Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 82
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠   ۧ
اَلَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا : نہ ملایا اِيْمَانَهُمْ : اپنا ایمان بِظُلْمٍ : ظلم سے اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَهُمُ : ان کے لیے الْاَمْنُ : امن (دلجمعی) وَهُمْ : اور وہی مُّهْتَدُوْنَ : ہدایت یافتہ
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا ‘ وہی لوگ ہیں ‘ جن کیلئے امن اور چین ہے اور وہی راہ یاب ہیں
آیت : 82 اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَھُمْ مُّھْتَدُوْنَ ۔ (جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہیں کیا ‘ وہی لوگ ہیں ‘ جن کے لیے امن اور چین ہے اور وہی راہ یاب ہیں) توحید کے باب میں یہ آخری بات ہے ‘ جس سے عقیدہ توحید کی نزاکت کا احساس ہوتا ہے کہ خدا کو مان لینا اور اس کی کسی حد تک عبادت بھی کرلینا ‘ اس کا اعتبار اس وقت تک نہیں ہوسکتا اور اللہ کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت اس وقت تک نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ آدمی ہر طرح کے ظلم سے اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھے۔ ظلم سے مراد یہاں ہر طرح کی کوتاہی نہیں اور نہ حدود سے تجاوز ہے ‘ بلکہ اس سے مراد شرک ہے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام ظلم سے مراد حقوق و فرائض سے کوتاہی سمجھے اور اس وجہ سے بہت پریشان ہوئے کہ کون ایسا آدمی ہوگا ‘ جو زندگی میں کبھی نہ کبھی حد سے تجاوز یا کوتاہی کا ارتکاب نہیں کرتا ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معمولی کو تاہیاں بھی قیامت کے دن ہمیں امن سے محروم رکھیں گی اور ہم وہاں فلاح و کامیابی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ چناچہ بعض صحابہ اسی پریشانی کے باعث آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی پریشانی اور خوف کا اظہار کیا آنحضرت نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ نہیں ‘ جو تم سمجھ رہے ہو۔ بلکہ اس سے مراد شرک ہے۔ جیسے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے : اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌعَظِیْم (بےشک شرک بہت بڑا ظلم ہے) اس لیے اگر کوئی آدمی قیامت کے دن ‘ عذاب سے بچنا چاہتا ہے اور اس کی یہ آرزو ہے کہ میں اللہ کے عتاب سے امن میں رہوں تو اسے توحید کے معاملے میں نہایت محتاط رہنا چاہیے اور اللہ کی ذات وصفات میں کبھی شرک کی پرچھائیں بھی گوارا نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر رویہ یہ ہوجائے جیسے ہمارا ہے کہ ہم اس معاملے میں حد درجہ غافل ثابت ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں اس حوالے سے بڑی بڑی باتیں نہ صرف برداشت کرلی جاتی ہیں بلکہ ان پر تنقید کرنا رواداری کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے دینی اعتقادات میں جابجا ایسی دراڑیں پڑی ہیں ‘ جس سے عقیدہ توحید بھی معرض خطر میں ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اس صورت حال کی طرف گہرے طنز کے انداز میں توجہ دلائی تھی۔ اے کاش ! اس سے ہم اپنے رویے پر غور کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ انھوں نے کہا تھا کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر جو کو کب میں مانے کرشمہ تو کافر مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے
Top