کی کوشش نہ کرے۔ ایکسیڈنٹ سے ایک زندگی کو خطرہ ہوتا ہے اور اس رویے سے انسانیت خطرے کا شکار ہوجاتی ہے۔ یہاں اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے جن درجات کا ذکر فرمایا ہے ان کی تفصیل تو بہت طویل ہے لیکن ان میں سب سے پہلا درجہ جو انھیں دوسروں سے نمایاں کرتا ہے وہ ان کا صحیح سمت میں مسلسل غور و فکر کرنا تھا جس سے بطور خاص اللہ نے انھیں بہرہ ور فرمایا تھا ‘ اس کے علاوہ جو ان پر انعامات ہوئے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے ان کی زندگی میں مسلسل ایثار و قربانی کی داستان کو پڑھ لینا چاہیے کہ وہ ایک ایک کر کے سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کرتے چلے گئے اور قدرت نے اس پر مسلسل انعامات کی بارش برسائی۔ وطن چھوڑا تو اس سے بہتر وطن عطا فرمایا ‘ مشرک عزیزوں سے قطع تعلق کیا تو اللہ نے ایسی صالح اور نامور اولاد عطا فرمائی جن سے امتیں وجود میں آئیں۔ ہجرت کی صورت میں ملکوں ملکوں کی خاک چھاننا پڑی تو اس کے بدلے میں اللہ نے بیت اللہ کی ہمسائیگی عطا فرمائی اور اپنے گھر کا متولی بنا کر دنیا بھر کا امام بنادیا اور مزید انعامات کو دیکھنے کے لیے اس کی بعد کی آیات کو غور و فکر سے پڑھنا چاہیے جن میں سے ایک ایک آیت سے ان پر انعامات کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ بیشک تیرا رب حکمت والا اور علم والا ہے یعنی جب کسی کو وہ عطا کرتا ہے تو وہ اندھے کی بانٹ کی طرح نہیں ہوتا کہ جو سامنے آیا اس کو دے ڈالا مستحق محروم رہ گیا غیر مستحق کا دامن بھر دیا۔ اللہ کی عطا تو اس کی علم اور حکمت کا نتیجہ ہوتی ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کون اس عطا کا استحقاق رکھتا ہے اور کون ہے جو اس کی عطائوں کا حقیقی شکرگزار ہوگا۔ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس نے جو بیشمار انعامات سے نوازا تو یہ اس کے علم و حکمت کا تقاضہ تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یقینا جائز طور پر اس کا استحقاق رکھتے تھے اور پھر انھوں نے شکرگزاری سے ہر طرح اپنے آپ کو اس کا سزاوار ثابت کیا۔ نسبی شرافت بھی اعمالِ صالحہ سے ہی فائدہ مند ہوتی ہے اس کے بعد کی آیات کو پڑھنے سے پہلے دو باتیں ذہن نشین کر لینی چاہئیں پہلی بات یہ کہ ذاتی صلاحیت و شرافت کے علاوہ جو چیز آدمی کو دوسروں سے معزز بناتی اور ممتاز کرتی ہے وہ اس کی نسبی شرافت ہے۔ ایک آدمی اپنی ذات میں کتنا بھی عظیم ہو لیکن اگر وہ نسبی شرافت سے تہی دامن ہے تو کبھی نہ کبھی اس کے چھینٹے اس کی ذات پر پڑے بغیر نہیں رہتے۔ اگرچہ ذاتی شرافت ان چیزوں سے ماورا ہوتی ہے لیکن اللہ کے انعامات میں جہاں آدمی کی ذاتی صلاحیت و شرافت ہے اسی طرح قدرت کا یہ بھی بہت بڑا انعام ہے کہ اسے شرافتِ نسب سے نوازا جائے اور یہ نسبی شرافت اگرچہ صرف اس بات کا نام ہے کہ اس کے آبائو اجداد کیسے ہیں۔ لیکن اگر اس میں اس بات کا بھی اضافہ ہوجائے کہ اس کے آبائو اجداد بھی عظیم ہوں اور آگے اولاد بھی ویسی ہی عظمتوں کی وارث ثابت ہو تو پھر تو عزت و افتخار میں وہ اضافہ ہوتا ہے کہ جس میں کسی اور اضافے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اسی نسبی شرافت سے نوازا تھا کہ آپکے آبائو اجداد میں انبیاء و رسل گزرے تھے اور جہاں تک اولاد کا تعلق ہے اس میں باقی دنیا کے بارے میں تو ہم نہیں جانتے لیکن جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے اس میں جتنے نبی اور رسول آئے وہ سارے آپ ہی کی اولاد میں سے تھے۔ جن کی تفصیل ان آیات میں آرہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ انسان کی اللہ کے یہاں سرفرازی اور سرخروئی کے لیے اگرچہ ذاتی ایمان و عمل ہی کام آئیں گے، نام و نسب نہ کوئی فائدہ دے گا نہ کوئی نقصان دے گا۔ اگر آدمی کا دامن ایمان و عمل سے خالی ہے تو اس کے آبائو اجداد کا ایمان و عمل اس کے کسی کام نہیں آئے گا اور اگر وہ خود اس دولت سے بہرہ ور ہے تو اس کے آبائو اجداد خدا نہ کرے اگر کافر بھی ہوں تو اس کا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ لیکن یہ بھی امرواقع ہے کہ اپنے ذاتی ایمان و عمل کے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالیٰ نسبی شرافت بھی عطا فرمائے تو یہ اس کا بہت بڑا انعام ہے اس پر آدمی جائز حد تک فخر بھی کرسکتا ہے اور اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور قیامت کے دن یقینا اسے اس نسبی شرافت کا فائدہ بھی پہنچے گا۔ لیکن اگر وہ نسبی شرافت سے بہرہ ور ہو کر بھی اپنی زندگی ایمان و عمل کے خلاف گزارتا ہے تو یہی عظمت قیامت کے دن اس کے عذاب میں اضافے کا سبب بھی بنے گی۔ مثلاً کوئی آدمی سید ہے اور خود بھی ماشاء اللہ بہت نیک آدمی ہے تو آنحضرت ﷺ سے اس کا یہ نسبی رشتہ قیامت کے دن اس کے درجات میں بلندی کا باعث بنے گا لیکن وہ اگر سید ہونے کے باوجود بداعمالیوں کا ارتکاب کرتا ہے اور اسے کبھی خیال نہیں آتا کہ میں آل رسول میں سے ہو کر یہ کیا حرکتیں کرتا ہوں تو قیامت کے دن صرف اپنی بداعمالیوں کی سزا ہی نہیں پائے گا بلکہ سید ہونے کی وجہ سے دوسروں سے بڑھ کر اسے سزا ملے گی۔ دینِ ابراہیمی کے بارے میں قریش مکہ کی غلط فہمی دوسری بات ان آیات کو پڑھنے سے پہلے جو ذہن میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ قریش مکہ بار بار اس بات کا دعویٰ کرتے تھے کہ ہم حضرت اسماعیل اور حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں اور ہمارا دین ملت ابراہیمی ہے ہم اسی طرح زندگی گزار رہے ہیں جس طرح ہم نے اپنے آبائو اجداد کو پایا انہی کے واسطے سے ہمیں ابراہیم کی یہ وراثت ملی ہے یہی ہمارے لیے فخر کی بات ہے ظاہر ہے ہم اس کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ وہ مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ تم ابراہیمی دین چھوڑ کر بےدین ہوگئے ہو تمہیں واپس اپنے دین میں آنا چاہیے لیکن تم بجائے اپنی فکر کرنے کے ہمیں سمجھانے پر تلے ہوئے ہو کہ ہم غلط راستے پر ہیں۔ ہمیں اسلام قبول کرلینا چاہیے انھیں یہ بات بتائی جا رہی ہے کہ تم نے حضرت ابراہیم اور ملت ابراہیمی کے بارے میں جو تصورات بنا رکھے ہیں وہ سراسر مصنوعی اور غلط ہیں۔ آئو ! ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کے آبائو اجداد کیسے تھے اور آگے ان کی اولاد کیسی تھی ان میں کتنے بڑے بڑے پیغمبر ہوئے وہ دنیا میں صرف اس لیے آئے تھے کہ توحید کی تعلیم دیں اور شرک کا خاتمہ کریں۔ ان کی پوری پوری زندگیاں شرک کی تردید میں اور توحید کو قائم کرنے میں گزریں۔ اسی راستے میں انھوں نے ایک سے ایک بڑھ کے دکھ اٹھائے لیکن مرتے دم تک وہ اسی کی دعوت دیتے رہے لیکن تم نے اس کے بالکل برعکس شرک کو اپنا دین بنا رکھا ہے اور پھر تمہیں اصرار یہ ہے کہ یہی ابراہیم کا طریقہ تھا۔ اس پر انھیں حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی تفصیل بتائی جا رہی ہے کہ شاید وہ اس سے فائد اٹھا کر اپنی گمراہی سے باز آجائیں چناچہ ارشاد فرمایا جا رہا ہے :
Top